سومناتھ پر رومیلا تھاپر کی کتاب کا جائزہ


ابن انشا کا اورنگ زیب عالمگیر پر یہ جملہ بہت مشہور ہوا ہے کہ یہ وہ بادشاہ تھا جس نے نہ کوئی نماز چھوڑی اور نہ کوئی بھائی چھوڑا۔ لیکن ابن انشا سے کئی سو سال پہلے سلطان محمود غزنوی کے درباری شاعر فرخی نے اسے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا سلطان معظم آپ نے سرزمین ہند پر نہ کسی جنگجو کو چھوڑا ہے اور نہ کسی ہاتھی کو۔

گزشتہ چند برسوں سے مشہور بھارتی تاریخ نویس پروفیسر رومیلا تھاپر کا نام لے کر محمود غزنوی اور سومناتھ کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ میری دو تحریریں بھی 2016 ء میں ہم سب پر شائع ہو چکی ہیں۔ ایک ہی موضوع پر بار بار لکھنا کچھ اچھی عادت نہیں لیکن ایک صاحب علم ڈاکٹر عزیز ابن الحسن صاحب نے میری پرانی تحریر پر کچھ سوالات اٹھائے ہیں، جن سے تعرض کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔

جن لوگوں نے پروفیسر رومیلا تھاپر کی سومناتھ پر کتاب نہیں پڑھی میں ان کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پروفیسر صاحبہ نے اپنی کتاب میں نہ محمود غزنوی کی صفائی پیش کی ہے، نہ یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بہت نیک اور درویش منش بادشاہ تھا جو صرف مندروں کی زیارت کے لیے ہند کے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا اور تیرتھ یاترا کے بعد غزنی واپس لوٹ جاتا تھا۔ مندروں میں پائی جانے والی دولت کی طرف تو اس نے کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے محمود غزنوی پر مندروں کو گرانے، ان کی توہین کرنے، وہاں لوٹ مار کرنے اور بتوں کو توڑنے کے الزامات سب انگریزوں کے پھیلائے ہوئے افسانے ہیں جو انھوں نے ہندووں اور مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے کی خاطر گھڑے تھے۔ بالخصوص سومناتھ پر حملہ، مندر کو گرانا، وہاں پر موجود بت کو توڑنا تو بالکل ہی غلط ہے۔

ہو سکتا ہے یہ سب باتیں درست ہوں لیکن ان کا پروفیسر رومیلا تھاپر کی کتاب سے کوئی تعلق نہیں۔ کتاب کے باب اول کا افتتاح اس جملے سے ہوتا ہے : 1026 ءمیں محمود غزنوی نے سومناتھ کے مندر پر حملہ کیا، اسے لوٹا اور بت کو توڑ دیا۔ اس کے بعد صفحہ 50 پر فرماتی ہیں کہ سومناتھ پر حملہ کامیاب تھا اور لوٹ کا مال بے پناہ تھا۔

چنانچہ رومیلا تھاپر نے محمود غزنوی سے منسوب کسی کارنامے سے انکار نہیں کیا۔ ان کی کتاب کا موضوع کچھ اور ہے۔ کیا سومناتھ پر حملہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ اس نے ہندووں اور مسلمانوں کے مابین مستقل نفرت کا بیج بو دیا اور اس کے بعد دونوں قوموں میں ایک دائمی عداوت کی بنیاد پڑ گئی؟ ان کی ساری تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ محمود کے ہندوستان پر حملے، مندروں میں لوٹ مار، بالخصوص سومناتھ پر حملہ تاریخی تناظر میں اتنے اہم واقعات نہیں کیونکہ یہ اس زمانے کا معمول تھا۔ خود ہندو راجے مہاراجے بھی مندروں پر حملے کرتے رہتے تھے۔ البتہ محمود کے ان حملوں کے بیان کرنے میں مسلمان، بالخصوص مسلم ہند کے مورخین نے بہت مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے، ان کے بیانات میں بہت سے تناقضات ہیں۔

جہاں تک ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی منافرت کا تعلق ہے تو انگریزوں کی آمد سے کئی سو سال پہلے البیرونی اس کا ذکر کر چکاہے۔ اس نے جب ہند کے علوم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسے بے پناہ مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ برہمن لوگ غیر قوم کے افراد سے ملنا ہی پسند نہیں کرتے تھے کجا یہ کہ وہ اپنے علوم کی تعلیم دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ اوپر سے دوہری مصیبت محمود کی تاخت و تاراج تھی۔ چنانچہ اسے کہنا پڑا کہ محمود کے حملوں نے ہندوستان میں اس قدر تباہی مچائی تھی کہ ہندو مستقل طور پر مسلمانوں سے نفرت کرنے لگے تھے۔

