دانشور پیدا کرنا ہیں یا دولے شاہ کے چوہے؟


پچھلے دنوں انٹرنیشنل لٹریسی ڈے منایا گیا اور انہی دنوں یاسر پیرزادہ کا کالم “نیا زمانہ، پرانے سکول کیوں؟” پڑھا۔ ہمیں محسوس ہوا کہ کچھ بات کی جائے کہ بیرون پاکستان، اکیسویں صدی کی دنیا میں نئے دور کے سکول کیسے ہیں؟

کچھ برس پہلے کی بات ہے، جب میڈیکل سٹوڈنٹس اور سپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹرز کو اپنا مضمون گائناکالوجی پڑھاتے پڑھاتے ہم کچھ اوبھ گئے۔ کئی سوالوں کا جواب میں تشنہ لبی حصے میں آئی۔ ناکامی پہ دم سادھ لینے کی بجائے سوچا خود ہی اس سمندر میں چھلانگ لگائی جائے، شاید کچھ موتی ہاتھ آ جائیں۔ اس کوشش میں ہم ہالینڈ کی ماسٹرخت یونیورسٹی جا پہنچے جہاں سے ہم نے دو سال میں ایجوکیشنل سائیکولوجی میں ماسٹرز کیا۔ ان دو برسوں نے ہمارے چودہ طبق روشن کر دیئے اور ہمارے ملک کے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں تعلیم اور پڑھائی کے طریقوں کی قلعی کھول دی۔ جہاں آج بھی گئے زمانوں کا فرسودہ نظام کسی بوسیدہ تالاب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح رائج ہے۔ جہاں سے دانشور تو کجا، گدلے پانی اور زنگ آلودہ تعلیم کی پیداوار وہ بونے برآمد ہو رہے ہیں جو کبھی استاد کو قتل کرنے پہ ہیرو قرار پاتے ہیں اور کبھی ساتھی طالب علم کو قطرہ قطرہ موت کا مشروب پلا کے فخر کرتے ہیں۔

ہم قائل ہوئے کہ مغرب کی ترقی کا راز تعلیم کے بدلتے ہوئے تقاضوں میں پنہاں ہے۔ مغرب نے سقراطی فہم و دانش کہ بنیاد پہ رکھی ہوئی تعلیمی منزلوں کو عام کرکے اپنی نسلوں کو زندگی میں آگے بڑھنے اور کائنات کے راز جاننے کی سیڑھی پہ چڑھا دیا ہے۔

تعلیمی نفسیات کا کہنا ہے کہ روایتی ایک یا ڈیڑھ گھنٹے کے لیکچر کی آج کے دور میں نہ جگہ ہے اور نہ ہی ضرورت۔ ہر انسانی دماغ صرف دس منٹ تک کسی بھی یک طرفہ لیکچر سننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پندرہ منٹ کے بعد کچھ بھی سمجھنے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ دماغ میں یادداشت سے متعلق دو مرکز ہیں، شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم میموری سنٹرز۔ ان دس سے پندرہ منٹ میں شارٹ میموری کی ساری جگہ لبالب بھر جاتی ہے اور وہ کچھ بھی اور قبولنے سے انکار کر دیتی ہے۔ شارٹ ٹرم میموری میں گئی ہوئی کوئی بھی معلومات اس وقت تک دماغ میں نہیں بیٹھ سکتیں جب تک وہ لانگ میموری کے علاقے میں نہ پہنچ جائیں۔ سو ایک گھنٹے کے لیکچر میں پہلے دس منٹ قیمتی ہیں جس میں دماغی صلاحیت کسی بھی اہم معاملے کو سمجھتی ہے، ذخیرہ کرتی ہے اور پھر کچھ دیر کے لئے دروازہ بند کر دیتی ہے۔

ہمیں پہلی دفعہ سمجھ آئی کہ ہم میڈیکل کالج میں لیکچر کے دوران پچھلی بنچوں پہ لیٹ کے سو کیوں جاتے تھے۔ نیم دراز ہو کے کوئی دلچسپ کتاب پڑھنا بھی محبوب مشغلہ تھا۔ ہمارا دماغ پہلے دس منٹ کے بعد کامل انکاری ہو جاتا تھا کہ بس اب اور نہیں۔ سو لیکچر میں جانا صرف حاضری پوری رکھنے کی مجبوری تھا۔

اسی طرح جب لوگ عمر رسیدہ ہونا شروع ہوتے ہیں، پرانی سب باتیں انگلیوں پہ یاد ہوتی ہیں اور آج کی سب فراموش۔ اس کی وجہ بھی عمر بڑھنے کے ساتھ شارٹ میموری کی استعداد مزید کم ہو جانا ہے۔ شارٹ میموری حال کو پراسس ہی نہیں کر پاتی اور لانگ ٹرم میموری سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔

تعلیمی نفسیات میں ہر وہ سبق جو یادداشت کے سہارے یاد رکھا جائے یا دوسرے لفظوں میں رٹا مارا جائے اور امتحان میں اسی طرح لکھا یا کہا جائے، بالکل بیکار ہے۔ یہ عمل دماغ میں معلومات کا ڈھیر تو لگا سکتا ہے لیکن ان معلومات کو کہاں، کیسے، اور کیوں استعمال کرنا ہے، نہیں سکھا سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے گاڑی چلانے کی ہدایات پڑھ کے گاڑی سڑک پہ نہیں چلائی جا سکتی جب تک سٹئیرنگ وہیل کے پیچھے بیٹھ کے ہر دم بدلتی صورت حال کا مقابلہ کیا جائے۔ سو طالب علم وہ ہنر حاصل نہیں کر پاتے جو انہیں اس علم کو عملی زندگی میں استعمال کرنے کے قابل بنا سکے۔ اسی لئے زیادہ تر لوگ کتابوں کا کیڑا بن کے کاغذی شیر تو بن جایا کرتے ہیں لیکن کارکردگی میں ہیرو کی بجائے زیرو ہوا کرتے ہیں۔

آج کی دنیا میں تعلیم کی بنیاد پرابلم بیسڈ لیرننگ (PBL) پہ رکھی گئی ہے جسے ہم مسئلے کو حل کرنے سے سیکھنا کہہ سکتے ہیں ۔اس طریقہ تعلیم میں طالب علموں کو پہلی ساعت سے ساتھ شامل کیا جاتا ہے، سیکھنے کے عمل کا آغاز ان سے ہوتا ہے۔ استاد کی حثیت صرف facilitator کی سی ہوتی ہے۔

‏PBL کے لئے ایک خاص طریقہ اپنایا جاتا ہے اور اس کے مختلف درجے ہیں۔

پہلی سیڑھی کسی بھی مسئلے یا مشکل کو پہچاننا ہے کہ ہم کس بارے میں کیا اور کیوں سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہدف مقرر کرنے کے بعد اگلا زینہ برین سٹورمنگ ( brain storming) ہے۔ یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ طالب علم اس مسئلے کے بارے میں پہلے سے کیا جانتے ہیں اور کیا نہیں۔ اس مشکل کے بارے میں سب طالب علم تفصیل سے سوچتے ہیں۔ کوئی بھی اچھوتا خیال، کوئی بھی ممکنہ حل، کوئی بھی ناممکن اور عجیب سوچ۔ کسی بھی آئیڈیا کی پرواز کی کوئی حد مقرر نہیں۔ ایک طالب علم سب کے سوچے گئے solutions کو بلیک بورڈ پہ لکھتا ہے۔ پھر بحث و مباحثے کا آغاز ہوتا ہے۔ کیا ممکن ہے اور کیا ناممکن۔ دنیا کیا جانتی ہے اور کیا نہیں ۔ ان سب میں سے کچھ اہم اہداف منتخب کیے جاتے ہیں اور اب طالب علم ان گمشدہ معلومعات کے جواب اپنے سیلف سٹڈی ٹائم میں ڈھونڈیں گے اور جو نہیں معلوم، اس کو سیکھنے کی کوشش کریں گے۔

 اگلی کلاس اور اگلے مرحلے میں پہنچ چکے، سب طالب علم ریسرچ کے مرحلے سے گزر کے معلومات کا ڈھیر اکھٹا کر چکے۔ اب وقت ہے معلومات کے ڈھیر میں سے چھانٹی کرنے کا، کیا چاہیے اور کیا نہیں۔ ہر طالب علم اپنی معلومات بیان کرے گا اور استاد یا تائید کرے گا یا تردید۔ اگر کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے پھر استاد بیان کرے گا۔

آپ اب تک بھانپ چکے ہوں گے کہ اب تک کسی استاد نے رٹی رٹائی معلومعات گم سم، ادھ سوئے ، ادھ جاگے طالب علموں پہ نہیں انڈیلیں۔ طالب علم نے گاڑی کا سٹئیرنگ خود سنبھال رکھا تھا اور استاد رہنمائی کے لئے ساتھ تھا۔

