کرشمہ کا کرشمہ، حقیقت یا افسانہ؟


چترال کی پہاڑیوں میں لڑکیوں کے لئے فٹبال ٹورنامنٹ کی شغل سامانی کرنے والی چترال کی ہونہار بیٹی کرشمہ علی نے حال ہی میں چترالی ایمبرائڈری اور ملبوسات کو عالمی فیشن شو کا حصہ بنا کر فیشن کی دنیا میں بھی اپنی کرشمہ سازیوں سے نام پیدا کر لی۔

ہر معاشرتی مسئلہ سے متعلق متضاد اور انتہا پسندانہ رویوں کی طرح کرشمہ کے کردار بارے بھی دو قسم کے رویے دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔

ایک گروہ نے اس کردار کو بے حیائی اور بے راہ روی کی ایک کڑی قرار دے کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے اور دوسرا کرشمہ کو چترالی خواتین کے لیے مسیحا، چترالی کلچر کی سفیر اور چترالی بچیوں کی آزادی کی نقیب بنا کر پیش کر رہا ہے۔

پہلا گروہ اپنے رویے سے ایک بیٹی کو بغیر کسی وجہ کے ”شہید“ کا درجہ دینے پر تلا ہوا ہے جبکہ دوسرا گروہ حقوق نسواں کے نام پر بغیر کچھ سوچے سمجھے اسے ہیرو بنا کر پیش کر کے دوسری ہونہار بیٹیوں کی خدمات کو یکسر نظر انداز کرکے صرف کرشمہ اور اس کے کردار کو شاہراہ ترقی کی جانب سفر کی سبیل گردان رہے ہیں۔

اب ذرا اس پورے معاملے کا جائزہ لیتے ہیں اور اس ایچویمنٹ کا موازنہ دوسری بیٹیوں کی کامیابیوں سے کرکے ہیں کہ کیا ”تعریف“ کی مستحق صرف کرشمہ ہی ہے یا چترال کی بیٹیوں کے مثبت کردار کی کچھ مثالیں اور بھی موجود ہیں؟

قربان بی بی وہ سیلف میڈ بیٹی ہے جس نے نہ صرف اپنی مدد آپ کے تحت اپنا کاروبار ایسٹیبلش کیا بلکہ ساتھ ساتھ ابھی تک 1200 مزید بیٹیوں کو ٹرین کیا ہے اور انھیں ان کا کاروبار بھی ایسٹیبلش کر کے ان کے حوالے کیا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور عظیم بیٹی، زبیدہ سرنگ، جو کہ نیدر لینڈ میں میڈیکل پریکٹس کر رہی ہے، نے حال ہی میں ”آپٹکس میڈ ایزی“ کے نام سے کتاب لکھی ہے جو کہ امیزون کی ”ٹاپ 100 پیڈ“ کی لسٹ میں شامل رہی۔ اس کتاب کو آپٹکس کی دنیا میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

میڈیکل سے تعلق رکھنے والی ایک اور قابل فخر بیٹی، عفت کہکشان، نے حال ہی میں گائینی سے متعلق ایک کتاب ”سیکریٹس آف گائینی“ لکھی ہے جو میڈیکل کے طالب علموں کے لئے ایک نعمت قرار دی جا رہی ہے۔ یہ بیٹی خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں گائینی میں ایف سی پی ایس کر رہی ہے اور اس قابل فخر دختر چترال نے جون 2019 میں ”ایم آر سی او جی 1“ (ممبرشپ آف رائل کالج آف گائناکالوجسٹ، یو کے ) کا امتحان بھی کلئیر کیا ہے۔

اس کے علاوہ کئی بیٹیوں نے عالمی سطح پر کئی شعبوں میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں۔ کئی اسکالر شپ لے کر عالمی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں۔ کرشمہ کا کرشمہ سازی بھی ان میں سے ایک ہے۔ لیکن، اگر غور سے دیکھا جائے تو کرشمہ کے برعکس ان بیٹیوں کا کارنامہ زیادہ اہم اور زیادہ لائق تحسین و تعریف ہے۔

میری نظر میں دونوں رویے ٹھیک نہیں ہیں۔ پہلا رویہ اس لئے درست نہیں کہ کرشمہ ایک آزاد انسان ہے، جہاں چاہے جا سکتی ہے اور جو کرنا چاہے کر سکتی ہے، لہذا اس کی آزاد روی پر شور مچانا درست نہیں۔ دوسرا رویہ اس لیے غلط ہے کہ کرشمہ کے کام سے بڑھ کر بھی ہماری کچھ بیٹیوں نے کام کیا ہے، جو کہ اجتماعی فوائد اور ملکی ترقی کے حوالے سے کرشمہ کے کام سے زیادہ اہمیت کے حامل اور زیادہ نفع بخش ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت ساری بیٹیوں نے چترال کا نام روشن کیا ہے۔

یہ کوئی انوکھا کام نہیں ہے۔ ان بیٹیوں اور ان کے کاموں کو بھی اسی طرح پبلسٹی دی جائے تو اچھا ہوگا۔ لیکن، بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ گلیمر کے پیچھے بھاگتے ہیں اور سپرفیشل چیزوں کو ایڈمائر کرتے ہیں، جبکہ قابل ستائش چیزیں جن کا معاشرے کی عمومی بہتری اور ترقی میں گہرا اثر ہوتا ہے ان کا نہ پرچار کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی تعریف کرنا گوارا کرتے ہیں۔

مختصرا، ہمارے کچھ مجاہدین جنہوں نے قوم کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے، کرشمہ کی کامیابی کو ہضم نہیں کر پا رہے اور ان پر فتوی لگا رہے ہیں اور کچھ حضرات اس کو اوور ریٹ کر کے پیش کر رہے ہیں۔

اول الذکر گروہ برائے نام کلچر کا رکھوالا بن کر اس کی مخالفت کو ’جہاد عظیم‘ سمجھ رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس رویے سے کوئی بہتری آنے والی نہیں، بلکہ اس کا الٹا اس کا ریکشن آئے گا جو کہ ہم میں سے کسی کے لئے بھی پوزیٹو عمل نہیں ہوگا۔ جبکہ آخر الذکر اس کی بلا وجہ تعریف اور تشہیر کر کے اپنے اپ کو حقوق نسواں کا علمبردار بنانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دوسرے قسم کے انتہا پسندوں کی روش سے دوسرے میدانوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والی چترال کی بیٹیاں اپنے جائز حقوق سے یکسر محروم کر دی جا رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).