بشر کی ذلالت سے آگاہی


عہد طفلی کے آموختہ مضامین کو پڑھ کر ناشدنی قیاس آرائیاں دماغ میں جنم لیتی ہیں، جو عنفوان شباب کے دور میں آکر مزید راسخ الاعتقاد ہوجاتی ہیں۔ چونکہ زندگی کے گنجلک معاملات مفروضاتی سطح پر ایسے عدیم المثال منظر کھنچ دیتے ہیں کہ انسانی اعتقاد مزید پختہ ہوجاتا ہے۔ سوئے اتفاق سے عین اس ہنگام زدہ ماحول میں ایک بات بیان کرے کی جسارت کررہا ہوں کہ اس پہلے کوئی خامہ فرسا ہونے کا بھی حق چھین لے۔

مجھ ادنی بشر کا یہ مستغرق مشاہدہ ہے کہ مفروضات کو ہم دقیق نظر سے اس کی ماہیت کو پرکھنے کے بجائے بادی النظری سے دیکھ کر بے التفاتی کے ساتھ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ بات توجہ کی مستحق ہے لیکن ہم نے اس کو استعجاب کا لبادہ اڑا کر اپنی چاہ کے مطابق من و عن تشریح کرلی ہے۔ چنانچہ یہ پہلو توجہ کا طالب ہے کہ ہر ذلیل ترین اِنسان اپنے زمانے کا عزیز ترین رہا ہوتا ہے۔ اس جملے کو استعارہ بناتے ہوئے آگے بڑھیں، تو یہ لازم ہے کیونکہ دنیا تو بُرے لوگوں سے بھری پڑی ہے، خود اپنے ایمان سے کہیے!

کیا کبھی اِن میں سے کسی کو دیکھ کر آپ کے اندر طیش و عناد کی وہ لہر دوڑی ہے، جو کسی سابقہ اپنے کو دیکھ کر دوڑتی ہے ؛ اور کیا ایسا نہیں ہے کہ تعلق جتنا مضبوط رہا ہو، تاسف اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے، تو مان کیوں نہیں لیتے کہ ہر ذلیل ترین انسان اپنے زمانے کا عزیز ترین رہا ہوتا ہے؟ اگر مانیں گے تو، فرق تو پڑے گا کہ آپ ایک انسان کی عادت و اطوار قائل ہوجائیں گے۔

بالیقین اگر آپ اِس کے قائل ہوگئے، تو آپ میں اور اِس میں ایک چیز قدر مشترک ہوجائے گی اور وہ ہے ”ذلالت“۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک دوسرے کے قائل ہوجانے سے کیا فرق پڑے گا؟ تو یہ ایک نہایت بے ہودہ مذاق ہوگا۔ دراصل مذاق تو وہ ہے، جو تقدیر نے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک کہانی ہے۔ اگر اس کو طول دیں گے، تو یہ مبحث گفتگو میں تبدیل ہوجائے گی، اس کو یہ یہاں ختم کرتے ہیں، اگلا مرحلہ سمجھنے کی سعی کیجئیے!

ہاں! تو ہوا کچھ یوں کہ خدا نے جب فرشتے بنائے، تو اِن میں سے ہر ایک احسان شناسی کے تقاضوں کے تحت خدا کی عبادت کیا کرتا تھا؛ اور خدا بھی قدر شناسی کے تقاضوں کے تحت اِن کو محبوب رکھتا تھا۔ انسانوں کی طرح تمام فرشتے بھی ایک جیسے نہیں تھے۔ اِن میں بھی وقت کے ساتھ طبقات وجود میں آگئے۔ اپنی عبادات کے خلوص اور کثرت کی وجہ سے عزازیل نامی ایک فرشتہ ترقی کے مَدارج طے کرتا ہوا مقربین کی فہرست میں سب سے آگے پہنچ گیا؛اور سرداری کے منصب پر فائز کیا گیا۔

وقت اپنی نادیدہ کمک کی رفتار سے گزرتا گیا اور راوی لکھتا رہا، مگر پھر ایک دِن خدا نے اُن مقربین کے سامنے اپنے نائب یعنی انسان کو پیش کر دیا۔ اِن مقربین کو حُکم ہوا کہ اس نائب کے آگے سَر کو خم کر دیں۔ سارے فرشتوں نے حُکم مان لیا تھا، سوائے اِبلیس کے اور اِس کے بعد سے وہ مَردود ہوگیا تھا۔ اب وہ کیوں کر مردود نہ ہوتا، حکم کی عدولی جو کی تھی۔ جانتے ہیں اِبلیس نے ایسا کیوں کیا تھا؟ تکبر کی وجہ سے کہ خدا نے اِسے مِٹی سے پیدا کیا ہے، جبکہ مجھے آگ سے پیدا کیا ہے ؛ اور قرآن میں تو یہ ہی وجہ لکھی ہے۔ ہم قرآن کے خلاف جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ نہ ہی عدم احتمالی سے کام لیسکتے ہیں کیونکہ قرآن میں لکھا ہے، تو درست ہی لکھا ہے۔

مگر یہ کہانی ذرا مختلف ہے۔ کہانی کے اِبلیس کا تکبر اِس کے تعلق پر تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اِس کا تعلق اتنا منفرد، مستحکم ہے کہ تاعمر کبھی بھی کسی کو بھی مجھ پر فوقیت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اِس لئے جب انسان نے آکر اس کی جگہ لے لی، تو اِبلیس نے قسم کھائی کہ مالک کو دکھا کر چھوڑے گا۔

چونکہ اس کہانی سے ہم حکمت کومستعار لیتے ہوئے اس کو اپنی عملی زندگی پر نظر ثانی کریں، تو اِنسان بھی اِس کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔ انگریزی زبان میں اِسے delusion کہتے ہیں۔ یہ کچھ اس طرح کی بیماری ہے، جس میں انسان نہایت استقامت کے ساتھ اپنا نظریہ بنا لیتا ہے۔ جس کے بر خلاف اعلٰی اور ناقابل تردید شواہد موجود ہوتے ہیں۔ دارصل delusion میں اِنسان کی آنکھوں کے آگے پٹی بندھ جاتی ہے ؛اور وہ صرف وہی دیکھتا ہے، جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ جب انسان حقیقت سے آشنا ہو کر جب کسی دوسرے اِنسان کا انتخاب کر لیتا ہے، تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اِنسان کس حد تک گھٹیا اور ذلیل تھا۔

لہذا انسان کی حقیقت سے آگاہی اس وقت ہوجاتی ہے، جب اس کے سامنے اعلٰی مرتبے کا ہم شباہت فرد آجاتا ہے۔ جس وجہ سے طیش میں وہ حلم سے کام نہیں لیتا۔ البتہ اس پہلو کی جانب توجہ کو مرکوز کرنے کا مقصد صرف حقیقت سے روشناس کروانا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).