دی لینگ لینڈ سکول اینڈ کالج میں مبینہ کرپشن کا معاملہ اور کرپشن فری پاکستان کا ڈھنڈورا


پچھلے تین دنوں سے سماء نیوز کی ایک رپورٹ ویڈیو کلپ کی صورت میں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں دی لینگ لینڈ سکول اینڈ کالج کے اساتذہ ڈی سی آفس کے سامنے کھلی سڑک پر طلبہ کو پڑھا رہے ہیں۔ سکول کی بندش کی وجہ سکول کے اساتذہ کی جانب سے کیری سکوفیلڈ پر عائد کرپشن الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ ہے، جس کی وجہ سے کیری صاحبہ نے انتقامی حربے کے طور پر سکول بند کر دیا ہے۔

اس سکول میں بے ضابطگیوں کی داستان بہت پرانی ہے لیکن انگریز خاتون کیری سکوفیلڈ کے آنے کے بعد اس میں مزید اضافہ اور تواتر دیکھا گیا ہے۔ اس صاحبہ نے اس سکول کو ایک کالونی کے طور پر استعمال کیا ہے اور خود کو ایک کالونائزر ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ سکول اور اس کی پراپرٹی پر ہاتھ صاف کرنے اور طالب علموں کو دبا کر رکھنے کا جو رویہ اپنایا ہے اس میں اور انگریزوں کے دور میں بڑی مماثلت نظر آتی ہے۔

جس طرح انگریز کسی جگہ پر قابض ہونے کے بعد اس علاقے کے با اثر افراد کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی حکومت چلاتے تھے اسی طرح اس خاتون نے بھی علاقے کے کچھ با اثر افراد کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی چھوٹی سی “زرخیز ریاست” چلانے پر اتر آئی ہے۔ کالونئیل دور میں جس طرح علاقے کے لوگوں کو نوازا جاتا تھا، اسی طرح ان چند با اثر لوگوں کو بھی مختلف صورتوں میں نوازا جارہا ہے۔

کالونئیل دور کے جاگیرداروں کی طرح وہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ اس بدیسی خاتون نے ہمیشہ رہنا نہیں ہے۔ ایک تو وہ کافی بوڑھی ہے اور آخر کار اسے اپنوں کے پاس اپنے ملک ہی سدھارنا ہے۔ یہ ساری باتیں پیش نظر رکھتے ہوئے یہ شاطر مزاج اور مفاد پرست لوگ اس خاتون کے ہر جائز و ناجائز کو سپورٹ کر کے اپنے مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں۔

انگریزوں کے دور اور موجودہ حالات میں فرق صرف اتنا ہے کہ مقامی لوگ زیادہ تگڑے ہیں اور یہ بیچاری انگریز خاتون ان کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہے جس کا ادراک اسے ہو بھی سکتا ہے اور شاید نہیں بھی۔

اس واقعے کو ہم پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی کے تناظر میں دیکھیں تو یہ پی ٹی آئی حکومت کی پالیسی کی ایک ایکسٹینشن لگتی ہے۔

خان صاحب اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتے ہیں، چاہے وہ جہانگیر ترین کی ہیلی کاپٹر سروس کی صورت میں عنایت ہو یا باجوہ صاحب کی صورت میں پیٹرن ہو یا پھر چترال کے شہزادہ کی صورت میں فری ہوٹل کی فراہمی اور ساتھ ساتھ ایک اعلی نسل کے کتے کا تحفہ ہو، خان صاحب نے سب کو ری پے کیا ہے۔ مثلا، جہانگیر ترین کو نا اہلی کے باوجود حکومتی فیصلوں کا اہم حصہ بنا کر،  باجوہ صاحب کو ایکسٹینشن دلوا کر اور فخر چترال شہزادہ صاحب کو پرائم منسٹر ٹورزم ٹاسک فورس کا ممبر بنا کر۔

خان صاحب کی اس پالیسی کی ایکسٹینشن کی جھلک خیبر پختونخواہ کی بیوروکریسی میں بھی واضح نظر آتی ہے۔ چونکہ چترال کی رائل فیملی خان صاحب کے سمدھی ہیں اس لیے خان صاحب تک ان کی پہنچ ہے، اس لیے چیف سیکرٹری خیبر پختونخواہ ہو یا کمشنر مالاکنڈ ہو، سب اپنے چترالی پیٹرن کی فرمان برداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔

اس سے پہلے خٹک صاحب جب خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی تھے تو انہوں نے باقاعدہ ایک لیٹر بھی جاری کیا تھا جس میں واضح حکم دیا گیا تھا کہ اس سکول کی تمام مووایبل اور ام مووایبل پراپرٹی اس سکول کے اصل اونر جناب شہزادہ سراج الملک کے نام انتقال کرایا جائے۔ لیکن، چترال کے ایک قابل فخر فرزند نے اس گرانڈ گیم کو ناکام بنا کر اپنی حب وطنی کا ثبوت دیا۔ چونکہ یہ کوشش ناکام ہوئی اس لئے اب بھی مختلف حربوں کے ذریعے اس پر کام جاری ہے۔

مجھے چترال کے ان اساتذہ کو دیکھ کر فخر محسوس ہوتا ہے جنہوں نے اپنی مستقبل کو داؤ پر لگا کر کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی۔ لیکن حکومتی عہدیداروں کی چاپلوسی اور فرمانبرداری کو دیکھ کر عمران خان کی کرپشن فری پاکستان والے نعرے پر اپنا سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ ان افسر وں کی روش دیکھ کر ان سے ایک سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں : کیا انھیں ان کے ساتھی ڈپٹی کمشنر، شہید اسامہ وڑائچ کی سروس یاد نہیں آتی کہ کس طرح اس نے مافیا کے خلاف نہ صرف آواز حق بلند کی بلکہ ان کے خلاف جہاد بھی کیا؟ اس نے کسی با اثر شخصیت کو اپنی ڈیوٹی کی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا۔ اس کی یہی خصوصیت تھی جس کی وجہ سے وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

چیف سیکریٹری اور کمشنر صاحب، آپ پر یہ اخلاقی اور آئینی ذمہ داری ہے کہ آپ بحیثیت سول سرونٹ عمران خان کے کرپشن فری پاکستان کو ایک حقیقت بنائیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اس پورے معاملے کی تحقیق کریں اور لوگوں کا جو مطالبہ ہے اسے اہمیت دیں نہ کہ ایک شخصیت کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک لگژری ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کوئی حکم شاہی صادر کریں۔ خدا را اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں اور اپنی ذاتی مفاد اور فرد واحد کی خوشنودی کے لیے اس قومی اثاثے کو چند خود غرض اور مفاد پرست لوگوں کے ہاتھ لگنے سے بچائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).