”خان کو ایک بدبخت نے پیٹا ہے“


یونیورسٹی کا زمانہ تھا۔ سیر کے لئے بس بھر کر لاہور کے جلو پارک گئے۔ بے فکری کے ایام، قہقہے، شرارتیں اور دوستوں کی محفلوں میں سفر طے ہوا۔ پارک پہنچے تو ٹولیاں بن گئیں اور گپیں لگاتے ادھر ادھر ہوگئے۔ یکایک ایک طرف سے شور سنا۔ نوجوانوں کا ایک ٹولہ کسی طرف بھاگ رہا تھا۔ غور کیا تو اپنے دوست نظر آئے۔ ہم بھی بھاگے۔ لڑائی ہو گئی ہو گی۔ دیکھیں تو سہی کسی کو ہماری مدد کی ضرورت نہ ہو۔

دوڑتے دوڑتے ساتھ والے سے پوچھا۔ یار ہوا کیا ہے؟ اس کی شکل پر بھی ہماری طرح سوالیہ نشان تھا۔ تھوڑا تیز دوڑے کہ اگلی صف والوں کو جا کر پوچھیں کہ دوست، کیا ہوا ہے؟ کس سے لڑنا ہے۔ اور ایسا کیا ظلم ہوا کہ ہماری میراتھن لگوا رہے ہو۔

ایک صاحب بولے کہ خان کو ایک بد بخت نے پیٹا ہے۔ اور بھاگ گیا ہے۔ خان ہمارا پیارا دوست کوئٹے کا پٹھان تھا۔ ہمارا مہمان، جگری دوست۔ اس بد بخت کو جانے نہیں دینا۔ کدھر ہے وہ خبیث روح کہ جس کی شامت آئی ہے۔

دوڑتے دوڑتے ہم نے میاں گول مٹول کو اوور ٹیک کیا۔ موصوف فربہ تھے اور خاصے امن پسند واقع ہوئے تھے۔ ان کے چہرے پر بی ایک غضب کی لہر دیکھی تو معاملے کی شدت کا احساس ہوا۔ خان کا نیل نیل ہوا چہرا آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔ ہم دوستی اور وفاداری کے جوش میں اور آگ بگولہ ہوے اور اخری گئیر میں بگٹٹ دوڑنے لگے۔

ہمارے جوشیلے دوستوں کی صف اول کو پہنچے تو دوڑ رک چکی تھی۔ ایک دبلا سا ہمارا ہم عمر لڑکا جلو پارک کی گھاس پر پڑا شور مچا رہا تھا۔ بھائی میں نے کچھ نہیں کیا۔

تو دوڑ کیوں رہا تھا؟
بھائی اتنے لوگ مجھے مارنے کو آرہے تھے۔ اس لئے۔

سانس بحال کرتے کرتے اس جوان کے گرد ہم پچاس کے قریب لڑکوں کا دائرہ بن گیا۔ لڑکا ہانپتا کانپتا ہر طرف دیکھ رہا تھا۔ کسی نے اسے گالی دی اور چپیڑ لگا دی۔ ایک اور نے آگے بڑھ کر پیر سے دھکیل دیا۔

ایسے موقعوں پر بزدل بھی شیر ہو جاتے ہیں۔ ایک نامی گرامی مسخرے نے بھی نعرہ لگا کر اس کو ایک دھپہ رسید کر دیا۔ دھپہ کیا تھا۔ وسیم اکرم کا ایکشن بنا کر انڈر آرم گیند پھینکی ہو جیسے۔ اس اثنا میں ہمارے ٹیچر بھی پہنچ گئے اور اس جوان سے پوچھ گچھ کرتے کرتے اسے ایک طرف لے گئے۔

خان بھی پہنچ گیا۔ اس کی آستین پھتی ہوئی تھی اور بس۔ معلوم ہوا کہ کسی خاتون کو چھیڑنے پر جھگڑا ہوا۔ ہمیں آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ چھیڑ کنندہ خان تھا یا وہ لڑکا۔ یا یہ کہ اس لڑکے کا صرف اتنا قصور تھا کہ غصے میں بھرے لوگوں کو دیکھ کر بھاگ پڑا تھا۔

اس جوان کی خلاصی ہو گئی۔ خان تو سارے راستے ہمارے مذاق سہتا رہا۔ اور میں شکر پڑھتا کہ اس معاملے میں سوائے دوڑنے کہ ہمارا کوئی اور حصہ نہ تھا۔

ٹی وی پر جب لوگوں کو کسی ہندوتوا، اسلام، قانون وغیرہ کے نام پر کسی انسان کی مار پیٹ کرتے دیکھتا ہوں توخان کا واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ ہماری اپنے دوست سے محبت اور وفاداری ایک طرح سے اس ظلم کی وجہ بن گئی تھی۔ یہی حال پاکستانی قوم کا ہے جن کی دین سے محبت کو ایک ٹولہ بڑی آسانی سے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر لیتا ہے۔ سالوں کی تربیت ہے۔ مداری کی طرح ڈگڈگی بجے گی۔ لڑکے بالے سڑکوں پر نکیں گے۔ دھرنا دیں گے۔ اور وہی تماشا پھر ہو گا جو کچھ سال پہلے ایک اور مداری نے دکھایا تھا۔ اور اس سے چند ماہ پہلے ایک اور نے۔

احباب سوچتے ہوں گے کہ کیوں ہم پاکستان کے جوانوں کو مداری کے بندر سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں اس ڈگڈگی کی ڈگ ڈگ سنیں اور اس پر ناچتے جوانوں کو ٹی وی پر دیکھیں۔ پھر بات کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).