ہیوسٹن میں مودی کا جلسہ اور ہمارا لمبی تان کر سونا


گزشتہ دنوں ہیوسٹن میں ہونے والا مودی کا جسہ ہماری پبلک ڈپلومیسی، میڈیا مینجمنٹ اور مشن کشمیر کے لیے بہت سارے سوال چھوڑ گیا۔ ایک زاویہ نظر اس واقعے کو دیکھنے کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی روایتی آلکسی، کاہلی اور کسل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہیں ہیں کہ چلو کوئی بات نہیں ایک جلسہ ہی ہوا ہے نا۔ چھوٹا ہے یا بڑا۔ امریکہ میں ہویا جاپان میں، امریکہ کا صدر اس میں شامل ہو یا نہ ہو، انڈیا کا وزیراعظم دہلی میں جلسہ کرے یا ہیوسٹن میں، کیا فرق پڑتا ہے؟ اس طرح بڑی آسانی سے اس واقعہ کو ہم نظرانداز کر سکتے ہیں۔

ایک دوسرا نقطہ نظر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم عقل والوں کے لیے اس میں کچھ نشانیاں تلاش کریں کریں۔ راولپنڈی اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے یے بابووں، فیصلہ سازوں اور ارباب حل و عقد کے لئے لیے کچھ سوچنے سمجھنے اور منصوبہ بنانے کا سامان مہیا کریں۔ تاکہ یہ لوگ کچھ سوالات اپنے آپ سے پوچھیں کہ کس طرح ہم اپنی تزویراتی ویژن اور اور پبلک ڈپلومیسی میں مہارت کو جانچ کر اور کیا کچھ کر سکتے ہیں کہ پہلے سے بہتر نتائج حاصل کرسکیں۔

ذرا اپنے اس تصور کو مہمیز دیجئے اور اس منظر کو ذہن مین آئے ہے جب ”ہاؤڈی مودی“ کیمپین ہیوسٹن کے این آر جی سٹیڈیم میں اپنے نقطہ کمال کو پہنچی۔ ذرا اس منظر کو ایک بار پھر یاد کیجئے کہ جب بھارتی وزیراعظم مودی صدر ٹرمپ کو اپنی بغل میں لئے یے ہزاروں شور مچاتے انڈینز کے سامنے اس طرح ہاتھ ہلاتا ہوا جارہا تھا تھا جیسے اس نے امریکہ ہی نہیں پوری دنیا کو فتح کرلیا ہو۔ اگر اب بھی آپ کو یہ لگتا ہے ہے کہ یہ منظر ہماری نیم خفتہ اسٹریٹیجی کو جگانے کے لیے کافی نہیں ہے تو چلیے اس میں کچھ اور شامل کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ منظر جس کو بہت زیادہ پاکستنی ٹی وی پر نہیں دکھایا گیا یعنی 25 سے زیادہ امریکی سینیٹرز کا ٹیکساس کے گورنر کے ساتھ ساتھ اس جلسے میں شریک ہونا، سٹیج پر کھڑے ہو کر مودی اور ٹرمپ سمیت ہاتھ میں ہاتھ ڈالنا اور بھارت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا۔ ابھی کافی ہے نا اور کچھ؟

اگر ہم نے پبلک ڈپلومیسی کی دنیا میں میں بھارت کا مقابلہ کرنا ہے ہے تو یہ واقعہ ہمارے سوچنے سمجھنے نے اور کچھ مزید بہتر کرنے کے لئے بہت سارے اسباق مہیا کرتا ہے۔ یہ واقعہ اصل میں پبلک ڈپلومیسی کی بھارتی کوششوں کا ایک حصہ ہے جو اس نے پانچ اگست کو کو ہونے والے بھارتی آئین میں میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکلA 35 میں تبدیلیاں کرکے کیا۔

یہاں سوچنے سمجھنے والوں کے لئے میڈیا مینجمنٹ منٹ کے حوالے سے کچھ کلیدی باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بیانیہ پس منظر میں نہ جائے اور پیش منظر پر چمکتا رہے تو آپ کو انگریزی اصطلاح کے مطابق پرائمری ڈیفائنر (Primary Definer) بننا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے ہے کہ آپ کو کچھ ایسی تخلیقی میڈیا پراڈکٹ تیار کرنی ہوگی جو کہ کسی ایک واقعہ کے حوالے سے آپ کے بیانیہ کو ایک خاص نقطہ نظر سے سے دوسروں کے بیانیے پر فوقیت دے۔ اور اگر یہ آپ کا بیانیہ چل جاتا ہے ہے تو دوسروں کے پاس اس کے سوا کوئی اور انتخاب نہیں ہوگا گا کہ وہ آپ کے پیش کردہ بیانیہ کو آپ ہی کی عینک سے دیکھتے ہوے رد یا قبول کر سکیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں دوسری تمام تفصیلات مثلا ضلع مثلاً پس منظر میں ہونے والے واقعات، اور یہ واقعہ اس نہج تک کیوں پہنچا ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ ذرا دیکھیے یہ بالکل ایسا ہی ہوا ہے جو اس وقت ہم پاکستانی کر رہے ہیں۔ بھارت نے نے اپنے آئین میں تبدیلی کے بعد بعد پرائمری ڈیفائینر کی حیثیت حاصل کرتے ہوئے ایک بیانیہ تشکیل دیا اور اب ہم اسی بیانیے کو رد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس پر اس سارے عمل میں کشمیریوں کی حالت زار، 70 سال سے زیادہ ان پر ہونے والے مظالم، کی حق خودارادیت پارٹیشن کا ایجنڈا سب کچھ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

اب ایک اور زاویے سے اس کو دیکھتے ہیں۔ کوئی بھی اخباری میڈیا نیوز ویلیو یا خبری قدر کے حساب سے کسی بھی واقعے کو کو دو طرح سے دیکھتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ واقعہ حقیقی طور پر رونما ہوا ہو یا ہی کہ اس واقعے کو تخلیق کیا گیا ہو۔ پہلے حوالے سے سے کوئی بھی واقعہ جیسے کوئی حادثہ کوئی قدرتی آفت یا کسی کسی اہم شخصیت کی کوئی بات اپنے اندر خبری قدر رکھتی ہے۔ جبکہ دوسرے حوالے سے ہم ایک ایسی دنیا میں داخل ہوتے ہیں جو کہ میڈیا گروپ کا سپن ڈاکٹرز کی دنیا ہے۔ یہ وہ گروہ ہی جو کسی بھی واقعے، شخصیا کسی ملک کے بیانیہ کو ایک خاص طریقے سے سپن کرتے ہوئے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں۔ یہ میڈیا کو اس خبری اقدار ارکے حوالے سے اس غیر حقیقی ایونٹ کو اس نظر سے دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ یہی اصل حقیقت ہے۔ اور پھر موجودہ دور میں موجود سو شل میڈیا کو یہ میڈیا گرو کچھ اس طرح استعمال کرتے ہیں ہیں کہ فسوں کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اور ہمارے خیال میں ہیوسٹن کے این آر جی اسٹیڈیم میں میں پچھلی اتوار کو یہی کچھ ہوا ہوا۔ اس جلسے میں میں وہ تمام بالی وڈ مصالحہ کے لوازمات موجود تھے جو کسی بھی میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں بھارتی میڈیا گروہوں نے نے سیاسی ایجنڈا کو کو بالی ووڈ اسٹائل میں کچھ اس طرح سے پیش کیا اور کچھ ایسے وقت میں پیش کیا کہ جس سے صرف نظر نہیں ہوسکتا تھا۔

جب آپ آپ خصوصی محنت کے ساتھ پبلک اور میڈیا ڈپلومیسی کو یکجا کرتے ہوئے یے اپنی روایتی ڈپلومیسی کے ساتھ چلاتے ہیں ہیں تو متوقع نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ جب بھارتی بھارتی محکمہ خارجہ اپنے پہلے سے منظم روایتی ڈپلومیٹک رابطوں کو کو مہمیز دے کر اپنی طرف صرف دنیاکی توجہ مبذول کروا رہا تھا تھا تو بھارتی رتی میڈیا ولوں نے پرسپشن مینجمنٹ کا مورچہ سنبھال رکھا تھا۔ کل ملا کر آپ کے سامنے ایسی میڈیا پروڈکٹ پیش کی گئی کہ نہ صرف بھارتی میڈیا بلکہ امریکی میڈیا بھی اگلے دن دن اس کو شہ سرخیوں میں میں پیش کرنے سے اپنے آپ کو نہ روک سکا۔ تو پھر سوچنے کی بات یہ ہے ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ہم کیا غلط کر رہے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک کیوں نہیں ہو رہا۔ جب ہم اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ایک ایسا کیس پیش کر رہے ہیں ہیں جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، لوگوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں دیا جا رہا ہے، لوگوں کو محبوس رکھا جا رہا ہے۔ تو پھر ہمارا بیانیہ قبول عام تک کیوں نہیں پہنچ رہا۔

اس سوال کے بہت سارے مختلف جواب ہو سکتے ہیں ہیں لیکن ایک میڈیا مینجر کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کا جواب کچھ یوں بھی ہو سکتا ہے ہے کہ جب ہمارا محکمہ خارجہ صبح و شام اپنے روایتی انداز میں کہیں کامیابی اور کہیں ناکامیاں سمیٹ رہا ہے تو ہماری پبلک ڈپلومیسی میں بہت کچھ ایسا ہے ہے جو کم رہ گیا ہے۔ یا بہت کچھ ایسا ہے جو کہ ہونا چاہیے مگر نہیں ہوا۔ وہ کیاہے جو ہونے سے رہ گیا ہے انہیں دو اصولوں کو دیکھنا ہوگا گا اور ہمیں میں ایسے ایونٹ تخلیق کرنے ہوں گے گے جو دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ حاصل کر سکیں کے۔ یہ سب کچھ مزید تفصیل کا متقاضی ہے۔ تو اس کے لئے انگلی نشست میں بات کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).