چلیے زیادہ قابل فہم بنانے کئے لئے ایک مثال دیکھتے ہیں۔

سوال : لوگ جاننا چاہتے ہیں ہم سب کی نئی قلم نگار ڈاکٹر طاہرہ کون ہیں۔

برین سٹورمنگ کچھ یوں ہو گی۔

کون ہیں؟ کہاں رہتی ہیں؟ تعلیم کتنی ہے؟ عمر کیا ہے؟ فیملی کیسی ہے؟ بچے کتنے ہیں؟ کیا پڑھ رہے ہیں؟ شوہر کیسے ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ قومیت کیا ہے؟ کیا بنیادی قومیت کے علاوہ دوسری قومیت بھی رکھتی ہیں؟ مذہب کیا ہے؟ فقہ کیا ہے؟ کتنی مذہبی ہیں؟ خیالات کیا ہیں؟ خواتین کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟ معاشرے کے بارے میں کیا نقطئہ نظر ہے؟ شوق کیا ہیں؟ اب سے پہلے کہاں تھیں؟ کیا ماضی میں لکھتی تھیں؟ لکھتی تھیں تو اتنا وقفہ کیوں؟ اب کیوں لکھنا شروع کیا؟ کیا لکھتی ہیں؟ کیوں لکھتی ہیں؟ پسندیدہ موضوع کیا ہے؟ لوگوں کو کیا ریسپونس دیتی ہیں؟ مزاج اکھڑ ہے یا مہذب ؟ پیشہ کیا ہے؟ پیشے میں کیسی ہیں؟ دکھتی کیسی ہیں؟ لوگ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ وہ اس کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟ مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں؟

اب جو لوگ باقاعدہ پڑھتے ہیں وہ ان میں سے کچھ سوالوں کے جواب اپنی لاشعوری معلومات کی بنا پہ دے سکیں گے۔ اور جو نہیں پڑھتے ان کے لئے سب سوال ہی جواب طلب ہوں گے۔ سو ممکنہ سٹرٹیجی یہ ہو گی کہ گمشدہ کا جواب ڈھونڈا جائے۔

سو اس کلاس کے بعد تشنہ معلومات کی فہرست مرتب ہو گی اور ہر طالب علم مختلف ذرائع ( گوگل، فیس بک، ماضی کے اخبارات) استعمال کرتے ہوئے جواب ڈھونڈے گا۔

اگلی کلاس میں سب اپنی معلومات پیش کریں گے جو صحیح بھی ہو سکتی ہیں اور غلط بھی اب استاد ان معلومات پہ تصدیق کی مہر لگائیں گے اور اب دماغ ان تمام معلومعات کو پراسس کر لے گا۔ آپ محسوس کر چکے ہوں گے کہ طالب علم اس سارے عمل میں خود ایکٹو تھے پیسو ( passive) نہیں۔ سوال بھی طالب علموں نے سوچے اور جواب بھی انہوں نے ہی ڈھونڈے۔ استاد کا کام کمی کو پورا کرنا اور جہاں مشکل ہو، مدد دینا ہے۔

‏PBL کا آغاز انیس سو ساٹھ میں کنیڈا کی میک گل یونیورسٹی میں ہوا جو بعد میں دنیا کے مختلف ملکوں نے اپنایا، اور ترقی کے راستے پہ گامزن ہوئے۔ اس طریقہ تعلیم کو سقراط سے منسوب کیا جاتا ہے جہاں سوال پوچھنا ہی بنیادی تعلیم سمجھا جاتا تھا۔ مولا علی، باب علم کو کون بھول سکتا ہے جو بار بار منبر سے ارشاد فرماتے رہے۔

“ پوچھو! مجھ سے پوچھو؟ کائناتی راز، پوشیدہ امور، کچھ بھی قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں”

اور اپنے ہاں یہ عالم ہے کہ ابھی تک اس تذبذب کا شکار ہیں کہ ذریعہ تعلیم انگریزی یا اردو؟  PBL تو بہت دور کی بات ہے۔

ہمیں نئے پاکستان میں طے کرنا ہو گا کہ ہم نے ماڈرن طریقہ تعلیم سے دانشور اور فلاسفر پیدا کرنے ہیں یا صدیوں پرانے نظام کی پیداوار دولے شاہ کے چوہے، محدود سوچ اور سوچنے کی صلاحیت سے محروم؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).