بے ضمیر ڈاکٹر عرف مریض کو دماغی آکسیجن لگانے کی دکانداری؟


 

پاکستان کا ایک بڑا شہر، معروف علاقہ، بہت بڑا بنگلہ، ہسپتال کا روپ دھارے، دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے ذہنی مریض، لواحقین اور ان میں گھرے ہوئے معروف ذہنی معالج پروفیسر ڈاکٹر!

ایک بند کمرہ اور اس کے دروازے پہ لکھا ہوا اعلان!

ہوشیار! یہاں مریضوں کو دماغ پہ آکسیجن لگائی جاتی ہے لہذا داخلہ ممنوع ہے

ہم پاکستان میں تھے۔ اطلاع ملی کہ ایک قریبی عزیزہ جو کہ ذہنی مریضہ تھیں شدید علیل ہو کے ایک مشہور پرائیویٹ ہسپتال میں داخل ہیں۔ عیادت کرنے کا سوچا، ہسپتال پہنچے، اندر یا باہر کہیں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ پریشان چہرے، مفلوک الحال لوگ لیکن اپنے پیاروں کی محبت میں جان و مال لٹانے کو تیار۔

استقبالیہ سے کمرہ نمبر دریافت کر کے دوسری منزل پہ پہنچے جہاں عزیزہ کے بیٹے، بیٹی، بھائی، شوہر سب موجود تھے اور مغموم تھے۔ معلوم ہوا کہ کچھ دنوں سے ڈپریشن زیادہ تھا اور معمول کی دوائیوں سے ٹھیک نہیں ہو رہیں تھیں۔ پروفیسر صاحب کو دکھانے لائے تو انہوں نے ہسپتال میں داخلے کی ہدایت کی۔

مریض عزیزہ کمرے میں موجود نہیں تھیں۔ معلوم ہوا کہ کسی دوسرے کمرے میں ایک خاص طریقہ علاج کے لئے لے جایا گیا ہے۔ ہمارے پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ انہیں ہر دوسرے دن دماغی آکسیجن لگائی جاتی ہے۔

دماغ پہ آکسیجن” ہم نے استجاب سے پوچھا؟

ہماری ڈاکٹری زندگی ایک دو برس کم تین دہائیوں پہ محیط ہو چلی ہے اور گو کہ ہم ذہنی امراض کے ماہر نہیں پھر بھی یہ علاج پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ چونکہ مریضہ کمرہ علاج میں تھیں سوچا چل کے دیکھا جائے کہ یہ کونسا طریقہ علاج ہے شاید ماڈرن ریسرچ کچھ اور سامنے لائی ہے۔

ہم نے مریضہ کے صاحب زادے سے کہا کہ ہماری رہنمائی کی جائے اور ہم اس کے ساتھ چل پڑے۔ ہم ایک کمرے تک پہنچے جو اندر سے مقفل تھا۔ باہر دروازے پہ اردو رسم الخط میں بڑا بڑا لکھا تھا ” ہوشیار ! یہاں مریضوں کو دماغی آکسیجن دی جاتی ہے اور لواحقین کا داخلہ منع ہے

معلوم ہوا کہ ہماری عزیزہ ابھی اندر ہیں اور ابھی کچھ وقت لگے گا۔ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں؟ کس سے پوچھیں؟ ایک ڈاکٹر صاحب پاس سے گزرے۔ ہم نے لپک کے جا لیا اور دماغی آکسیجن کے متعلق پوچھا کہ آخر یہ ہے کیا؟

انہوں نے تیوریاں چڑھا کے کہا

آپ سے مطلب

ہم نے اپنا تعارف کروایا، بتایا کہ ہم پاکستان سے باہر کام کرتے ہیں۔ ایک دم لہجہ تبدیل ہوا اور بولے،

 ” میڈم آپ پروفیسر صاحب سے پوچھیں

اب ہمارے حیران ہونے کی باری تھی کہ اتنی رازداری کیوں ؟

ابھی ہم ان پہ اپنے تابڑ توڑ سوالوں کی بوچھاڑ کر ہی رہے تھے کہ دروازہ کھلا اور عزیزہ ایک سٹریچر پہ بے ہوشی کی حالت میں لیٹی ہوئیں باہر نکلیں۔

ہم اور حیران ہوئے کہ وہ اس حالت میں کیوں ہیں؟ ان کا بیٹا کہنے لگا کہ جب بھی یہ آکسیجن لگوا کے آتی ہیں بے ہوش ہوتی ہیں۔ ہم نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا وہ شاید کافی جونئیر تھا اور اس کا رنگ اڑ چکا تھا۔ ہمیں کچھ شک ہو چکا تھا، سوچا اب وقت ہے کہ وار کیا جائے،

