نشئی چور اور ٹھیکیداروں کی حکومت


محلہ کی نکڑ پہ پانی کا نل تھا۔ سارا محلہ اور راہ گیر مسافر اس نل کے پانی سے فیضیاب ہوتے۔ نل سے رسنے والے پانی سے چھوٹا سے جوہڑ بن گیا جس پہ دن رات مکھیاں مچھر اور دوسرے جراثیم پرورش پانے لگے۔ نل سے پانی رسنے کے پیچھے بھی اک کہانی تھی۔ ہوا کچھ یوں نل کی ٹوٹی اک رات نشئی قسم کے چور اتار کر لے گئے اور اس کی جگہ نل کے منہ پہ چھوٹی سی لکڑی ٹھونس گئے۔ اس لکڑی کو عوامی زبان میں ڈکا کہا جانے لگا۔ اگلی صبح جب لوگوں نے ٹوٹی کو غائب پایا سب نے چوروں کو سخت سست کہا ان کی لعنت ملامت کی اور پھر سے پانی بھرنے میں مصروف ہوگئے۔

اب ہر کوئی پانی بھرنے کے بعد وہی لکڑی کا ڈکا نل کے منہ میں ٹھونستا اس پہ دو جوتیاں رسید کرکے اس ٹائٹ کرتا اور گھر کی راہ لیتا۔ صحتمند لوگوں کی جوتیوں میں طاقت ہوتی اس سے نل ٹائیٹ ہوجاتا جس سے پانی رسنے کا کوئی احتمال نہ رہتا۔ اس کے برعکس چھوٹے، ضعیف اور کمزور لوگ کی جوتیاں بوسیدہ ٹوٹی ہوئی ہوتی نہ ہی ان میں مطلوبہ طاقت ہوتی جس سے ٹوٹی ٹائٹ ہوسکے اس لئے تھوڑا تھوڑا پانی ٹپکتا رہتا۔

اسی ٹپکتے ہوئے پانی سے چھوٹا سا جوہڑ بن گیا تھا جو بیماریوں کا گھر تھا۔ پہلے تو لوگوں نے اس بات سے صرف نظر کیا کون نل کیسے بند کرہاً ہے کون صحیح کون غلط لیکن جب آہستہ پانی نے جوہڑ کی شکل اختیار کرنا شروع کی تب محلہ کی نکڑ یعنی نل پہ توتکار سے ہوتی ہوئی بات ہاتھا پائی پہ پہنچنے لگی۔ ”تم نے نل صحیح طرح بند نہیں کی“، ”تم میں جان نہیں“، ”تمہاری وجہ سے ساری گلی ساری بستی بیمار ہوئی ہے“ وغیرہ وغیرہ۔ اس کی طرح باتیں پھر روز کا معمول بننے لگیں۔ اک دن تو حد ہی ہوگئی جب سارا محلہ دو گروپوں کی شکل اختیار کرکے دست و گریبان ہوگیا۔ چند بڑوں نے بڑی مشکل سے اس شرط پہ بیچ بچاؤ کرایا کے شام کو دین محمد کے آستانے پہ میں اس مسئلہ کا مستقل حل تلاش کیا جائے گا۔

دین محمد صاحب اس بستی کے سب سے پرانے بزرگ اور قابل احترام ہستی تھے اگرچہ انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ بیرون ملک گزارا مگر اس دیار سے ان کی محبت میں کمی نہ آئی۔ کمی آتی بھی کیسے اس گلشن کو تو ان کے پرکھوں نے شاد آباد کیا تھا۔ یہ بستی یہ محلہ اصل میں دین محمد صاحب کے آبا کی زمین پہ آباد ہوئی تھی۔ پہلے پہل ان کے مزارعین، مریدین اور عقیدت مند یہاں مقیم تھے پھر آہستہ آہستہ مزارعین کے دوست رشتہ دار اور کئی اور لوگ بھی آبادکاروں میں شامل ہوگئے۔ دین محمد صاحب کے والد چراغ دین صاحب اک خدا پرست درویش بزرگ تھے باپ کی عادتیں دین محمد صاحب کو بھی وراثت میں ملیں۔ جہاں گرد دین محمد صاحب کئی سال ارض مقدس پہ گزار کر اک دن پہلے پاکستان آئے تھے۔

شام ہوئی سارا محلہ اکٹھا ہوکے دین محمد صاحب کے آستانے پہ پہنچ گیا پنچایت اکٹھی ہوگئی۔ اب دین محمد صاحب سرپنچ تھے۔ سرپنچ پہلے تو سٹپٹائے کیا ماجرا مگر جلد ہی ان کو معاملات کی نزاکت سمجھ آنے لگی۔ پنچائت کے سرپنچ نے حکم دیا صرف گھر کا سربراہ اور جوان مرد حضرات یہاں موجود رہیں باقی عورتیں اور بچے گھروں کو چلے جائیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ سرپنچ نے شروع سے سارا مسئلہ سنا کیسے نل کی ٹوٹی چوری ہوئی کیسے نل پہ لکڑی کا ڈکا لگا اور پھر کیسے جوہڑ بنا۔

اب سرپنچ نے بڑے ٹبوں میں جوہڑ کا پانی منگوایا اور اک طرف کھڑے لڑکوں سے کہا اس میں ناک ڈبوئیں۔ لڑکے چیں بچیں تو ہوئے مگر تعمیل کے سوا چارہ نہ تھا۔ اس کے بعد سرپنچ گھر کے سربراہوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ سب اپنے گھروں کے سربراہ تھے مگرسرپنچ کے سامنے بچے اور سرپنچ کو بچوں ہی طرح عزیز تھے۔ سرپنچ نے جوتا اتارا اور سب کا ڈکا ٹائٹ کرنا شروع کردیا۔ تاکہ آئندہ پانی کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ رہے نہ ہی جوہڑ بنے۔

آخر میں سرپنچ نے سب کو مخاطب کرکے کہا یہ بستی تمہارا گھر ہے۔ نشئی چور بھی اس بستی کے ہیں۔ اگر پہلے دن سب اکٹھے ہوکر چور کا گلا ناپتے نئی ٹوٹی لے آتے تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ قطرہ قطرہ رستے پانی پہ تم ڈکا لگا کر جوتے رسید کرتے رہے مگر مستقل حل ندارد۔ تم جیسے لوگوں کا حل ہی جوتیاں ہیں۔

شاید ہمارا حال بھی اسی بستی جیسا ہے جہاں مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے منتظر فردا ٹوٹیوں پہ جوتیاں رسید کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں ٹاؤن کمیٹیاں، محلہ کمیٹیاں، سکول کمیٹیاں ہوتی تھیں جو بہت سے مسائل اپنی مدد آپ کے تحت نمٹاتی تھیں۔ مگر پھر ہم نے ٹھیکیداروں کو منتخب کرنا شروع کردیا جو ہر الیکشن پہ نالیوں، سڑکوں اور گٹروں کے نام پہ ووٹ لے کر ہمیں گندے جوہڑ کے کنارے لاکھڑا کرتے ہیں۔ مینڈکوں کی جنت ہی گندے تالاب ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).