رومیلا تھاپر نئی دہلی میں اپنی مطالعہ گاہ میں

کتاب کے دوسرے باب میں ہندووں کی پرانی کتابوں کی مدد سے سومناتھ کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس مندر کا ذکر مہابھارت اور پورانوں میں موجود ہے۔ مہابھارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدا میں یہ وشنو مت کے ماننے والوں کا مندر تھا جو بعد میں مہادیو شیوکے ماننے والوں کا مرکز بن گیا۔ شہر بندرگاہ ہونے کی بنا پر کئی صدیوں تک اہم تجارتی مرکز رہا ہے۔ ایک زمانے میں بدھ مت کے پیروکاروں کا بھی یہاں غلبہ رہا تھا۔ آٹھویں صدی سے یہاں پر عرب تاجروں کی آمد و رفت بھی کافی تھی۔ محمود غزنوی کے حملے کے چار صدیاں بعد تک یہ اہم تجارتی بندرگاہ رہی ہے۔ بعد ازاں مغربی ساحل پر نئی بندرگاہوں کے وجود میں آنے اس کی اہمیت کم ہونا شروع ہو گئی اور رفتہ رفتہ سومنات کا مندر بھی تغافل کا شکار ہو گیا۔

تیسرے باب میں ترک اور فارسی تاریخ نویسوں کے بیانات کا ذکر کیا گیا ہے۔ رومیلا تھاپر کے مطابق سب سے معقول بیان البیرونی کا ہے۔ محمود غزنوی کے بعد بھی گجرات کے مسلمان سلاطین نے کئی بار سومنات پر حملہ کیا اور اکثر کتابوں میں مندرکو بار بار مسجد میں تبدیل کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی تفصیل میں الگ سے بیان کروں گا۔

کتاب کے چوتھے باب میں سنسکرت زبان میں ملنے والی تحریروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہمارے دانش ور حضرات اس کی بنا پر بہت تکرار سے بیان کر رہے ہیں کہ سنسکرت کتابوں میں چونکہ محمود کے حملوں کا کوئی ذکر نہیں ملتا اس لیے رومیلا تھاپر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایسا کوئی حملہ نہیں ہوا۔ رومیلا تھاپر نے سنسکرت میں ملنے والے کتبوں اور تجارتی معاہدوں، سفر کی رودادوں میں محمود کے حملے کا ذکر نہ ملنے پر حیرت کا اظہار ضرور کیا ہے لیکن کہیں یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا کہ یہ حملوں کے عدم وجود کو ثابت کرتے ہیں۔ کوئی بھی پروفیشنل مورخ، جس کو اپنی عزت کا ذرا بھی پاس ہو، اس قسم کی بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ بات تاریخ نویسی کے بنیادی اصولوں کے منافی ہو گی۔ پروفیسر تھاپر ایک تربیت یافتہ پروفیشنل تاریخ دان ہیں، ان کا ساختیات، مابعد جدیدیت یا کلونیل سٹڈیز قسم کی خرافات سے کوئی تعلق نہیں۔ ہندو کتابوں میں تذکرہ نہ ہونے کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہندو اس زمانے میں تاریخ نہیں لکھتے تھے۔

ان کی بات کا مقصود کچھ اور ہے۔ اگر سومنات پر حملہ، جیسا کہ انیسویں صدی سے دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ ہندووں کے لیے اتنا بڑا سانحہ تھا جس نے آئندہ کی صدیوں میں ہندو مسلم تعلقات میں ایک تصادم اور منافرت کی فضا پیدا کر دی تھی توپھر اس کا تذکرہ عام ہونا چاہیے تھا۔ اگر کسی نے تذکرہ نہیں کیا تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہندووں کی نظر میں یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔ مندروں پر حملے اس زمانے میں ہوا ہی کرتے تھے۔ خود ہندو حکمران بھی یہ کام کرتے رہتے تھے۔

محمود کے حملے کے بارہ برس بعد، 1038 ء میں گوا کے علاقے کے حکمران کی سومنات یاترا کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت مندر موجود تھا، یعنی محمود نے اسے گرایا نہیں تھا۔ مندر کو گرانے کا شاید کسی مسلمان مورخ نے بھی ذکر نہیں کیا۔ فرخی نے کہا ہے کہ اسے نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ بیسویں صدی میں ہونے والی آرکیالوجی کی تحقیقات میں آتش زنی کے کچھ شواہد ملے ہیں، جس سے فرخی کے بیان کی تائید ہوتی ہے۔ اسی طرح جو بت ملا ہے اس سے بھی کچھ ٹکڑوں کو علیحدہ کرنے کا پتہ چلتا ہے جس سے البیرونی کے بیان کی تائید ہوتی ہے۔ سنسکرت تحریروں سے غوریوں کے زمانے میں ہونے والے حملوں کا بھی سراغ ملتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2