سائنسی پیر


ہم خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ اس دھرتی پہ پیدا ہوئے جہاں اللہ کے ولی آتے رہے ہیں۔ کچھ اولیا دور دراز کے علاقوں سے سفر کر کے آئے اور کچھ نے اسی دھرتی پر جنم لیا۔ وہ کیا لوگ تھے جنھیں بھوک ڈراتی تھی نہ نفس ورغلاتا تھا نہ کوئی دنیاوی خواہش ان کا راستہ روکتی۔ دنیا کی آسائشوں سے کنارا کش ہو کر جنگل بیابانوں میں نکل جاتے اور خلوت میں خدا کی ذات سے رازو نیاز کرتے۔ وہ لوگوں کے تنگ کرنے، سوال اٹھانے پر انھیں بد دعائیں نہیں دیتے تھے بلکہ طعنہ زنی پر خاموشی اختیار کرتے۔

وہ مضبوط ایمان والے خود کو منوانے کی کوشش کرنے کی بجائے چپ چاپ سولی چڑھ جاتے۔ لیکن جلا کر بھسم کرنے کی دھمکیاں نہیں دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سیکنڑوں برس گزرنے کے بعد بھی ان کے نام زندہ ہیں۔ وہ لوگ نا پید ہو چکے البتہ روحانیت کا لبادہ اوڑھے ڈھونگیوں کا جم غفیر جمگھٹا لگائے بیٹھا ہے۔ جو خود کو ولی اللہ ظاہر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ایسے ڈھونگی سفید لباس، سر پہ سفید پگڑی یا کسی سے نسبت ظاہر کرنے کو مخصوص ٹوپی پہنے ہر گلی کوچے میں آستانہ کھول کر بیٹھے ہیں ویسے تو روحانیت کا آستانوں سے کوئی تعلق نہیں کہ روحیں تو آزاد پھرتی ہیں۔

روحانیت کا گلی محلوں میں روحانی علاج کے نام پر کھلے آستانوں میں بیٹھے جعلی پیروں، عاملوں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ تو وہ طائر لاہوتی ہیں جو پیری کے ذریعے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔ روحانی تسکین کے لئے خدا کے گھر (مسجدیں ) تو بند ہوگئے کہ وہ اب نماز کے مخصوص اوقات میں ہی کھلتے ہیں البتہ جگہ جگہ پیروں کے آستانے کھل چکے ہیں جس کا روح کی تسکین سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہیں۔ اب تو بس پیروں کی بہتات ہے کہ شاید ہی کوئی شہر کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں آستانہ عالیہ نہ ہو۔

پیروں کی فراوانی کا یہ عالم کہ ایک اینٹ اکھاڑو اور اندر سے دس پیر برآمد کر لو۔ جس علاقے میں کوئی پیر آستانہ بنا کر نہ بیٹھا ہو اس علاقے کے بارے تصور کر لیا جاتا ہے کہ یہاں ضرور گناہگاروں کی تعداد زیادہ ہے تبھی کوئی نیک بندہ (پیر ) یہاں آکر بستا نہیں۔ لہذا اہل علاقہ علاقے کی پاکیزگی کے لئے کہیں سے پیر ڈھونڈ ڈھانڈ کر لے آتے ہیں۔ اور پیر صاحب کی روحانی برکات سے فیض حاصل کرتے ہیں اور اگر کوئی پیر نہ ملے تو اہل علاقہ ہی سے کوئی شخص اپنی قربانی دے کر ذاتی طور پر پیری کے درجے پر بیٹھنے کو تیار ہو جاتا ہے تاکہ اہل علاقہ آفتوں سے محفوظ رہیں۔ وہ تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اصل آفت خود پیر صاحب ہی تھے۔

ایسے پیروں کے پیروکار بھی عجیب ہوتے ہیں۔ یہ اپنے پِیروں پر اس قدر بھروسا کرتے ہیں جتنا شوہر اپنی بیوی کے پَیروں پر جس کے بارے انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان ہی پَیروں کے نیچے اس کے بچوں کی جنت ہے۔ یوں تو پِیروں کو کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے جیسے بابا سرکار، پیر، مرشد، زندہ پیر، ننگا پیر، کاواں والی سرکار، کھوتے والی سرکار یا پھر لِٹوں والے بابا جی۔

ان کا ایمان کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اگر کچھ اچھا ہو تو پیراں دی کی کرامت اے اور خدانخواستہ اگر کچھ برا ہو جائے تو فورًا شکوے کے لئے خدا سے رجوع کیا جاتا ہے کہ پوری دنیا چ تینوں میں ای لبے آں ساں۔ اگر مجھ جیسی ناقص العلم پیر صاحب کی کرامت پر شبہ ظاہر کرے یا پھر یہ کہہ دے کہ یہ پیر صاحب کی کرامت نہیں بلکہ کسی کام کے ہونے کا اللہ کا مقرر کردہ وقت ہے تو پیر صاحب کی شان میں گستاخی کی وجہ سے فوراً خارج از ایمان کا سرٹیفیکیٹ مل جاتا ہے۔

