اس کی بیوی کو کس کی تلاش تھی؟


”میں آپ کو بہت مس کرتی ہوں۔ “
”لیکن میں تمہیں ذرا بھی مس نہیں کرتا۔ “

”کیا مطلب؟ کیوں مس نہیں کرتے؟ “ زوبی نے مصنوعی ناراضی سے اس کے سینے پر دو تین مکے مارے جو برائے نام ہی اس کے سینے پر لگے تھے۔ آفاق نے ایک دم ایسی اداکاری کی جیسے بہت چوٹ لگی ہو۔

”اس لیے کہ تم یہاں رہتی ہو، میرے دل میں۔ تم تو ہر لمحہ میرے پاس ہی ہوتی ہو تو میں بھلا تمہیں کیوں مس کروں گا۔ “ آفاق نے کہا۔
”ہائے کیا بات کی ہے۔ باتیں بنانا تو کوئی آپ سے سیکھے۔ “ زوبی نے شوخ لہجے میں کہا۔
”اچھا باتیں چھوڑو کھانا کھلاؤ پھر میں تمہیں آئس کریم کھلانے باہر لے کر جاؤں گا۔ “

”آپ نے تو میرے منہ کی بات چھین لی، میں خود یہی کہنے والی تھی کہ کھانے کے بعد آئس کریم کھانے چلیں گے۔ میں ابھی رضیہ سے پوچھتی ہوں کھانے میں کیا دیر ہے۔ “ زوبی اٹھ کر کچن کی طرف چل دی۔ آفاق نے آسودگی کی گہری سانس لی۔

اسے زوبی سے بے حد محبت تھی۔ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ زوبی کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ زوبی اس کی یونیورسٹی فیلو تھی۔ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ میں پہلے روز ہی ملاقات کے بعد آفاق کے دل میں اس کے لیے پسندیدگی پیدا ہو گئی تھی جو دھیرے دھیرے محبت میں بدل گئی۔ پھر جب ایم فل کے امتحانات ہونے والے تھے تو آفاق نے ہمت کر کے دل کی بات بتا دی۔ تب یہ عقدہ کھلا کی زوبی بھی اس سے دل ہی دل میں محبت کرتی تھی۔ یہ راز کھلنے کے بعد تو ان کی زندگی ہی بدل گئی۔ وہ یونیورسٹی سے باہر بھی ملنے لگے۔ وہ اپنے مستقبل کا پلان بنایا کرتے تھے۔ دونوں کی خواہش تھی کہ انہیں اچھی جاب مل جائے۔ کم از کم ان کی یہ خواہش پوری ہو گئی تھی۔ ایم فل کے بعد وہ دونوں لیکچرر بن چکے تھے۔

آفاق کو بخوبی علم تھا کہ اس کے والد نے اس کی شادی اس کی پھوپھی کی بیٹی سے کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا اور اس فیصلے میں اس کی مرضی جاننے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کے باوجود اس نے ڈھکے چھپے انداز میں جب اس شادی سے انکار اور کسی اور سے شادی کی بات کی تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا۔ آفاق اپنے والدین کی بات بھی نہیں ٹال سکتا تھا اوروہ زوبی کے بغیر بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ کچھ عرصہ وہ عجیب دوراہے پر کھڑا رہا۔ والدین کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے روبی سے شادی بھی کر لی۔ پھر اس نے خود اس مسئلے کا حل نکالا اور زوبی سے بھی شادی کر لی۔ مگر اس نے زوبی کو نہیں بتایا تھا کہ وہ روبی سے شادی کر چکا ہے وہ زوبی کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا۔

کھانے کے بعد وہ زوبی کو ایک عمدہ آئس کریم بار میں لے گیا۔ زوبی خوب ہنسی مذاق کرتی رہی۔ اس کی یہی چلبلی طبیعت آفاق کو بہت اچھی لگتی تھی۔ آفاق ایک لطیفہ سناتا تو زوبی اس سے بڑھ کر سناتی۔ دونوں گھر پہنچے تو بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی زوبی نے آفاق کی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دیے۔

”کیا کر رہی ہو زوبی، رکو ناں“ آفاق نے کہا۔

”اب نہیں رکوں گی، روک سکو تو روک لو۔ “ زوبی نے شوخی سے کہا۔ آفاق میں اسے روکنے کی ہمت کہاں تھی۔ دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی تھی۔ پھر آگ آگ سے ٹکرانے لگی۔ انہی مخمور لمحوں میں آفاق نے زوبی کے کان میں دھیرے سے کہا۔

