سلطان محمود غزنوی اور مسلم مورخین ہند


منات والی کہانی کو عبدالقادر بدایونی اورفرشتہ نے بھی رد کر دیا تھا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ہندووں کی ظہور اسلام سے قبل کی قدیم کتابوں میں اس مندر اور بت کا ذکر ملتا ہے۔ واضح رہے کہ بدایونی یا فرشتہ میں سے کوئی بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کا تنخواہ دار نہ تھا۔ اس کے باوجود اگر بہت پڑھے لکھے لوگ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سومنات میں موجود بت منات تھا جو خانہ ءکعبہ سے پھسل کر یہاں آ گیا تھا تو اس پر حیرت کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ مولانا غلام رسول مہر نے طبقات ناصری کے ترجمے میں مصنف جوزجانی کے اس دعوے کا ابطال کیا ہے کہ بت منات تھا۔ انھوں نے اس بات پرافسوس کا اظہار کیا ہے کہ ناتھ کے فارسی تلفظ نات کو بنیاد بنا کر اس قسم کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ واضح حقیقت ہے کہ مولانا مہر نہ دین بے زار تھے، نہ لبرل اور نہ سیکولر تھے۔

بت فروش یا بت شکن

جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے کہ محمود نے پنڈتوں اور پروہتوں کی مال و دولت کی پیش کش کو ٹھکرا کر یہ کہا کہ وہ بت فروش نہیں بلکہ بت شکن کہلانا زیادہ پسند کرے گا تو اس کو سب سے پہلے شاید فرید الدین عطار نے منطق الطیر میں بیان کیا تھا۔ لیکن حیرت ہے کہ عطار نے بت کو لات قرار دیا ہے۔ معلوم نہیں یہ ضرورت شعری کا نتیجہ ہے یا اس کا سبب کچھ اور ہے۔ یقینا عطاراس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو سکتے کہ لات اور منات دو علیحدہ علیحدہ بت تھے۔

 تیسرے کا نام عزیٰ تھا اور تینوں کا ذکر قرآن حکیم میں موجود ہے۔ مزید شگوفہ یہ کھلایا ہے کہ بت کے ماننے والوں کو آتش پرست قرار دے دیا ہے۔ عطار نے کہا ہے بت کو جلانے کے بعد بیس من [فارسی من جوایک پونڈ کے برابر ہوتا ہے ] جواہرات حاصل ہوئے۔ عطار شاعر اور صوفی تھے اور یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ حقائق بیان کرنے میں ان لوگوں کی مہارت قابل لحاظ نہیں ہوتی۔ ان کا مقصد بہرحال تاریخی حقائق کو بیان کرنا نہیں تھا بلکہ چند مخصوص اخلاقی نتائج کو مرتب کرنا تھا۔

 بعد میں یہ کہانی فرشتہ نے اپنی تاریخ میں بیان کی ہے جس کو جیمز مل نے بھی اپنی ہسٹری آف انڈیا میں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پتھر کے اندر دولت چھپانا کس طرح ممکن ہو سکتا تھا؟ اس کو رومیلا تھاپر نے بھی ناقابل یقین قرار دیا ہے۔ البتہ یہ کسی نے بیان نہیں کیا کہ جو مال و دولت ہندووں نے پیش کیا تھا سلطان نے اس پر بھی قبضہ کر لیا تھا یا وہ وہیں پر چھوڑ دیا تھا۔

پروفیسر رومیلا تھاپر کو ہندو قوم پرستوں سے شکایت ہے کہ وہ اجتماعی نسیان کا شکار ہیں۔ وہ محمود کے اور خود ہندو راجوں کے حملوں کو بھول کر صرف غزنوی کے سومنات پر حملے کا ذکر کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے علاقے کے مسلمان بھی اسی اجتماعی نسیان کا شکار ہیں کیونکہ وہ سلطان کی وسطی ایشیا کی مہمات سے یا تو ناوقف ہوتے ہیں یا دبی زبان ذکر سے کرتے ہیں۔

محمود نے جتنے حملے ہندوستان پر کیے تقریباً اتنی ہی مہمات وسطی ایشیا میں سر کیں۔ اس کی تلوار ہندووں کے ہی نہیں مسلمانوں کے خون سے بھی اسی طرح تر تھی۔ ہمارے مورخین اگرچہ وسطی ایشیا کی مہمات کے بیان میں کسر بیانی سے کام لیتے ہیں لیکن پھر بھی اس قسم کے جملے ان کے قلم سے ٹپک پڑتے ہیں : غوریوں پر حملہ کرکے سختی سے انھیں پامال کیا، ان کے قلعوں پر قبضہ کرکے مال و اسباب کو لوٹ لیا۔

محمود غزنوی کی وفات کے بعد اس کے بیٹے نے علاؤ الدین غور ی کے بھائی سیف الدین کو غزنی میں بے حد ذلیل کرکے موت کے گھاٹ اتارا تو اس نے بھائی کا سخت انتقام لیا اور غزنی میں خون کی ندیاں بہا دیں۔ علاؤ الدین غوری نے غزنی کو جلا کر خاکستر کر دیا اور جہاں سوز کا لقب پایا تھا۔ اس نے اگرچہ سلاطین غزنی کی قبروں کو بھی اکھاڑ پھینکا تھا تاہم سلطان محمود کی قبر کو کوئی گزند نہیں پہنچایا تھا۔