کیا اس کمرے میں مریضوں کو بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں

ڈاکٹر نے بے بسی سے میری طرف دیکھا اور سر جھکاتے ہوے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہم اپنی چیخ پہ قابو نہ رکھ سکے،

 ” لواحقین اور مریض سے اجازت طلب کیے بنا

ڈاکٹر کہنے لگا، ” میڈم ہمیں پروفیسر صاحب کا حکم ہے کہ کسی کو اصل ماجرے سے نہیں آگاہ کرنا۔ آپ کو میں نے ابھی بھی نہیں بتایا، بس آپ خود ہی جان گیئں تو مجھ سے مزید چھپایا نہیں گیا

کیوں ؟ مگر کیوں ؟ کسی بھی طریقہ علاج کے لئے مریض کی اجازت ضروری ہے اور اگر مریض اپنے لئے خود فیصلہ کرنے کی حالت میں نہ ہو تو پھر لواحقین کی اجازت ضروری ہے

ڈاکٹر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا!

ہم تو شدید غصے کے عالم میں تھے ہی،عزیزہ کے صاحبزادے کی حالت بھی غیر ہوچکی تھی کہ ان کی ماں کو اب تک دس دفعہ بجلی کے جھٹکے دیے جا چکے تھے۔ دس دفعہ ہی وہ بےہوش کی جا چکی تھیں اور ان کو کچھ خبر نہیں تھی۔ کوئی اطلاع، کوئی تفصیل اور کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی۔

میڈیکل کی دنیا کی اخلاقیات کا پہلا بنیادی اصول یہ ہے کہ مریض کا کسی بھی قسم کا علاج کرنا ہو، اسے یا اس کے خاندان کو اعتماد میں لے کے پوری صورت حال بیان کی جائے۔ علاج کے جتنے طریقے موجود ہوں، ان کے بارے میں بتایا جائے۔ ہر طریقے کے فائدے ، نقصان اور پیچیدگیاں تفصیل سے بتائی جائیں۔

مریض یا خاندان کی رضامندی کی صورت میں ایک خاص فارم پہ دستخط لیے جائے ہیں۔ اس سارے عمل کو Consent کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے اگر مریض consent نہ دے، ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کر سکتا۔ اور یہ پوری دنیا میں رائج قانون ہے، اس کو توڑنے والے کو سزا ہو سکتی ہے۔

اور ہمیں کچھ یاد آگیا۔ ہم باہر کی دنیا کے ایک بڑے ہسپتال میں کام کر رہے تھے۔ نئے نئے پاکستان سے آئے تھے اور مریضوں کے حقوق کے معاملے میں ابھی کچے تھے۔ لیبر روم میں ایک مریض دیکھا، جس کے پیٹ میں موجود بچے کے دل کی دھڑکن خراب ہو رہی تھی اور ڈلیوری نہ ہونے کی صورت میں بچے کی موت متوقع تھی۔ ہم نے مریض کو صورت حال سے آگاہ کیا اور سیزیرین کرنے کا پروگرام بنایا۔ مریض نے انکار کر دیا کہ وہ صرف طبعی ڈلیوری چاہتی ہے۔ ہم نے لاکھ سمجھایا کہ بچہ مر جائے گا، لیکن وہ میں نہ مانوں کی تصویر بنی بیٹھی تھی۔

پاکستانی خون نے جوش مارا، مریض کو آپریشن تھیٹر میں منتقل کیا۔ اس وقت تک بچے کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ خیر ہم نے سیزیرین کیا اور بچے کو نرسری شفٹ کیا۔ ہمارے بروقت مولا جٹ ایکشن سے بچہ تو بچ گیا لیکن ہمیں انعام یہ ملا کہ ہماری انکوائری ہو گئی۔ ہم پہ یہ الزام تھا کہ ہم نے بغیر مریض کی اجازت کے اس کے جسم کو ہاتھ لگایا۔ ہمیں بتایا گیا کہ بھلے بچہ موت کو گلے لگا لے، لیکن صورت حال سے آگاہ کرنے کے بعد یہ مریض کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔

