باون پتے اور بھابھی


پنجاب کے تھڑے روایات، ثقافت اور خبر کا ذریعہ رہے ہیں۔ آج بھی دیہات میں موجود کسی پیپل کی گھنی چھاؤں کے نیچے بیٹھے حقا کشی کرتے پینڈ کے طاقتور ویلے، سیانے تاش کے باوں پتے تقسیم کرتے ہوئے۔ سیاست، مذہب اور وارث شاہ کو یاد کرنا نہیں بولتے۔ ”ماں دایا خصما اے پتے پھینٹے نی“ کہنے کے بعد جونہی پتوں کی تقسیم ہوتی ہے، وہیں سے سیاست شروع۔

بھابھی ٹھولا کھیل ہے بھی کچھ ایسا ہی کسی کے ہاتھ کھیل جیتنے والے پتے لگتے ہیں تو کسی کے حصے میں کمزور۔

اس کھیل کے چار کھلاڑی اس معاشرے کے سب سے طاقت ور لوگ ہیں۔ ان میں سے ایک تو وہ جو صرف سونگھ کے یہ بتا سکتا ہے کہ فلان نے آج کھایا کیا ہے؟ اپنی اسی خداداد صلاحیت کی بنا پر سب اسے خبری کہتے ہیں۔ ان میں سے ایک وہ صاحبِ فراست ہے جو خوشی، غمی کے اوقات میں تیار دیگوں پر خودساختہ نگرن مقرر ہوتے ہیں۔ انہیں ہم بھی انتظامیہ ہی کہتے اور پکارتے ہیں۔ ہر گھر کے معاشی اور معاشرتی حالات کے راز دان ہیں یہ جناب۔ تیسرے درویش اور صوفی بزرگ ہیں، ہمارے پنچایتی منصف بھی یہی بابا رحما ہیں۔ اور چوتھا مگر سب سے طاقتور کھلاڑی نمبردار ہے۔ اب آپ کا تعارف تو آپ کی زورآوری سے ہی ہو جاتا ہے۔

اس کھیل کا سب سے ماہر اور پرانا کھلاڑی نمبردار ہے۔ اول تو اسے ہرانا مشکل ہے دوسرا وہ بھابھی بننا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے جب بھی لگے کہ اب ہار مقدر ہے۔ تو، کھیل کے درمیان میں ہی خبری کی سونگھنے والی باکمال صلاحیت کی تعریف کرتے ہوئے انتظامیہ کا دیگ چکھنے والا واقعہ بابا رحما کے سامنے دہرا دیتے ہیں اور یوں بابا رحما کے کھیل پر لعن طعن کرنے کے بعد نمبردار تھڑے پر اپنا خاندانی حق جتاتے ہوئے قابض ہو جاتا ہے۔

یہ کھیل ہر بار اسی طرح ہی کھیلا جاتا ہے۔ تاش کے باون پتے باری باری ان چاروں کے ہاتھوں میں ہی گردش کرتے ہیں۔ بار بار پھینٹی کھا کھا کے جب یہ پتے پھٹنا شروع ہو جاتے ہیں تو نمبردار نیا تاش لے آتے ہیں۔ ان باون پتوں اور تھڑے کا مالک کل بھی نمبردار تھا اور آج بھی وہی ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک خبری سونگھنے کی بجائے سوچنا شروع نہیں کرتا، انتظامیہ چکھنے کی بجائے نگران نہیں بنتی اور بابا رحما لعن طن چھوڑ کر فقط انصاف پر بھروسا نہیں کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).