کیا مسلمان ایک جھنڈے کے نیچے متحد نہیں ہو سکتے؟


خلافت عثمانیہ کے بعض علاقوں کی تہہ میں موجود سیاہ سونے کی بھنک یورپ کے ٹھگوں کو پڑ چکی تھی۔ وہ اس کے اڑانے کے منصوبے بنانے لگے۔ برطانیہ نے سلطان عبدالحمید سے حجاز، عراق اور شام میں آثار قدیمہ کی کھدائی کی اجازت مانگی جو بعض مصالح کی بنا پر دے دی گئی جلد ہی خلیفہ پر آشکار ہوا کہ یہ آثار قدیمہ نہیں بلکہ تیل کے کنوؤں کی کھدائی ہو رہی ہے خیلفہ نے کھدائی بند کروا کر ان کو واپس بھیج دیا۔ اس دن سے کفر یہ طاقتوں نے طے کر لیا تھا کہ اگر ان خزانوں سے مستفید ہونا ہے تو خلافت عثمانیہ کو توڑنا ہو گا، وفد کی واپسی کے کچھ دن بعد ہی نام نہاد ”ترقی پسند“ تحریک کھڑی کی گئی جس نے خلافت کو دن بدن کمزور اور انتشار کا شکار کرنا شروع کر دیا۔

ترقی پسند تحریک کے ذریعے سیکولر مسلمانوں کو یہ باور کرایا گیا کہ یہ ایک کٹر مذہبی حکومت ہے اگر اسے ختم نا کیا گیا تو ترقی کو بھول جائیں۔ عرب نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات ڈالی گئی تم ترکوں کے غلام ہو تمہیں آزادی مل جائے گی تمہارا اپنا ملک ہو گا جس طرح سے چاہو اس میں رہنا تمہارے لیے تو خوشی کا سامان ہونا چاہیے۔ تاریخ سے نا بلد نوجوان یہ سمجھتا ہے ایک حکومت تھی سو ٹوٹ گئی اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ ایک صدی گزرنے کو آئی لیکن اس کو بھلایا نہیں جا رہا۔ میری سوچ مذکورہ بالا طبقا ت سے قدرے مختلف ہے لیکن سقوط خلافت عثمانیہ کا لفظ نوک زبان و قلم پر آتے وقت جو دل پر اثر ہونا چاہیے وہ نہیں ہوتا۔

اگر خلافت عثمانہ قائم رہتی تو روس و امریکہ کی جرات نہ ہوتی کہ وہ باہمی جنگ کا ایندھن شام و افغانستان کے مسلمانوں کو نہ بناتے، عربوں کے سینے پر ناپاک ناسور اسرائیل بھی وجود میں نہ آتا، سعودی عرب و قطر کو اپنی حفاظت کے لیے امریکی بحری بیٹرے کا محتاج نہ ہونا پڑتا، شامی، عراقی، نائیجیرن مسلمان غربت و افلاس کے ہاتھوں مر نہ رہے ہوتے اور ان کے تیل پر یہود و نصارا عیاشیاں نہ کر رہے ہوتے۔ ہر چیز میں مغرب کی تقلید کرنے والے کاش اس معاملے میں بھی مغرب سے سبق لے لیتے۔

کئی اقوام اور 50 سے زائد ریاستوں پر مشتمل امریکہ متحد رہ سکتا ہے، دوسری بڑی عالمی طاقت روس ٹوٹنے سے پہلے 15 ریاستوں پر مشتمل تھی، جن میں 6 کے قریب اقوام ایک جھنڈے کے نیچے متحد تھیں، موجودہ ابھرتی ہوئی طاقت چین کو بھی بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ مسلمان خلافت عثمانیہ کی چھتری کے نیچے کیوں متحد نہیں رہ سکتے تھے؟ نہ جانے ہم مسلمان یہ بات کب سمجھیں گے جب کئی ریاستوں کے وسائل ایک جھنڈے کے نیچے متحد ہوں تو یہ ترقی و عروج کی ضمانت ہوتی ہے، ان کا ایک رعب ہوتا ہے، فتوحات ان کا مقدر ہوتی ہیں اور اس کے برعکس تقسیم کا انجام عراق شام یمن میں بہتے لہو کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں اب بھی وقت ہے کہ مزید تقسیم درتقسیم سے بچنے کے لیے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پید اکرنا ہو گا، نفرت کی دیواروں کو مسمار کرنا ہو گا۔