پاکستان کے ایک بڑے پروفیسر کے ذاتی ہسپتال میں ہونے والی صورت حال سے سر گھوم چکا تھا۔ بھنائے ہوئے پروفیسر صاحب کے دفتر پہنچے جہاں خوب انتطار کروانے کے بعد انہوں نے ہمیں ملاقات کی اجازت دی۔ ہم نے تعارف کروایا اور چھوٹتے ہی سوال داغا،

ڈاکٹر صاحب یہ دماغی آکسیجن کا کیا مطلب ہے، ہم جو آکسیجن ناک سے جسم میں کھینچتے ہیں، وہ بھی تو دماغ کو ہی جاتی ہے

جواب دینے کی بجائے پوچھا گیا

 ” آپ مریض کی کیا لگتی ہیں؟

رشتہ بتانے کے بعد بھی ایک خاموشی تھی۔ہم نے سوچا کہ حقیقت حال تو معلوم ہے ہی، سو ہمارا اگلا سوال تھا

کیا یہ الیکٹرو کنولسیو تھیرپی -ہے یعنی بجلی کے جھٹکے؟

آپ کو کس نے بتایا؟ ” وہ بھانپ چکے تھے کہ ہم حقیقت کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں۔

ہم چونکہ ان کے جونیئر کا نام نہیں لینا چاہتے تھے، سو کہا ” ہم نے خود سمجھا ہے

ان کے پاس کوئی جائے فرار نہیں تھی سو مانتے ہی بنی۔ اب ہمیں برہم ہونے کا حق تھا،

آپ مریض کی اجازت کے بنا یہ کیسے کر سکتے ہیں ؟

دیکھئے ، مریض اور لواحقین کو بعض دفعہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا بہتر ہے

ہم بولے ” اس صورت میں آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کا ووٹ کس طریقہ علاج کی طرف ہے۔ لیکن کسی بھی مریض کو بے ہوش کر کے بجلی کے جھٹکے لگانا بنا اجازت کس میڈیکل سائنس میں جائز ہے؟ اور دوسری اہم بات یہ کہ دنیا بھر میں بجلی کے جھٹکے لاعلاج ڈپریشن کے لئے استعمال ہوتے ہیں، اور آخری حل سمجھے جاتے ہیں۔ ایسی ادویات آ چکی ہیں جو مریض کے لئے سود مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ کیا آپ نے ان کو آزمایا آخری زینے تک پہنچنے سے پہلے

ان کے پاس میری کسی بات کا جواب نہیں تھا۔ انہوں نے خشمگین نظروں سے ہمیں گھورا اور شکریہ کہا جو اشارہ تھا کہ ہم جا سکتے ہیں۔

اس سارے قصے میں بےہوشی دینے ڈاکٹر کا کردار بھی قابل ذکر تھا جو پیسہ کمانے کے اس کھیل میں پروفیسر صاحب کا ساتھی بنا اور بغیر اجازت اور اطلاع مریض کو بے ہوش کر رہا تھا۔

 المناک اور دردناک پہلو پروفیسر صاحب کا بے رحمی کی حد تک بڑھا ہوا غیر اخلاقی طبی رویہ اور اپنی فیس کا لالچ نہیں تھا بلکہ خاندان کا رویہ تھا جن کے سامنے جب ہم نے بجلی کے جھٹکوں کے خلاف بات کی اور ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کا کہا تو انہیں ہماری بات ماننے میں تامل تھا۔آخر اتنا سینئر اور مشہور پروفیسر کیسے غلط علاج کر سکتا ہے اور اگر اجازت نہیں لی پھر بھی ٹھیک ہے۔

بہر کیف بھاری دل سے خدا حافظ کہا، ہسپتال سے نکلے جہاں خلق خدا مسیحا کی منتظر تھی۔ اس کے بعد بھی ہماری عزیزہ کو پانچ مزید جھٹکوں سے نوازا گیا اور ہسپتال سے رخصتی پہ بل لاکھوں میں تھا۔

ہماری عزیزہ حیات ہیں، لیکن اب ذہنی مرض کے ساتھ بجلی کے جھٹکوں کا تاوان یعنی یادداشت میں بے حد کمی بھگت رہی ہیں۔ ہماری یہ عزیزہ بہت اعلی ادبی ذوق کی مالک تھیں اور ریڈیو پاکستان کی عالمی سروس کی کلاس اے آواز بھی۔ اب تو صرف پرچھائیں باقی ہے۔

ہمیں نہیں سمجھ آ سکا کہ پروفیسر صاحب زندہ لاشوں اور زخمی روحوں کی مسیحائی کر رہے تھے یا دوکانداری؟

کیا آپ کو سمجھ آیا؟

 

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).