ترپن کروڑ کی مناجات
اسد محمد خان کی لازوال چودہ کروڑ کی مناجات کا ابھی شور تھما نہیں کہ کچھ اور مناجاتوں کا مول 53 کروڑ تک پہنچ گیا۔ وہ جو اس خاک میں تبدیلی کا بگولہ اٹھا تھا، قوم کو اس کا ایک کسری حصہ 53 کروڑ میں برداشت کرنا پڑا ہے۔ ٹھیک ہے بھائی آزادی کی قیمت اگر بیش بہا جانیں ہوں سکتی ہیں تو تبدیلی کی قیمت صرف 53 کروڑ میں کیا بری ہے؟ ابھی تو تخت اچھالنے ہیں، ابھی تو تاج گرانے ہیں۔ محکوموں کے پیروں تلے دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکانے آخر پیدل تو نہیں جانا نا، اس لئے کچھ لینڈ کروزر، کچھ 1800 سی سی گاڑیاں، کچھ 1300 سی سی گاڑیاں اشد ضروری ہیں جو کہ درویش خیبر پختونخواہ حکومت نے پچھلے دو سالوں میں53 کروڑ کی حقیر رقم سے خریدی ہیں۔
ابروئے چشم کو دراز کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیجیئے گا کہ یہ ”قیاس“ نہیں ”اجماع“ ہے۔ خیبر پختونخواہ حکومت کا صوبائی اسمبلی میں جمع کرایا گیا وہ سرکاری جواب ہے جو تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ یہ گاڑیاں ایمبولینسیں یا اسی طرح کی کسی اور عوامی خدمت کیلئے نہیں بلکہ صوبائی وزرائ، پارلیمانی سیکرٹریوں، مشیران کی سواری کے لئے خریدی گئی ہیں اور ظاہر ہے ان کی ادائیگی آپ کے اور ہمارے سرکاری ٹیکس کے پیسے سے ہی کی گئی ہے۔ جمہوری طرز حکومت میں عوام اپنے پیسے کا مصرف پوچھنے کے حقدار ہوتے ہیں (یہ حق مرکزی حکومت کی باز پرس کے لئے بہت جاندار طریقے سے میڈیا اور عوام مل کر استعمال کررہے ہیں) تو کیا اسی صوبائی حکومت کو لگے ہاتھوں اپنے ہی صوبے کے کچھ اضلاع کے عوام کی مناجاتیں نہ سنوا دی جائیں؟
شروع کرتے ہیں وزیرستان کے ہمسائے دہشت گردی سے شدید متاثر ڈیرہ اسمئیل خان ضلع سے۔ نہ نہ اس نام سے آپ کے ہونٹوں پرایک مولانا اور ایک پپی ادھر، ایک پپی ادھر، کا تصور کر کے جو خفیف مسکراہٹ آئی ہے، اسے ذرا رفع کیجیئے کہ 20 لاکھ نفوس پر مشتمل پنجاب کے اس سرحدی ضلع میں 35 فیصد عوام اقوام متحدہ کی طے کردہ ”غریبی لائین“ سے نیچے رہ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس تعریف کے مطابق جو شخص ایک دن میں ”ایک ڈالر سے بھی کم“ کماتا ہے، وہ غریب ہے۔ اس ضلع کے تقریبا سات لاکھ افراد ایک دن میں سو روپے سے بھی کم کما رہے ہیں۔ دہشت گردی سے متاثرہ نقل مکانی کر کے بے خانماں ہو جانے والوں کی ایک کثیر تعداد یہاں مقیم ہے۔ یہاں صرف ایک ضلعی ہسپتال ہے جہاں ڈاکٹروں کی کمی، بستروں کی کمی، ادویات کی کمی جیسے روایتی مسائل جوں کے توں چلے آرہے ہیں۔ روزگار کے وسائل کی عدم دستیابی، صفائی، سیوریج، صاف پانی کے ہولناک مسائل کا شکار اس ضلعے کے عوام تبدیلی کے امیدوار، آج بھی خان کی اس للکار پر لبیک کہتے ہیں جب وہ تخت لاہور کو پکارتا ہے کہ عوام کو میٹرو نہیں، ہسپتال چاہیئے، سڑکیں نہیں، سکول چاہیئے۔ اس ضلع کے کچھ افراد اپنی مناجاتوں کا نوحہ روتے ہیں کہ کاش انہیں بھی اس 53 کروڑ سے کچھ حصہ مل جاتا، کچھ ان کی زندگی میں بھی ”تبدیلی“ آ جاتی۔۔۔