ترکی اب بھی امت مسلمہ کا درد رکھتا ہے کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے رجب طیب اردگان آواز اٹھاتا ہے وہاں پہنچ کر اپنے بھائیوں کا درد بانٹتا ہے انھیں باور کراتا ہے تم اکیلے نہیں ہو ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔ بشار اسد کے ظلم سے تنگ شامی مسلمان جب ترکی کی سرحدوں پے آئے ترکی کی عوام اور حکومت نے ان کو سر ڈہپانے کے لیے گھر دیے کھانے کے لیے خوراک دی سوسالہ پابندی کے باوجود ترک عوام اپنی روایات کو نہیں بھولے۔

کشمیر کے معاملے پر ترکی عوام اور رجب طیب اردگان نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی ترکی عوام کشمیر کے حق میں ہماری آواز بنے ہوئے ہیں یہاں تک کہتے ہیں ہم ایک قوم ہیں۔ رجب طیب اردگان نے پابندیوں کے باوجود جس طرح ترکی کی معیشت کو بیرونی قرضے اتارے ملک میں موجود غداروں کو سزائیں دی ترکی کو خود کفیل ملک بنایا کاش ہمارے حکمران بھی رجب طیب اردگان کے نقشے قدم پر چل کر ملک کو بیرونی قرضوں سے نجات دلا دئیں تو امریکہ کے آگے ہم بھی آواز اٹھا سکیں آئی ایم ایف ہمارے ملک کے فیصلے نا کرے۔

رجب طیب اردگان نے ایک قوم بنائی ہے امریکہ اور اس کے اتحادی بھی کہے رہے ہیں اردگان مسلم نوجوانوں کو ایک عظیم سلطنت کا خواب دکھا رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے پاکستانیوں کو ایک قوم نا بننے دو انھیں الجھائے رکھو پنجابی، سندھی، بلوچ، پٹھان، کشمیری، گلگتی اورپارٹی بازی سے باہر نکلنے ہی نہ دو جو بھی حکمران آتا ہے وہ بھی اپنا سارا زور اسی پر لگاتا ہے پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹتا ہے ملک کو مزید مقروض کر کے چلتا جاتا ہے جب تک ہم ایک قوم نہیں بنیں گے اسی طرح غربت افلاس ہمارا مقدر بنی رہے گی اور غدار پیدا ہوتے رہیں گے غیروں کے آلہ کار بنے رہیں گے۔

تین براعظموں پر پھیلی ہوئی خلافت عثمانیہ جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطی شمالی افریقہ کے بیشتر علاقوں پر مشتمل تھی موجودہ شام، مصر، لبنان، عراق، لیبیا، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات وغیرہ اس خلافت کے جھنڈے کے نیچے متحد تھے، اس کے وسائل مسائل یکساں تھے کوئی ان کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے سے پہلے ہزار بار سوچتا تھا۔ 3 مارچ 1924 ء کو خلافت کا خاتمہ کر دیا گیا اور اس کی کوکھ سے چھوٹے چھوٹے کمزور ممالک کا قیام عمل میں لایا گیا پھر ان کو مزید کمزور کرنے کے لیے نفرت کی اتنی دیواریں کھڑی کی کہ ان کو گرانے کے لیے بھی عمر نوح درکار ہے، کہ مبادا کہیں یہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے متحد ہو کر ہمارے سارے خواب چکنا چور نہ کردیں۔

اب مزید تقسیم کی مذموم سازشیں عروج پر ہیں اور ہمیں ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہو گا اگر ایسا نا کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب یہ امریکہ اور اس کے اتحادی پاک سر زمین کو بھی میدان جنگ بنا دئیں گے سب سے پہلے ہماری حکومت کو چاہیے کشمیر کو آزاد کرائے چاہے وہ زور بازو سے کرائے یا عالمی قراردادوں کے مطابق اگر وقت پر فیصلہ نا کیا گیا حالات سنگین ہوتے گے تو جس طرح خلافت عثمانیہ کو انگریزوں نے اپنی چالوں سے توڑا تھا اب وہ پاکستان کے درپے ہیں وہ اسے بھی توڑنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی مضبوط اسلامی ملک نا رہے اور وہ اپنی چالیں آسانی کے ساتھ چل سکیں۔ حکومت وقت کو چاہیے ترکی کے ساتھ عسکری معاہدہ کرے اور بھی جتنے مسلم ممالک امت کا درد رکھتے ہیں ان کی فوجیں ایک جھنڈے کے نیچے جمع کریں تاکہ کسی کی جرات نا ہو اسلامی ممالک کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).