چنے ہوئے لوگ


چنے ہوئے لوگ کون؟ چند دن پہلے مری ہر دلعزیز دوسث صوفیہ سے بات کے دوران چنے ہوئے لوگ کا ذکر نکلا۔ چنے ہوئے لوگ یہ وہ تحریر ہے جو صبا نے لکھی تھی آ پ سوچ رہے ہوں گے یہ کون صباتو صبا وہ ہیں جن سے مری براہ راست کوئی دوستی نہ تھی بلکہ وہ تو صرف ایک مہمان تھیں جنھوں نے اپنی بھابھی (میری پیاری دوست فرح) کے ساتھ مری شادی میں شرکت کی تھی اور اس تقریب کی بہت سی یادداشتوں کو اپنے ذہن میں محفوظ کرلیا تھا۔ سچ بتاؤں تو وہ تحریر میں نے پڑھی نہیں تھی لیکن شاید کسی سے سنا تھا کہ اس میں ذکر تھا ایک دلہن کا جو اپنی کمزور وجود کو سنبھالے دھیرے دھیرے اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی۔

صبا کی اس تحریر میں شاید ایسا کچھ تھا جس نے بہت سے حساس لوگوں کے دل کو چھولیاتھا۔ کیا وہ تمام لوگ جو کسی معذوری یا بیماری کی وجہ سے ایک بھاگتی دوڑتی زندگی کے بعد محتاجی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیا وہ چنے ہوئے لوگ ہیں؟ کیا واقعی میرا شمار چنے ہوئے لوگوں میں ہوسکتا یے۔ میرے پیارے دوست احباب اکثر مجھ سے گفتگو کے دوران کہہ جاتے ہیں صائمہ تم بہت بہادر ہو ان کا یہ جملہ کبھی میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آ تا ہے اور کبھی میری آ نکھیں آ نسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔

بہادر یہ لفظ ماضی کا ایک اور دریچہ کھول دیتا ہے مجھے وہ تمام لمحے یاد آ نے لگتے ہیں۔ ماضی کی یاد مجھے برسوں پہلے اسپتال کے ڈاکٹرز کیبن میں لے جاتی ہے جہاں ایک بائیس سال کی لڑکی ڈاکٹر کا انتظار کر رہی تھی۔ یہ جوانی کی عمر بھی خوب ہوتی ہے جب خواب بھی آ پ کے ساتھ جوان ہوتے ہیں جب دنیا اپنی تمام تر بدصورتی کے باوجود خوبصورت دکھتی ہے جب حال کی مشکلات یہ سوچ بھلا دیتی ہے کہ آ نے والے مستقبل بہت حسین ہے۔

میرا بچپن نارمل بچوں کی طرح گزراکھیلتے کودتے پڑھتے لکھتے۔ میرا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سا تھا۔ مڈل کلاس گھرانے کے مسائل اور آنکھوں میں ڈھیروں خواب لئے مرا بچپن جوانی میں داخل ہوا۔ میری خواہش تھی میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنوں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اپنے گھر کے لیے کچھ کرنے کی لگن نے کبھی مجھے ہمت ہارنے نہ دی اور میں نے یونیورسٹی میں کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا۔ دن اپنی رفتار سے گزر رہے تھے فائنل ائیر قریب تھا کہ اچانک میرے ساتھ کچھ عجیب ہونے لگا زیادہ چلنا مجھے تھکانے لگا، سیڑھیاں چڑھنا ایک مشقت بن جاتا، اور کوئی وزن اٹھاکر چلنا کہیں چڑھنا ایک امتحان۔

میں نے ان علامات کو جسمانی کمزوری جانا۔ یونیورسٹی کے بعد ہوم ٹیوشنز دینے کی وجہ سے اتنا وقت ہی نہ تھا کہ کوئی ٹیسٹ کراسکوں۔ ایم ایس سی فائنل ائیر کے بعد جونہی وقت ملا میں گورنمنٹ ہسپتال کے نیورولوجی ڈیپارٹمنٹ میں علاج کے لئے گئی جہاں مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ میرے پیر کی ایک نرو ڈیڈ (dead) ہوگئی ہے مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق صبر کرلیا لیکن ابھی تو زندگی کا اصل امتحان شروع ہوا چاہتا تھا۔ ایک پیر کی کمزوری دوسرے پیر میں بھی اثر دکھانے لگی۔