”آئی لو یو روبی۔ “

زوبی ایک نشے کی سی کیفیت میں تھی مگر یہ جملہ سن کر نشہ کافور ہو گیا۔ اسے یقین نہ آیا کہ اس کے کانوں نے کیا سنا ہے۔ روبی۔ روبی۔ یہ کون ہے؟ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ کیا کوئی ایسی بات ہے جو وہ نہیں جانتی۔ اس کا دل بری طرح گھبرانے لگا۔

”آفاق۔ یہ روبی کون ہے؟ “
”روبی؟ کون روبی؟ میں نہیں جانتا۔ “ آفاق نے فوراً سنبھلتے ہوئے کہا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس سے غلطی ہو چکی ہے۔

”آپ نے مجھے روبی کہا ہے، میں تو زوبی ہوں۔ “ زوبی نے احتجاج کیا۔
”شاید تم سے سننے میں غلطی ہوئی ہو۔ میں نے تو زوبی ہی کہا تھا۔ “

اس دن تو بات آئی گئی ہو گئی مگر اب معاملات بگڑنے لگے تھے۔ روبی کہتی تھی کہ اس نے اسے زوبی کہا ہے اور زوبی کا شکوہ تھا کہ وہ اسے روبی کیوں کہتا ہے۔ آفاق نے بہت سوچا مگر جب حل نہ ملا تو ڈاکٹر سہیل کے پاس چلا گیا۔

ڈاکٹر سہیل بڑے غور سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ ”ڈاکٹر میں بہت مشکل میں ہوں۔ میں روبی کا خاوند ہوں اور زوبی کا بھی۔ روبی شبنم کی طرح ہے۔ دھیرے دھیرے پھول کی پتیوں پر اترنے والے اوس کے قطروں کی طرح۔ وہ مجھ سے محبت تو کرتی ہے مگر اس میں جذبات کی ہلچل نہیں ہے۔ وہ ایک ٹھہری ہوئی جھیل جیسی ہے۔ اس کی محبت میرے دل میں ٹھہری ہوئی ہے۔ دوسری طرف زوبی ہے، بالکل ایک شعلے کی طرح۔ وہ تو جذبات میں آگ لگا دیتی ہے۔

سمندر کی لہروں کے اضطراب کی طرح۔ پہاڑوں کے دریا کی طرح پوری تندی اور تیزی سے اس کی محبت کی لہریں میرے دل کی دیوروں سے ٹکراتی ہیں۔ میں زوبی کے بنا کچھ نہیں ہوں، کچھ بھی نہیں۔ جب میں زوبی کے پاس ہوتا ہوں تو محبت کے سوا دنیا میں کچھ نہیں ہوتا لیکن جب روبی کے پاس ہوتا ہوں تو ان لمحات میں بھی پیار ہی پیار ہوتا ہے۔

”ہوں تو اب کیا مشکل ہے؟ “ ڈاکٹر سہیل نے سر ہلایا۔

”مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جب میں زوبی کے محبت کے نشے میں ہوتا ہوں تو تراشیدہ بال لمبے لمبے سیاہ بالوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، اس کے بھرے بھرے سرخ ہونٹ باریک ہونٹوں سے بدل جاتے ہیں۔ وہ زوبی نہیں رہتی روبی بن جاتی ہے اور جب اس کا نام لیتا ہوں تو یک دم پھر سے زوبی بن جاتی ہے اسی طرح جب میں روبی کے پیار میں ڈوبا ہوا ہوتا ہوں تو اس کی شکل بدل جاتی ہے، اس کی آواز بھی بدل جاتی ہے۔ وہ بالکل زوبی بن جاتی ہے۔ پھر وہ اچانک مجھے ہوش میں لاتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ میں روبی کو زوبی سمجھ کر نہ جانے کیا کہتا رہا ہوں۔ میرا علاج کریں۔ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ آفاق نے بے بسی سے کہا۔

”شاید تم گلٹی فیل کرتے ہو۔ یہ احساس تمہارے اند جڑ پکڑتا جا رہا ہے۔ تم خود کو قصوروار سمجھتے ہو۔ جب زوبی کے پاس ہوتے ہو تو تمہیں روبی کا خیال آتا ہے اور جب روبی کے پاس ہوتے ہو تو زوبی تمہارے حواس پر چھائی ہوتی ہے۔ “ ڈاکٹر سہیل نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4