ضروری نہیں کہ اہل ہند کی طرح دیگر علاقوں کے مسلمان بھی اتنے فراخ دل ہوں کہ خود پر ہر حملہ آور کو اپنا ہیرو بنا نا فرض سمجھتے ہوں۔ سلطان محمود نے غوریوں کے علاقے میں جو تاخت وتاراج کی تھی، اس کے نتیجے میں اگر غوری محمود کو ناپسند کرتے تھے تو یہ ان کا حق تھا۔

برصغیر کے مسلمان مورخین نے محمود غزنوی کو ایک آئیڈیل اسلامی حکمران قرار دیا جس کی ”شوکت و قوت سے شعائر اسلام آسمان تک بلندہوئے۔ اس نے بت پرستی کو جڑ سے ختم کر دیا“۔ سرزمین ہند پر اسلامی مملکت کی بنیاد رکھنے کا سہرا بھی اس کے سر باندھا گیا۔ جوزجانی اور فرشتہ نے تو محمد بن قاسم کا نام بھی نہیں لیا۔ عبد القادر بدایونی کے بقول محمد بن قاسم کوچونکہ بلاد سندھ، ملتان اور گجرات فتح کرنے کے بعد خلیفہ نے واپس بلا لیا تھا اس لیے ہندوستان کے مفتوحہ شہروں میں احکام اسلامی کی ترویج اور پابندی کا انتظام نہ ہو سکا۔ یہ سعادت ناصر الدین سبکتگین اور اس کے فرزندسلطان محمود غزنوی ہی کو نصیب ہوئی کہ نہ صرف انھوں نے ہندوستان کو فتح کیا بلکہ اسلام کا جھنڈا بھی اس سرزمین پر بلند کیا اور احکام اسلامی کی ترویج اور پابندی کا انتظام کیا۔

سلطنت کی بنیا درکھنے کا سہرا تو خواہ مخواہ اس کے سر باندھا جا رہا ہے لیکن مسلمان مورخین کی پسندیدگی کی اصل وجہ اس کا ہندووں کے مندروں کو تسخیر کرنا اور ان کے بتوں کو توڑنا تھا۔ گویا اس نے ہندوستان سے شرک و بت پرستی کا استیصال کیا۔ اس کے بعد بھی سلاطین دہلی کا یہ مرغوب مشغلہ تھا کہ وہ کسی مندر پر حملہ کرتے تووہاں سے بت یا مورتی اٹھا لاتے اور اسے دہلی کی جامع مسجد کے دروازے کے پاس رکھ دیتے اور حکم دیتے کہ لوگ اسے آتے جاتے پامال کریں۔ یہ منظر دیکھ کر ہندووں کے دلوں میں مسلمانوں کی محبت کے جو سوتے پھوٹتے ہوں گے ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

جب ہمارے مورخین مندروں کی لوٹ مار کا ذکر کرتے ہیں تو وہ محمود کی تحقیر نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اس کی مدح سرائی کر رہے ہوتے ہیں۔ جا بجا اس قسم کے جملوں سے واسطہ پڑتا ہے کہ ”ملک کو خوب لوٹا، کافی بڑا خزانہ، ہاتھی گھوڑے، جواہرات اور قیمتی کپڑے مال غنیمت کی شکل میں حاصل کیے۔ “ علامہ شبلی نعمانی سے الفاظ مستعار لیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ”اس زمانے کے مذاق کے لحاظ سے یہ چنداں“ قابل اعتراض بات نہ تھی۔ اس لیے دور جدید کے مداحین محمود کو اس پر معذرت خواہ ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔

سلطان محمود کا بس یہی کارنامہ نہیں کہ اس نے ہندوستان کے بت پرست مشرکوں کو تہس نہس کیا بلکہ اس کا دوسرا بڑا کارنامہ مسلمانوں کے بد عقیدہ ملحد فرقوں بالخصوص قرمطیوں اور باطنیوں کا صفایا کرنا بھی ہے۔ سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں سنی ذرا دبے ہوئے تھے۔ شمالی افریقہ، مصر اور شام و فلسطین پر فاطمی خلافت کا قبضہ تھا۔ بغداد میں ایک نام کاعباسی خلیفہ تھا جس کے پاس اختیار نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ سیاسی اختیار آل بویہ اور دیلمیوں کے پاس تھا جو شیعہ مسلک کے پیروکار تھے۔ سلطان محمود نے ملتان اور منصورہ میں فاطمیوں کی حکومتوں کو ختم کی، اسی طرح نیشاپور اور رے وغیرہ میں بھی سنی اقتدار کو بحال کیا۔ چنانچہ سلطان محمود کی قصیدہ خوانی میں یہ پہلو بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔

(جوزجانی کی ”طبقات ناصری“ اور عبد القادر بدایونی کی ”منتخب التواریخ“ کے اردو تراجم تک رسائی کے لیے ویب سائٹ ریختہ کا شکریہ ادا کرنا لازم سمجھتا ہوں۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2