اسی دوران میں نے ایبٹ کمپنی جوائن کی وہ مری زندکی کے انتہائی صبرا زما اور تکلیف دہ دن تھے لیکن اس جاب سے مجھے موقع مل گیا کہ میں اپنے تمام ٹیسٹ ایک اچھے پرائیوٹ اسپتال میں کراسکوں۔ اور پھر وہ دن آ پہنچا جب میں اپنی رپورٹس کے لئے ڈاکٹر کا انتظار کررہی تھی اور اس دن کے بعد میری زندگی میرے خواب سب کچھ بدل گیا۔

اس دن مجھے آخرکار پتا چل گیا کہ وہ بیماری جس کا میں شکار ہوں طب کی زبان میں

muscular dystrophy

کہلاتی ہے۔

ڈاکٹر کہتا ہے آ پ کی رپورٹس آ گئی ہیں آپ کو ایک ایسی بیماری ہے جس پر ریسرچ چل رہی ہے دنیا میں کہیں اس کا علاج نہیں ہوسکتا ہم نہیں بناسکتے کہ یہ اس اسٹیج پر ہی رک جائے گی یا آپ وہیل چئیر پر آ جائیں گی۔ مجھے لگتا ہے یہ ڈاکٹر زیادہ بہادر ہوتے ہیں کتنے آ رام سے کہہ دیتے ہیں سب کچھ یا یہ بھی چنے ہوئے لوگ ہیں جو کہیں زندگی کی نوید دیتے ہیں اور کبھی وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں جو کسی کی زندگی ہی ختم کردیتا ہے نہ جانے کتنے سالوں کی پریکٹس کے بعد یہ اس قابل ہوتے ہیں۔

پھر زندکی میں ایسے کئی مقام آ ئے جن کو یاد کروں تو دل یہی کہتا ہے کہ ہاں میں بہادر ہوں ہاں صائمہ تم بہت بہادر ہو۔ ماضی کے دھندلکوں میں وہ دن یاد آ جاتے ہیں جب مجھے اپنی جاب چھوڑنا پڑی، جب اپنے محبوب شوہر کی بے وفائی کی وجہ سے میں نے اپنا گھر چھوڑا اور پھر جب میں نے اپنے محبت بھرے غلط انتخاب کو چھوڑا۔ اور یوں زندگی مجھے بہادر بناتی چلی گئی۔ آ ج بھی میں یہ بات سوچتی ہوں کہ اس دن ڈاکٹر کی بات سن کر میں کھڑی کس طرح تھی میں نے وہ سب کچھ اتنے آ رام سے کیسے سن لیا میری آ نکھ سے ایک آنسو بھی نہ نکلا، کیسے مجھ میں اتنی ہمت آ گئی۔

پھر یاد آ یا کہ میری بہادری کی وجہ وہ ہستی تھی جو باہر میرا انتظار کر رہی تھی میری امی۔ یہ مائیں کتنی ہمت سے اپنے بچوں کو آزمائش میں دیکھ کر مسکراتی ہیں ہمارا سہارا بن جاتی ہیں۔ میں جب خود ماں بنی تو احساس ہوا کہ ایک ماں کے لئے اس کی اولاد کی تکلیف کتنی بڑی آزمائش ہے۔ چنے ہوئے لوگوں کی زندکی میں یہ رشتے جو ماں باپ بہن بھائی اور دوستوں کی شکل میں ہوتے ہیں آ پ کو بہادر یا کمزور بنادیتے ہیں یا یوں کہیں کہ یہ ہماری وجہ سے اور ہم ان کی وجہ سے بہادر بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ بھی چنے ہوئے ہیں کیوں کہ یہ ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتے میری یہ تحریر ان چنے ہوئے بہادر لوگوں کے لئے ہے جو ہمیشہ سے میرے ساتھ ہیں، اللہ ان کو سلامت رکھے آ مین۔

کرب چہرے سے ماہ و سال کا دھویا جائے
آ ج فرصت سے کہیں بیٹھ کر رویا جائے

صائمہ خان، کراچی
Latest posts by صائمہ خان، کراچی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).