پیر صاحب تو دور ان کے مرید بھی جلا کر بھسم کر ڈالنے کی دھمکی پہ اتر آتے ہیں۔ اگر ان سے پوچھاجائے کہ پیر صاحب کو کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تو جواب پیروں کی بجائے ان کے پیروکاروں کی طرف سے آتا ہے اور ہم جیسے ”بے علموں“ کے علم میں لایا جاتا ہے کہ یہ اتنے نیک اور اللہ والے ہیں کہ انھیں اللہ نے نماز روزہ سب کچھ معاف کر رکھا ہے۔ پیروں پر اندھا اعتقاد ہونے کی بنا پر انھیں یقین ہوتا ہے کہ پیر صاحب کا تعویذ سنگ دل محبوب قدموں میں ڈال دیتا ہے اور سنگ دل ساسوں سے نجات بھی دلاتا ہے۔

بے اعتقادی کا یہ عالم کہ خاتون کی طلاق کی وجہ چاہے ذاتی عادات ہوں لیکن ملبہ ساس کے کے ان تعویذوں پر ڈال دیا جاتا ہے جو ان کے خیال میں فالج کے باعث بستر سے اٹھنے کی سکت نہ رکھنے والی حال کی مریضہ اور مستقبل کی مرحومہ ساس نے کروائے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر کوئی یہ چاہتا ہے ہے وہ بنا محنت کیے راتوں رات امیر ہو جائے اسی لئے لوگ عمر بھر کی پونجی پیر ڈبل شاہ کے پاس لے جاتے ہیں اور ڈبل کرنے لئے پیر ڈبل شاہ کو دے آتے ہیں جو اسے لے کر فرار ہو جاتا ہے اور خود امیر ہو جاتا ہے۔

نا پختہ عقیدے کے مارے لوگ جلالی پیروں کی کرامات پر یقین کامل رکھتے ہوئے ان کی ہر ناجائز بات مانتے ہیں کہ جائزبات تو پیر صاحب کرتے ہی نہیں۔ الو کے خون سے لکھے پکے تعویذ حاصل کرنے کے لئے لاکھوں روپے اجاڑ دیے جاتے ہیں۔ دشمن کو اجاڑنے کے لئے ایسے لوگ اپنے ہی گھر اجاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ حاسدوں اور رشتہ داروں کے شر سے بچنے کے لئے قبرستانوں میں جا جا کر تعویذ دفن کرتے ہیں ہیں حالانکہ کسی کے شر سے بچنے کے لئے تعویذوں کی نہیں محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔

جو نیا نکور پیر ابھی کام میں کچا ہو دشمن کے مرنے کے لئے اگر خالی دعا کرنے کا کہہ دے تو اس پر یقین نہیں کیا جاتا حالانکہ نوے نکور پیر کو اپنی کالی زبان پرپانچ سو فیصد پورا بھروسا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا اعتقاد ہوتا ہے کہ انھیں دعا کی نہیں دوا یعنی تعویذ کی ضرورت ہے۔ پیر صاحب کا قبرستانوں میں جا کر چلہ کاٹنے کا بتانا بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ کام یً بے اثر اور تعویذ ادھورے ادھورے لگتے ہیں دوسروں کا رزق ختم کرنے کے لئے لوگ پہلے اپنے بچوں کا رزق ختم کر کے ہزاروں کی مد میں پیسے پیروں کو تھما آتے ہیں۔

دشمن کا رزق ختم ہو نہ ہو ان کے اپنے رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے جس کی وجہ بھی وہ دشمن کی بری نظر کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ ایسے لوگ اپنے دشمن تو خود ہوتے ہیں۔ اس کا نقصان مرید کو پیسے اور ایمان گنوا کر اور فائدہ پیر کو ہوتا ہے جس کی چرب زبانی اور جھوٹ سے پیر کا کاروبار عروج پکڑتا ہے۔ مذہبی لبادے میں لوگ جہالت کے آستانے کھول کر بھیٹے ہیں اور یہ آستانے صرف ان پڑھ جاہلوں کی وجہ سے قائم نہیں بلکہ اس جہالت میں اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں۔

۔ حیرت کی بات ہے کہ کئی پڑھے لکھے اعلی تعلیم یافتہ لوگ بھی پیروں کے مرید ہوتے ہیں۔ اور تو اور ہمارے سیاسی لیڈروں کے دم سے بھی پیروں کے آستانے آباد ہیں۔ اور انھیں سیاسی سر پرستی حاصل ہوتی ہے۔ ہر سیاستدان کا اپنا پیر ہے۔ ہمارے بیشتر سیاستدان یا تو اپنا ذاتی آستانہ رکھتے ہیں یا دوسروں کے آستانوں پہ اپنا شانہ رکھتے ہیں۔ مصدقہ و غیر مصدقہ ذرائع سے یہ خبر بھی آتی ہے کہ اس بار تو حکومت بھی آستانے کے دم پر ہی کھڑی ہے۔

خدا جانے آستانہ بچانے کے لئے حکومت ٹرم پوری کرتی ہے یا حکومت بچانے کے لئے آستانہ قائم رکھنا پڑتا ہے۔ ان پیروں کے آستانوں سے بہت سارے لوگوں کا رزق جڑا ہے۔ یقین کیجیئے جتنا منافع اس کاروبار میں ہیں شاید ہی کسی اور کاروبار میں ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).