وزیر اعظم عمران خان کا غیر معمولی دورہ امریکہ


وزیر اعظم عمران خان کے ایک ہفتے پر محیط دورہ امریکہ کو مشن کشمیر کا نام دیا گیا تھا، امریکہ پہنچنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان وقت ضائع کیے بغیر چومکھی لڑائی لڑنے کے لیے پوری طرح متحرک رہے، اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس سے پہلے انہوں نے تھنک ٹینکس، ایڈیٹوریل بورڈ ز، کونسل آن فارن ریلیشنزاورایشائی کمیونٹی سمیت مختلف نوعیت کے درجنوں فورمز پر اظہار خیال کیا، محتاط انداز کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے دورے کے دوران ستر سے زائد شیڈول ملاقاتیں کیں۔

ان تمام ملاقاتوں میں وزیر اعظم عمران خان نے یک نکاتی ایجنڈا، کشمیر رکھا اور مقبوضہ وادی میں بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد انسانی حقوق کی سنگین صورتحال، کرفیو کے ذریعے وادی کے مکمل محاصرے اوراس اقدام کے پیچھے برسراقتدار جماعت بی جے پی کی سوچ اور انتہاپسندانہ نظریے سے دنیاکو آگاہ کیا جس کا کلائمیکس جنرل اسمبلی تقریر تھی۔

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں کسی بھی رہنما کے لیے تقریر کامقرر وقت 15 منٹ ہوتا ہے لیکن کم ہی رہنما اس کی پاسداری کرتے ہیں، اس کی بڑی مثال کیوبا کے سپریم لیڈر فیڈل کاسترو ہیں جنھوں نے 1960 میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں تقریباً ساڑھے 4 گھنٹے کی طویل تقریر کی، وزیرعمران خان کی تقریر 50 منٹ پر محیط تھی جس میں آخری 26 منٹ وہ کشمیر پر بولے، کوئی شک نہیں 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی فوج کے مقبوضہ کشمیر میں داخلے کے بعد کشمیر کے حوالے مودی سرکار کا غیر آئینی اقدام سب سے بڑا واقعہ ہے اور حالات کا تقاضا تھاکہ پاکستان ایک بار پھر عالمی ضمیر کو جنجھوڑنے کے لیے اس سب سے بڑے عالمی فورم کا استعمال پوری قوت کے ساتھ کرے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع سے استفادہ کیا اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے نہ صرف کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت اور وادی میں عوام کی حالت زار دنیا کے سامنے رکھی بلکہ پہلی بار عالمی فورم پر آر ایس ایس کو ایک دہشتگرد تنظیم کے طور پر پیش کیا اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے پر پڑا نقاب بھی اتار پھینکا۔ وزیر اعظم نے دنیا کو یاد دلایاکہ مودی نہ صرف آر ایس ا یس کے تاحیات رکن ہیں بلکہ انہوں نے ہندتوا کے فلسفے کو گجرات میں مسلمانوں کے خون ہولی کھیل کر عملی جامہ بھی پہنایا۔

یہ وہی مودی جن پر گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ وزیر اعظم نے مقبوضہ وادی کے محاصرے کے ضمن میں اقوام عالم سے نپے تلے سوالات کیے؟ 80 لاکھ عوام 55 روز سے ایک کھلے جیل میں ہیں، اگر دنیا میں صرف آٹھ ہزار یہودی یا اتنی تعداد میں جانور بھی کہیں قید ہوں تو دنیا چیخ اٹھے گی، تو کشمیریوں کے لیے خاموشی کیوں؟ وزیر اعظم نے دنیا کو خبر دارکیا کہ مادہ پرستی سے نکل کشمیریوں کو ان کا حق دلائیں، بھارت کو 1 ارب 20 کروڑ افراد کی مارکیٹ کی نظر سے دیکھنا چھوڑ دیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ آپ کی ساری سرمایہ کاری لے ڈوبے گی۔

