تہذیبوں کا تصادم


انسان کی اخلاقیات کو انسان کی پیدائش پہ ہی ودیعت کر دیا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں سچ کو نیک عمل اور جھوٹ کو مکروہ قرار دیا۔ دنیا کے ہر مذہب میں قتل کو گھناؤنا جرم کہا گیا ہے۔ انسان کی اخلاقی حس پر ہی ہر مذہب کی بنیاد رکھی گئی اورصحیح غلط کو مذہب نے ثواب اور گناہ کی چادر میں سزا جزا کی گرہ سے باندھ دیا۔

دنیا ایک آدم سے شروع ہوئی اور اب ارب ہا آدم اس زمین پرموجود ہیں۔ مختلف مذاہب نے مختلف تہذیبوں کو جنم دیا۔ اس زمین پر سب سے ظالم انسان نے بٹوارے اور تقسیم کے لئے ایک خط کھینچا۔ اُس خط نے نفرت اور جنگ کو پیدا کیا۔ یقین کیجئے گا انسان نے اپنے ارتقائی مراحل میں اس لئے بھی بستیوں کی بستیاں قتل کر دی کہ ایک تختی کے ایک طرف کا رنگ نیلا اور دوسری طرف کا سرخ تھا۔ نیلی طرف والے سرخ طرف والوں کو کہتے تھے یہ تختی نیلی ہے اور سرخ والے نیلی والوں کو کہتے کہ تختی سرخ ہے۔ جنگ ختم ہوئی تو زندہ بچ جانے والوں نے دیکھا کہ تختی کے دونوں اطراف کے رنگ مختلف تھے۔

دنیا ہر وقت جنگوں کے دہانے پہ کھڑی رہی اور ایک دوسرے کے علاقوں کو فتح کیا جاتا رہا۔ اپنی تہذیب کو ورثہ سمجھ کر دوسرے علاقوں پر زبردستی نافذ کروایا جاتا۔ پھر انسانی دماغ نے کچھ ہوش پکڑا اور ارتقا کا راستہ ہموار ہوا۔ ماڈرنزم اور پوسٹ ماڈرنزم کے فلسفے پہ دنیا کے قوانین اور آئین کی بنیاد رکھی جانے لگی۔ فلسفے نے بہت سارے سوالات پیدا کیے لیکن انسان کے پاس منطق کا کال ہمیشہ سے ہی تھا۔ انسان نے خود کو فلسفے کی کچھ بیکار بحثوں اور تحقیق میں الجھا لیا اور حاصل ہوا نوآبادیاتی نظام جسے کالونیل نظام یا جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا نظام بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس آسمان سے گرے تو کیپیٹلزم کی کھجور میں اٹکے۔

”جب ہم تہذیب کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہوتی ہے؟ تہذیب ایک تمدّنی جوہر ہے۔ دیہات، خطّے، نسلی گروہ، قومیّتیں، مذہبی گروہ یہ سب اپنے اندر مختلف نوعیّت کی ثقافتوں کی آماجگاہیں ہوتی ہیں۔ جنوبی اٹلی کے ایک گاؤں کی ثقافت شمالی اٹلی کے کسی گاؤں کی ثقافت سے مختلف ہو سکتی ہے لیکن یہ دونوں اٹلی کی مشترکہ ثقافت میں بہت ساری مشابہتوں کی حامل ہوتی ہیں جو انہیں جرمنی کے کسی گاؤں سے مختلف بناتی ہیں۔

اسی طرح یورپی معاشرے اپنے اندر بہت ساری یکساں ثقافتی قدریں رکھتے ہیں جس کی بناء پر یہ معاشرے عرب یا چینی معاشروں سے مختلف قرار پاتے ہیں۔ لیکن یہ عرب، چینی یا مغربی معاشرے آگے چل کر مزید کسی وسیع تر ثقافتی دائرے کا حصّہ نہیں بنتے بلکہ یہ بذات خود ایک تہذیب کو تشکیل دیتے ہیں۔ تہذیب تک آکر انسانی گروپنگ کا عمل رُک جاتا ہے کیونکہ یہ تاریخ، زبان، مذہب، روایات، اداروں اور انسان کی ذیلی سطح پر خود وابستگی جیسے عناصر کواپنے اندر سمو لیتی ہے۔

(بعض ماہرینِ سماجیات کے خیال میں اگر ہم تہذیب سے صرف ایک قدم آگے چلے جائیں تو ہم ہیومینیٹی کے دائرے میں پاؤں رکھ دیتے ہیں، لیکن ہم یہاں شناخت کی بات کر رہے ہیں اور یہ شناخت ہیومینیٹی ہی کے دائرے کے اندر کار فرما ہے ) یہی وجہ ہے کہ تہذیب اعلیٰ ترین سطح پر ایک انسانی گروہ کو دوسرے انسانی گروہ سے مختلف بنا دیتی ہے۔ اب ہر انسان کی اپنی شناخت کے مختلف لیول ہوتے ہیں، مثال کے طور پر روم کا ایک باشندہ اپنا تعارف ایک رومن شہری؛ ایک اطالوی؛ ایک کیتھولک؛ ایک عیسائی؛ ایک یورپی۔ یا ایک مغربی باشندے کے طور پر کر سکتا ہے یعنی وہ ایسا کرتے ہوئے اپنی انتہائی ابتدائی سطح کی شناخت سے لے کر انتہائی آخری سطح کی شناخت تک جا سکتا ہے۔ ” ( سیموئیل پی۔ ہنٹنگٹن)

اس قدر ترقی یافتہ دنیا میں بھی فلسطین اور کشمیر تہذیبوں کے تصادم کو بھگتنے والے علاقے ہیں۔ اسرائیل اور بھارت لگ بھگ پچھلے 60 سالوں سے ان علاقوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن فلسطینی اور کشمیری لوگ اپنی اپنی تہذیبوں پہ قائم ہیں۔ نیوورلڈآرڈر کی رو سے عیسائی ممالک پر کسی قسم کی جارحیت امریکہ اور برطانیہ پر جارحیت سمجھی جائے گی۔ لیکن امریکہ اور برطانیہ کسی بھی ملک پر اپنی تہذیب کی ملمع کاری کرسکتے ہیں۔

ایک سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ پیزا، برگر، پاستا، کوکا کولا، پیپسی کس کلچر یا تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کینیاشاید دنیا کا سب سے پسماندہ ملک ہوگا لیکن وہاں بھی برگر، پیزا، کوکا کولا عام ہیں کیونکہ اس دنیا کے کرتا دھرتا اس ساری دنیا پر برگر پیزا کلچر قائم کر کے کیپیٹلزم کی ترویج کر رہے ہیں۔ یہ ایسی بحث ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ کلچر تہذیبوں کو بے شناخت کر کے چھوڑے گا۔

”تہذیبی شناخت کی اہمیّت مستقبل میں بہت بڑھ جائے گی اورسات یا آٹھ بڑی تہذیبوں کے درمیان باہمی عمل دنیا میں بڑی تبدیلیاں لائے گا۔ اس میں مغربی، کنفیوشس (چینی) ، جاپانی، اسلامی، ہندو، سلیوک آرتھو ڈاکس، لاطینی امریکی اور غالباً افریقی تہذیبیں شامل ہیں۔ مستقبل کے انتہائی اہم تنازعات ان تہذیبوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دینے والی فالٹ لائنز پر پیدا ہوں

حنان شیخ
Latest posts by حنان شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).