سید امتیاز راشد: جنگ کا امن پسند صحافی رخصت ہو گیا


ذرائع ابلاغ کے شعبے میں اپنا منفرد مقام بنانے والے ادارے میں کام کرنے والوں کی محنت اور لگن نے اسے جنگ کی شناخت دی۔ لاہور میں 80 کی دہائی کے آغاز میں قدم جمانے میں جن کارکنوں نے بھرپور کردار ادا کیا، ان میں امتیاز راشد بھی ایک تھے، جن کا ساتھ اس ادارے سے تقریباً چار دہائیوں پر محیط ہے،

جنگ کی رپورٹنگ ٹیم میں موثر اور مستند خبر فراہم کرنے والے شاہ صاحب ہمیشہ نوجوانوں میں ہردلعزیز رہے، اپنی نفیس طبیعت اور مخصوص لب ولہجے کے ساتھ ہر کسی کے ساتھ بڑے پیار بلکہ اپنائیت سے پیش آتے، انسان دوستی کے باعث ہرسٹاف ممبر بلاجھجھک اپنا مسئلہ انہیں بیان کردیتا۔ امتیاز راشد نے کسی کی رہنمائی نہ بھی کی تو بڑے سادہ اور اپنے مخصوص مزاح سے پُر انداز میں حوصلہ افزائی ضرور کردی۔ جیسے کہہ لیں کہ دلجوئی کا سامان کر دیتے۔

ایک بار میں نے پوچھا شاہ جی اخبار کا نام جنگ کیوں رکھا ہے، کہتے یہ محض توجہ مبذول کرانے کے لئے ہے، ویسے ہم امن کا پیام ہی دیتے ہیں۔ ہم نے ابلاغ کا کام کرنا ہے کوئی لڑائی تھوڑے کرانی ہے۔ ہم لوگوں کو پیشگی حالات سے باخبر رکھنے کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ کسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں۔ دراصل ہماری جنگ ظلم اور نا انصافی کے خلاف ہے۔ عوام سے زیادتی کرنے والی قوتوں کے خلاف ہے۔ معاشرے میں بے چینی پھیلانے والے طبقات کے خلاف ہے۔

میں نے کہا شاہ جی، ایسے لگتا ہے آپ اخبار کا پالیسی بیان جاری کررہے ہیں، بولے نہیں بطور صحافی ایک اصول کی بات بتارہا ہوں، صحافت انہیں باتوں کو بنیاد بنا کر ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہیں تو سمجھ لو پھر صحافت نہیں کاروبار ہے۔

امتیاز راشد جیسے سنیئرز کی باتیں واقعی درست تھیں۔ کاروبار اور صحافت دو مختلف چیزیں ہیں۔ انہیں آپس میں گڈمڈ کردیا گیا ہے۔ آج امن کی باتیں کرنے والے شاہ جی بھی رخصت ہوگئے لیکن ان کی شخصیت سے وابستہ باتیں اور ان کے کام کے حوالے اب بھی موجود ہیں۔

ان کے آخری سفر سے پہلے رخصت کرنے والوں میں کئی پرانے چہرے بلکہ بیس سال پہلے بڑے جوان بھی بزرگی میں قدم رکھے ملے۔ اکثریت اپنے اس پیارے ساتھی کو نمناک آنکھوں اور بوجھل دل کے ساتھ شریک تھے۔ ایک دوسرے سے افسوس کرکے شاہ جی کی یادیں تازہ کررہے تھے۔

امتیاز راشد حقیقی معنوں میں مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک، جنہیں مل کر خوشی ہوتی۔ اگرچہ وہ سبھی کو دکھی کر گئے، میرے جیسے مہینوں برسوں نہ مل پاتے لیکن جب کہیں ٹاکرا ہو جاتا ایک لمحے میں ماضی کے سب حوالے کھل جاتے۔ کوئی بات یاد آجاتی، کوئی چٹکلہ کوئی ہنسی کی بات، کیونکہ یہ ممکن نہ تھا کہ شاہ جی کا ذکر کسی واقعہ کے بغیر گزر جائے۔

اس وقت بھی کچھ ایسا ہی تھا، ہر ایک کوئی بات سناتا کوئی واقعہ بیان کرتا ملا، سب دکھی تھے، مگر شاہ جی کی یادوں کے حوالے ان کے پاس تھے۔

شاہ جی خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنہیں فراموش کرنا کوئی آسان نہیں، ان کی پیاری باتیں سب کے لیے سرمایہ حیات ثابت ہوں گی۔ شاہ جی جیسی ہستیاں بھلائی نہیں جاسکتیں۔ ہم اس امن پسند انسان دوست شخصیت کے لیے دعا گو ہیں۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar