دال چاول: پولیس کی کارکردگی پر بنائی گئی فلم


پاکستانی پولیس کی کارکردگی اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنائی گئی فلم ’دال چاول‘ کی کہانی پنجاب پولیس کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مجرموں اور دہشت گردوں کا سراغ لگانے اور انہیں کیفر کردار تک پہچانے پرمبنی ہے۔ فلم میں لاہور میں متعارف کرائے گئے سیف سٹی پروجیکٹ کی تفصیلات کو خصوصیت کے ساتھ شامل کیا گیا ہے جس کے تحت شہر بھر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں تاکہ جرائم پیشہ عناصر کی برقت تفتیش کرکے انہیں پکڑا جاسکے۔

دال چاول کی کہانی حقیقی واقعات سے ماخوذ ہے جس میں اس تاثر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کی پولیس جس پر صرف کرپشن اور نا اہلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں، کس طرح اپنی جانوں پر کھیل کر شہریوں کی حفاظت کا ذمہ لیتی ہے۔ فلم میں محکمہ پولیس کے شہیدوں کو خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا ہے۔

فلم کی ہدایات اویس خالد نے دی ہیں جبکہ اس کے پروڈیوسر، رائٹر، گانوں کے خالق اور میوزک کمپوزراکبر ناصرخان ہیں، جو لاہورمیں ڈی آئی جی کے عہدے پر فائز بھی ہیں۔ فلم کی کاسٹ میں زیادہ تر نئے اداکار شامل ہیں جن میں مرکزی کردار احمد سفیان اورمومنہ اقبال نے ادا کیے ہیں جبکہ سینئر ایکٹرز سلمان شاہد اور شفقت چیمہ بھی اہم کرداروں میں موجود ہیں۔

دال چاول کی کہانی ایک نوجوان احمد (احمد سفیان) کے گرد گھومتی ہے جو پنجاب کے ایک گاؤں سے ’بی اے‘ کرنے کے بعد اچھی ملازمت کی تلاش میں لاہور آتا ہے مگر یہاں کی اقربا پروری اور صلاحیتوں کی بے قدری سے مایوس ہو کر اپنے خالو، خلیل خیالی (سلمان شاہد) جو خود بھی کئی سال پہلے بی ایس سی کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں لاہور آئے تھے، کے ساتھ دال چاول کی ریڑھی لگانے پر مجبور ہے۔ اس ہی دوران احمد کی ملاقات اپنی مالک مکان (مومنہ اقبال) سے ہوتی ہے جو ایک شہید پولیس افسر کی بیٹی ہے اور اب خود اسی محکمے کے آئی ٹی شعبے میں کام کرتی ہے۔ فلم میں مختلف کرداروں کو شہر کے جرائم پیشہ افراد اور ان کے سرغنہ (شفقت چیمہ) سے واسطہ پڑتے دکھایا گیا ہے لیکن اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کی حفاظت کے لیے سب خاموشی سے ان کے ہاتھوں ظلم سہنے پر مجبور ہیں۔

فلم کے مرکزی کرداروں احمد سفیان اور مومنہ اقبال دونوں کو مزید اچھے اسکرپٹ پر کام کرنے کا موقع ملے تو یقینا انڈسٹری میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ سلمان شاہد کسی بھی کردار کو حقیقی رنگ دینے کا خاصہ رکھتے ہیں جبکہ شفقت چیمہ نے بھی ایک روایتی ولن کا کردار بہ خوبی نبھایا ہے۔

فلم کے ہدایت کار کے مطابق فلم دال چاول پاکستان کے عام لوگوں کی کہانی ہے جو ملک میں امن و امان کی ابتر صورت حال کی وجہ سے روزانہ ایک خوف کے سائے میں گھروں سے باہر نکلتے ہیں۔ ان حالات کو فلم کا پس منظر بناتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ملک کی پولیس ان شہریوں کی حفاظت کے لیے ذمہ داری سے اپنا کام کررہی ہے۔

فلم کے پروڈیوسر کے مطابق دال چاول بنانے کا ایک مقصد پولیس کے افسران اور سپاہیوں کی کارکردگی اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ہماری نئی نسلوں کے دلوں اور ذہنوں میں اس کا مقام اور وقار بلند کرنا بھی ہے۔

دال چاول کا پلاٹ موزوں ہے لیکن اسکرین پلے بوجھل اور غیر دلچسپ محسوس ہوتا ہے۔ پہلا نصف روایتی پاکستانی فلموں کی طرح جامد اور طوالت کا شکار نظرآتا ہے جبکہ دوسرے نصف میں کہانی تھوڑی آگے بڑھتی ہے جس میں مجرموں کو بے نقاب کرنے کے بعد کلائمکس میں ایکشن کے مناظر اچھے فلمائے گئے ہیں۔ فلم میں معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ اس میں طنز ومزاح اور رومانس ڈالنے کی کوشش بھی کئی گئی البتہ سسپنس کو بہت بھونڈے طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔

فلم کے تکنیکی نکتے پر بات کریں تو ساؤند افیکٹس اچھے ہیں جبکہ فائٹ سینز پر بھی محنت کی گئی ہے۔ کیمرہ شروع میں ہلتا ہوا محسوس ہوتا یے لیکن بقیہ فلم میں سنبھل گیا ہے۔

اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود دال چاول کا میوزک اچھا ہے۔ فلم میں کل چار گانے شامل ہیں جنہیں جابرعباس، ماریہ میر اور راحت فتح علی خان نے گایا ہے۔ خاص طور راحت فتح علی خان صاحب کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ٹائٹل سونگ ’ہم زندہ ہیں‘ کافی جاندار ہے۔

دال چاول کا اختتام دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید اس کا دوسرا حصہ بھی بنایا جائے گا اور اگر ایسا ہے تو پروڈیوسرز کو اگلا حصہ بنانے کے لیے مزید محنت کرنا پڑے گی۔

اس وقت پاکستان میں بالی وڈ فلموں کی عدم موجودگی میں ہمارے فلم سازوں کو ایسی فلمیں بنانے کی ضرورت ہے جو چاہے کم بجٹ میں تیارہوں لیکن ان کا موضوع، کہانی اور ہدایت کاری ایسی ہو کو فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں اور وہ سینماؤں میں جا کر پاکستانی فلمیں دیکھنے کو ترجیح دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).