ہم ایک اللہ کے ماننے والے ہیں، بھارت کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے جنگ کو ترجیح دیں گے اور دو ایٹمی طاقتوں کی جنگ کے شعلے ہماری سرحدوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں ہالی ووڈ فلم، ڈیتھ وش، کا بھی حوالہ دے کر مغرب کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انصاف نہ ملانے پر رد عمل فطری ہے، دہشتگردی ہر گز نہیں۔ وزیر ا عظم کے اس واضح موقف کی بھی بھرپور ستائش کی جانی چاہیے کہ پاکستان سے جہاد کے نام پر کوئی مسلح جتھہ مقبوضہ کشمیر بھیجنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، وطن واپسی پر ان کا بیان کہ کشمیریوں کے کے ساتھ کھڑا ہونے کو جہاد سمجھتے ہیں، کو درست تناظر میں سمجھنے کی ضروت ہے، یہ ان کے اقوام عالم میں بیان کی نفی ہرگز نہیں۔

وزیر ا عظم نے جس استدلال کے ساتھ دنیا کو مسئلہ کشمیر کی سنگینی کا احساس دلایا اس سے انکار ممکن نہیں تاہم اس دورے میں بڑی ناکامی بھی ان کی خارجہ ٹیم کاحصہ بنی۔ اقوام متحدہ انسانی حقو ق کونسل میں کشمیر کے حوالے سے قرارداد پیش کرنے کے لیے سولہ ووٹ درکار تھے تاکہ رکن ممالک کے درمیان اس اہم مو ضوع پر بحث ہوسکے لیکن ایسا نہ ہوسکا، سفارتی ذرائع کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی ہمیں ووٹ نہیں دیا۔

باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے 58 ممالک کی حمایت کا د عوی ٰبے بنیاد تھا، یوں اگر بمشکل 16 ممالک کی حمایت مل بھی جاتی تو مخالف میں 100 سے بھی زیادہ ووٹ آتے جس سے سفارتی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا، یوں اچھا ہوا کہ مطلوبہ تعداد ہی پوری نہیں ہوئی۔ یہاں یہ بات بھی ذہین نشین رہنی چاہیے کہ یہ وہی انسانی حقوق کونسل ہے جس کی گزشتہ سال کشمیر کے حوالے سے رپورٹ نے بھارت کو پوری دنیا میں رسوا کر کے رکھ دیا تھا۔

رپورٹ میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں کے ساتھ کس طرح مظالم ڈھا رہا ہے، پیلٹ گن سے سیکڑوں شہری بنائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد ایمنسٹسی انٹرنیشنل سمیت دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر کی جانب متوجہ ہوئیں اور صورتحا ل کو روزانہ کی بنیاد پر مانیٹر کرنا شروع کردیا۔

وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کا دوسرا انتہائی اہم نقطہ اسلامو فوبیا اور ناموس رسالت ﷺ تھا۔ وزیر اعظم نے نہایت ہی موثر انداز میں اس سب سے بڑے عالمی فورم سے اقوام عالم کے ساتھ مقالمے کی بنیاد رکھی۔ وزیر اعظم نے دہشتگردی کو اسلام سے جوڑنے کی صرف چند جملوں میں روایتی مذمت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ٹھوس دلائل اور سری لنکا کے تامل ٹائیگرز اور دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں کی جانب سے خود کش حملوں کی مثالیں دے کر بتایا، کہ اس طرح کے حملوں کو اسلام سے جوڑنا سراسر غلط اور انصا فی ہے۔

اسلام امن وسلامتی کا درس دیتا ہے اور ہم آخری بنیﷺ کے پیروکار ہیں، وزیر اعظم نے یہودیوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہاکہ ہولوکاسٹ پر اگر آپ کو تکلیف ہوتی ہے تو رسول پاک ﷺکی شان میں گستاخی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔ وزیر اعظم نے ایک ہی جملے میں فرانس سمیت پورے مغرب کو حجاب پر پابندی کا بھی کرارا جواب دیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بے نظیر بھٹو شہید کی طرح اسلام اور مغرب کے درمیان کنفیوژن کو مکالمے کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی، بے نظیر بھٹو کی آخری کتاب ”ری کنسیلی ایشن، اسلام، ڈیموکریسی اینڈ ویسٹ“ اس حوالے سے اہم تصنیف مانی جاتی ہے، وزیر اعظم عمران خان نے اسی سوچ کو آگے بڑھایا ہے۔

