سیاسی موسم بدل رہا ہے


اسلام آباد کا موسم بدل رہا ہے۔ سیاسی مزاج بھی بدل گئے ہیں جو پہلے دھرنے کے مخالف تھے اب دھرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور جو دھرنا کلچر کے موجد ہیں اب ان کے نزدیک یہ وقت کا ضیاع اور ملکی مفاد کے خلاف ہے۔ مولانا فضل الرحمان ستائیس اکتوبر کو اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کر چکے ہیں۔ وہ یہاں حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات کی تاریخ تک دھرنا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مولانا تو پندرہ لاکھ افراد کو اسلام آباد لانے کا دعوی کر رہے ہیں لیکن مبصرین کے مطابق اگر وہ پچاس ہزار افراد بھی لانے میں کامیاب ہو گئے تو حکومت کو اچھی خاصی مشکل سے دوچار کر سکتے ہیں۔

دھرنے کے لیے فی الحال جے یو آئی نے کشتیاں جلانے کا اعلان کیا ہے اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اخلاقی اور سیاسی حمایت پر اکتفا کر رہی ہیں۔ درحقیقت مولانا فضل الرحمان کے اقدام نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے سربراہ جیل میں ہیں دونوں جماعتیں ہی حکومت کی ناقد اور دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کو جعلی قرار دیتی ہیں۔ اب اگر وہ دھرنے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں تو تاثر جائے گا کہ شاید اندر کھاتے ڈیل ہو رہی ہے جس کی بازگشت کافی دنوں سے زیر گردش ہے۔

ن لیگ میں واضح طور پر دو دھڑے نظر آ رہے ہیں نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھی حکومت کے خلاف آخری حد تک جانے کو تیار ہیں جبکہ شہباز شریف دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ پیپلزپارٹی میں بھی گومگو کی کیفیت ہے بلاول بھٹو مارچ کی حمایت کرتے ہیں لیکن دھرنے کے حامی نہیں۔ آصف زرداری حکومت تو گرانا چاہتے ہیں لیکن اپنا کندھا دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ ملکی سیاست کا رخ اب فضل الرحمان متعین کریں گے اگر وہ قابل ذکر تعداد میں افرادی قوت اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوئے۔

دھرنا دیا تو ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو لامحالہ ان کے ساتھ ملنا پڑے گا اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو گا۔ دوسری صورت میں دھرنے کی نوبت نہ آئی یا ناکامی سے دوچار ہوا تو دونوں پارٹیوں کو فیس سیونگ کا موقع مل جائے گا۔ مہنگائی، بیروزگاری اور کمزور معیشت کی وجہ سے عوام میں غم و غصہ ہے۔ سیاسی اسیروں میں ابھی تک کسی ایک پر بھی کرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہوئے جس کی وجہ سے حکومت بیک فٹ پر ہے۔ اب وزیراعظم عمران خان پہلے کی طرح نہ تو اپوزیشن کو للکار سکتے ہیں نہ انہیں دھرنے کے لیے کنٹینر کی آفر دے سکتے ہیں۔

ان کا تمام انحصار اسی بات پر ہے کہ اپوزیشن انتشار کا شکار رہے۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ ایک کمزور حکومت مضبوط اپوزیشن کا دباؤ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکے گی۔ اپوزیشن سے نمٹنے کے لیے حکومت کی حکمت عملی کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اور بدلتا موسم کیا واقعی تبدیلی کا باعث بنے گا اس کے لیے صرف کچھ دن کا انتظار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).