ضلع کرک، تیل و گیس سے مالا مال ایک انتہائی پسماندہ ضلع۔ آٹھ لاکھ افراد، 37 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے، پورے ضلع میں کوئی سرکاری گائناکالوجسٹ ، انیستھیزائسٹ، پتھالوجسٹ، فزیشن، سایکولوجسٹ، بلڈ بینک آفیسر، سکن سپیشیلسٹ، ہارٹ سپیشلسٹ اور فزیو تھراپسٹ نہیں۔ صرف ایک بچوں کا سپیشلسٹ ہے۔ یہ نہیں کہ یہ سیٹیں ہیں نہیں، کوئی اس پسماندہ اور دہشت گردی کا شکار ضلع میں آنے کو تیار نہیں۔ اضافی الاؤنس پر وہ آ جائیں لیکن الاؤنس کے لئے رقم کہاں سے آئے؟ رقم تو انقلابی گاڑیوں پر لگتی ہے۔ تعلیم، صفائی کا تو ذکر ہی کیا کرنا، گیس کی یہاں سے برامد کے باوجود علاقے کے عوام گیس دستیابی کے لئے دھرنا دینے پر مجبور ہیں۔ صوبائی حکومت نے حال ہی میں وفاقی ادارے ”اوگرا“ سے گیس کی سہولتوں کو دراز کرنے کیلئے 8۔6 ارب روپے مانگے ہیں۔ 53 کروڑ کے کچھ کروڑ انہیں اور کچھ نہیں اپنے ہی علاقے کی گیس ہی پہنچا دیتے ۔ ۔ ۔ مناجاتوں کا حصہ برائے کرک قرار دے کر۔
کوہاٹ، فراز کا کوہاٹ جہاں میکرو تھنک انسٹیٹیوٹ کی ایک ریسرچ کے مطابق سرکاری سکولوں کی سیکنڈری لیول کی 85 فیصد خواتین اساتذہ اور 82 فیصد مرد اساتذہ کی رائے تھی کی بنیادی تعلیمی سہولتوں کی شدید کمی ہے۔ یہاں ”غریب“ بہت کم ہیں، صرف 28 فیصد۔
کوہاٹ کا ہمسایہ، لکی مروت، غربت ، 46 فیصد۔
ہنگو، عظیم اعتزاز شہید کا ہنگو، غربت 43 فیصد۔
ٹانک، نواب آف ٹانک، مرینہ خان کا ٹانک، غربت 36 فیصد۔
پشاور کے چوہے، ہولناک چوہے، مہلک ادویات سے مرنے والے چوہے۔ سب سے زیادہ بم وہاں پھٹتے ہیں، بم ڈسپوزل سکواڈ کی تنخواہیں۔ ۔ ۔ ۔ شرمناک
اپر دیر، افغانستان سے متصل، دہشت گردی سے شدید متاثر، پاک فوج کے جنرل ثنائاللہ نیازی کی جائے شہادت، غربت پختونخواہ میں سب سے زیادہ 54 فیصد۔
صوابی چکدرہ 81 کلومیٹر طویل موٹر وے کیلئے درکار 40 ارب کا قرضہ آخرکار ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور چین سے مل گیا۔ 53 کروڑ کا اس سے کیا لینا دینا؟
62 کلومیٹر طویل حیات آبا دتا ناصر پور، پشاور ”میٹرو“ کیلئے درکار 15 ارب مل کے نہیں دے رہے، 53 کروڑ کا اس میں حصہ چہ معنی دارد؟ (یہ میٹرو، موٹر وے صرف پنجاب میں برے ہوتے ہیں، اٹک پار کرتے ہی یہ پراجیکٹ اجلے ہو جاتے ہیں)
سوات میں مینگورہ سے مالم جبہ چیئر لفٹ کا وزیر اعلیٰ مصمم ارادہ کیا ہوے ہیں، بس کہیں سے تھوڑے پیسے آ جایئں۔ ۔ ۔
سوات میں ہی خدا کی نعمت بلندی سے گرتا پانی ، ہائیڈل بجلی کا سب سے سستا ذریعہ، کیا کریں سب چیزیں پیسے سے ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔
مانا کہ اس طرح کی گاڑیاں وفاقی اور باقی صوبائی حکومتیں بھی خریدتی ہیں تو حضور کیا ادھر بین نہیں ڈالے جاتے؟ کیا ادھر بھی میڈیا انہیں فوراً کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتا؟
آپ تو درویش لوگ تھے، صاف، ایماندار، اجلے آپ کے گھروں سے تھوڑا ہی کروڑوں برامد ہوتے ہیں۔ آپ تو عوام کے ہمدرد، غمخوار، مسیحا تھے جو کرپشن کے الزام پر نہ صرف اپنے وزیر کو اس کی نشاندہی کرنے والے احتساب کمیشن کے سربراہ کو بھی نکال باہر کرتے ہیں۔ جہاں پناہ آپ بھی جاہ کے شوقین نکلے۔ حضور، ہم عوام ، اب 2018 سے پہلے تک کچھ کر تو سکتے نہیں، مناجات تو کر سکتے ہیں ۔ لیجیئے ان مناجاتوں کی گنتی 53 کروڑ تک پہنچ گئی، کچھ تو مداوا کیجیئے!
- نوشی بٹ کی کتاب: ہمارے جسم تمہاری مرضی؟ - 25/10/2022
- دا لیجنڈ آف مولا جٹ: مووی ریویو - 16/10/2022
- مووی ریویو: فلم چکر - 03/05/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).