ایسے میں سوچتا ہوں کہ ایک وقت ایسا تھا جب ملک میں پیپلزپارٹی مخالف قوتیں اور بالخصوص علماء حضرات ذوالفقار علی بھٹو کو کا فر گردانتے تھے لیکن قدرت نے اسی ذوالفقار علی بھٹو سے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا عظیم کام لیا، یہ سعادت کسی مولوی کے حصے میں نہیں آئی۔ دہائیوں بعد مذہبی قوتوں کی جانب سے عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے تو اس نے دنیاکے سب سے بڑے ایوان میں ناموس رسالتﷺ کا مقدمہ اس جانداز طریقے لڑا کہ علماء بھی داد دیے بغیرنہ رہ سکے۔

بلاشبہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر ہر حوالے سے شاندار رہی، اس تقریر نے دنیا بھر کے عوام کو ایک با رپھر قائد عوام ذولفقار علی بھٹو کی یاد دلادی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بعد عمران خان وہ وزیر اعظم ہیں جنھیں ناصرف انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل ہے بلکہ وہ طویل عرصہ بیرون ملک رہنے کی وجہ سے مغرب کی نفسیات کو خوب سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں اہل مغرب کی نبض پر ہاتھ رکھا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے ساتھ منی لانڈنگ پر بھی مغرب کو آئینہ دکھایا۔ مدلل انداز میں بڑی طاقتوں سمیت ایف اے ٹی ایف کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی آپ منی لانڈنگ کی وجہ سے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے تو بے تاب ہیں، لیکن یہ پیسہ چوری ہوکر اپنے ملک میں آنے کو کوئی ا عتراض نہیں، ترقی پذیر ممالک سے منی لانڈنگ روکنی ہے تو ایسے لو گوں کو کرپشن کے پیسے سے اپنے ملکوں میں جائیداد نہ خریدنے دیں۔ بلاشبہ ہوسٹن میں مودی اور ٹرمپ کے کامیاب شو کے بعد کپتان نے اس بڑے میچ میں بھرپور کم بیک کیا لیکن ان سب باتوں کے باجود ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے اقوام متحدہ جنر ل اسمبلی کا اجلاس ہمیشہ سے ایک ڈبیٹنگ فورم ہی رہا ہے، یہاں کی دھواں دھار تقریوں کا اثر بہت ہی کم دیکھا گیا ہے۔

فلسطینی رہنمایاسر عرفات نے بھی 1974 میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے ایک ہاتھ میں شاخ زیتون ہے جبکہ دوسرے میں کلاشنکوف، اب یہ دنیا پر منحصر پر ہے کہ میں کس کا ا ستعمال کروں؟ اس تقریر کی اس وقت خوب دھوم مچی مگر فلسطین کے باب میں دنیا آج بھی خاموش ہے، حتی کہ عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کر تے جا رہے ہیں، اس حقیقت کو مذ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اب اس تقریر کے سحرسے جلد از جلد باہر نکل آنا چاہیے، یہی ہمارے لیے سود مند ہوگا۔

عالمی برادری کے دروازے پر مسلسل دستک دینے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل طے کیا جائے اور کشمیریوں کو دنیا کے سامنے آب بیتی سنانے کو موقع دیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اب مسئلہ کشمیر کی طرح معاشی محاذ پر بھی اپنی سمت درست کرنا ہوگی وگرنہ دوسرے سال بھی ناکامیوں کا سلسلہ جاری رہا تو جہاں پاکستان کے عوام کے لیے جینامشکل ہوجائے گا وہیں مقبوضہ وادی میں منتظر کشمیری بھائیوں کی بھی ہم کسی طور مدد نہیں کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).