خیبر پختونخواہ کے لڑکیوں کے سکولوں میں برقعے کیوں تقسیم کیے گئے؟


خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں ایک سرکاری مڈل سکول میں مقامی حکومت کی جانب سے لڑکیوں میں ٹوپی والے برقعے تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ ضلعی ناظم کا کہنا ہے کہ یہ برقعے اس علاقے کی روایت ہے اور مقامی لوگوں کے مطالبے پر یہ برقعے تقسیم کیے گئے ہیں۔ یہ برقعے پاکستان تحریک انصاف کے مردان ضلع کونسل کے رکن کی جانب سے رستم کے علاقے چینہ میں قائم لڑکیوں کےسرکاری مڈل سکول میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ برقعے ضلع کونسل کے فنڈ سے خریدے گئے ہیں اور ان برقعوں کے لیے ایک لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے۔

ضلعی اراکین کے مطابق یہ برقعے مقامی روایات کے مطابق لڑکیوں کو دیے گئے ہیں کیونکہ اس علاقے میں پردے کے لیے یہی ٹوپی والے برقعے پہنے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رکن ضلع کونسل مظفر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر یونین کونسل کو اس سال دس لاکھ روپے فنڈز ملے ہیں جو مقامی لوگوں کو ضرورت کے مطابق خرچ کئے گئے ہیں۔ گذشتہ سال فنڈز پانچ لاکھ روپے ملے تھے جس سے بچیوں کو سکول یونیفارم دیا گیا تھا اس سال خواتین اساتذہ اور علاقے کے لوگوں نے برقعوں کا مطالبہ کیا تھا جسے تسلیم کرلیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں کوئی سیاست یا کوئی بد نیتی شامل نہیں ہے بلکہ علاقے کی روایات، ضرورت اور مقامی لوگوں کے مطالبے پر فراہم کیے گئے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والےضلع مردان کے سابق ناظم حمایت اللہ مایار نے بی بی سی کو ٹیلیفون پر بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے سرکاری سکولوں میں صرف کتابیں فراہم کی جاتی ہیں لیکن یونیفارم اور سٹیشنری نہیں دی جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں ضلعی حکومت نے سرکاری سکولوں میں یونیفارم اور سٹیشنری فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اب رستم کے علاقے چینہ میں مقامی لوگوں کے مطالبے پر پردے کے لیے لڑکیوں کو برقعے فراہم کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے سرکاری فنڈ سے ایک لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔

اس بارے میں سوشل میڈیا پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔

ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی صدر عصمت شاہ جہاں نے تعلیمی اداروں میں طالبات کے لیے بُرقعے فراہم کرنے کے فیصلے پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیے جا رہے ہیں۔ عصمت شاہ جہاں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے تشویش لاحق ہوتی ہے اس طرح کے اقدامات راولپنڈی اور لاہور میں کیوں نہیں کیے جاتے۔

یاد رہے اس سے پہلے محکمہ تعلیم کی جانب سے پشاور اور ہری پور کے افسران نے طالبات کے لیے سکولوں میں برقعے، چادریں اور عبایہ پہننا لازمی قرار دے دیا تھا جس پر سخت رد عمل سامنے آیا تھا اور پھر وزیر اعلیٰ محمود خان نے یہ حکم نامہ واپس لے لیا تھا۔ ٹویٹر پر لوگوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ برقعہ چادر یا پردہ کرنا ہر انسان کی ذاتی پسند نا پسند پر منحصر ہے سرکاری سطح پر اس کے اہتمام کی ضرورت نہیں ہے۔

شفیق خواجہ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ حکومت کو تعلیم کے معیار کی طرف توجہ دینی چاہیے نہ کہ برقعے یا عبائے خریدنے پر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp