سندھی کہانی: مداری


پھر مداری مختلف کرتب دکھاتا۔ ٹین کے ڈِبے میں سکہ ڈال کر اس جیسے مزید کئی سکے بنا ڈالتا۔ ایک رُومال میں گھڑی رکھنے کے بعد رُومال کو لپیٹ کر اس پر ضربیں لگاتا اور پھر بانسری بجا کر جادُو پڑھتا اوررُومال کھول کر صحیح سلامت گھڑی نکال کر تماشائیوں سے داد وصول کرتا۔ پانی سے بھرے شیشے کے گلاس میں رنگ مِلا کر اسی وقت پانی کو دُوسرے رنگ میں بدل دیتا۔ ایک رسّی کو کاٹ کردو حصّے کرکے لپیٹنے کے بعد دوبارہ کھولتا تو رسّی بالکل صحیح سلامت ہوتی۔ آخر میں وہ اپنا دل دہلا دینے والا شعبدہ دِکھاتا۔ وہ بھوک کے مارے، یرقان زدہ جمہورے کو زمین پر لٹاتا اور چاقو سے اس کی زبان کاٹ ڈالتا۔ جمہورے کی باچھوں سے لہو رسنے لگتا اور وہ تڑپنے لگتا۔

” بیٹا! جلدی کر چادر لے آ۔ “ مداری غصّے میں چلا کر بچے سے کہتا۔

بچہ اُچھل کر گدڑی سے چادر نکال کر باپ کے سپرد کرتا۔ جمہورا یوں ساکت ہو جاتا جیسے وہ مر چکا ہو۔ مداری چادر کھول کر اس پر پھیلا دیتا اور پھر بانسری ہونٹوں سے لگا کر بجانے لگتا۔ دوسرے ہاتھ سے ڈُگڈگی بجاتے ہوئے گول دائرے میں چکر لگانے لگتا۔

” انتر منتر، لال بجھکڑ، پیسوں کی ہے کڑ کڑ کڑ کڑ کڑ۔ کھائے گا مکھن چورا، اُٹھے گا اب بچہ جمہورا۔ “ مداری دو چار باریہ باتیں دُہرانے کے بعد جب جمہورے پر پڑی چادر ہٹاتا توجمہورا مسکراتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوتا اور تماش بین تالیاں بجانے لگتے۔ مداری بچے کے ہاتھ میں ٹین کا ڈِبا تھما دیتا۔ بچہ ڈِبا لے کر مجمعے کا چکر لگاتاتو ڈِبے میں پیسوں کی کڑ کڑ ہونے لگتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈِبے میں اتنی رقم جمع ہو جاتی کہ مداری پانچ روپے جمہورے کو دے دیتا۔ باقی بچ جانے والے پیسوں سے تین اینٹوں والے چولھے پر دھری دیگچی میں دال پکانے کا بندوبست ہو جاتا۔

اس کے بعد حالات بڑے خراب ہو گئے تھے۔ روز طلوع ہونے والے سورج کا رنگ وہی نہ رہا تھا۔ وقت شکاری کے ہاتھ پر بیٹھے ہوئے باز کی طرح ہے، پُرسکون ہے تو ٹھیک ہے۔ پرواز کرے گا تو مارا جائے گا۔ عوام کے لیے وہ ایام آنسو گیس کے بادلوں کی طرح تھے، جن سے اشک برستے ہیں۔ مداری شام ڈھلے گھر لوٹتا تھا تو اس کی بیوی بڑے پائپ کے اندر بچھونے پر لیٹی ہوتی۔ اس کی کھانسی رفتہ رفتہ بڑھتی جا رہی تھی۔ کمزوری سے اُٹھنے بیٹھنے کے قابل بھی نہ رہی تھی۔ مداری کی گرہ میں اتنے روپے نہیں تھے کہ وہ اپنی بیوی کا علاج کروا سکے۔ ایک دفعہ وہ بشیر آباد کے علاقے سے کسی ڈاکٹر کو لے آیا تھا۔ ڈاکٹر نے اس کی بیوی کا معائنہ کر نے کے بعد بتایا تھا کہ۔ ”تمھاری بیوی تپ ِ دق کی مریض ہے۔ اس کا مکمل علاج کراؤ ورنہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے۔ “

پھر ڈاکٹر نے مداری کودوائیں لکھ کر دیں، جو وہ خرید ہی نہ سکا تھا۔

شہر کی ساری سڑکیں میدانِ جنگ میں بدل چکی تھیں۔ لوگوں کے اکٹھے ہونے پر دفعہ نمبر 144 عائد تھی۔ مداری کے لیے یہ ممکن ہی نہ رہا تھا کہ وہ لبِ سڑک مجمع کرکے اپنے کرتب دکھائے۔ وہ نکموں کی طرح گھر کے باہر موجود گندگی کے ڈھیروں کے چکر لگاتا رہا۔ کبھی وہ لکڑی کے صندوق سے بانسری نکال کر بجانے لگتا۔ کوے گندگی کے ڈھیروں سے اُڑ کر اس کے صحن میں آ جاتے تھے۔ بچہ باپ کے پہلو میں بیٹھ کر بانسری کی دُھن سنتا رہتا۔

” بابا! مجھے بانسری سکھاؤ۔ “ بچہ مداری سے کہتا، ”مَیں بھی تمھاری طرح بجایا کروں گا۔ “

مداری بانسری اپنے ہونٹوں سے ہٹا کر بچے کو دے دیتا۔ بچہ بانسری اپنے ہونٹوں سے لگا کر اس کے سوراخوں پر بے ترتیب اُنگلیاں پھیرنے لگتا۔ مداری بچے کی اس ادا پر مسکرا دیتا۔

” ارے! ایسے نہیں۔ “ وہ سمجھاتا، ”ہاں۔ ایسے۔ “

وہ بچے کو بانسری سیدھی پکڑنے کو کہتا اور پھر خود اس کی اُنگلیوں کو حرکت دیتا۔ بچہ بڑے شوق سے بانسری بجانا سیکھتا تھا۔ جب اس کی ماں کی تکلیف ناقابلِ برداشت ہو جاتی تو یہ اس کا دھیان بٹانے کی خاطر بانسری بجانا شروع کر دیتا۔ اس کے بے ترتیب سروں سے ماں کو جیسے قرار آجاتا۔ وہ اس کے اُلجھے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتی اور پھر اسے اپنے سینے سے لگا لیتی۔

بچہ کبھی کبھار سیمنٹ کے بڑے پائپ پر چڑھ کر بیٹھ جاتا اور سرکٹ ہاؤس کی طرف آتی جاتی فوجی گاڑیوں کو دیکھتا رہتا۔ ان گاڑیوں کے سائرن ہر وقت فضا میں گونجتے رہتے تھے۔ بچہ پائپ پر بیٹھ کر منہ سے ویسی ہی آوازیں نکالا کرتا۔

” آمریت مردہ باد“ ایک دفعہ اس نے پائپ پر کھڑے ہو کر نعرہ لگایا۔ مداری فوراً پائپ سے نکل آیا اور اسے جوتا دے مارا۔

” نیچے اُترو۔ “ بچہ چھلانگ لگا کر پائپ سے نیچے اُتر آیا اور جاکر لکڑی کے صندوق پر بندر کے قریب بیٹھ گیا۔ بچے کو تو پتا بھی نہ تھا کہ اس نعرے کا مطلب کیا ہے۔ اس نے تو یہ نعرہ بیراج روڈ پر کیے جانے والے مظاہرے میں سنا تھا۔

انھی دنوں ملٹری روڈ پر گاڑیوں کی آمدورفت بڑھ گئی تھی۔ شہر اور گردو نواح کے دیہات کے اسلحہ بردار لوگ فوج سے مقابلے کے لیے باہر نکل آئے تھے۔ فضا میں وقفے وقفے سے ہیلی کاپٹر چکر لگا رہا تھا۔ مداری کو کسی نے بتایا کہ گاؤں پر بم پھینکے گئے ہیں اور کئی لوگ ٹینک تلے کچلے گئے ہیں۔ عین اسی روز مداری کی بیوی کی طبعیت زیادہ بگڑ گئی۔ وہ کھانستے کھانستے سینے پہ ہاتھ رکھ کر نیچے گر گئی۔ مداری نے اسے سہارا دے کر پائپ کے اندر لٹا دیا اور صحن میں آ کر بندر کے سامنے رونے لگا۔ پھر اس نے لکڑی کا صندوق کھول کر گدڑی نکالی۔ سر پر صافہ لپیٹا اور بچے اور بندر کو ہم راہ لے کر شہر کی طرف چل دیا۔

جب وہ بیراج روڈ پر پہنچنے والا تھا تواسے دُور سے فلک شگاف نعرے سنائی دیے۔ وہاں لوگوں کے سر ہی سر تھے اور وقفے وقفے سے ہاتھ بلند ہو رہے تھے۔ آج اسی جگہ سے ایک مشہور ادیب کو گرفتار کیا گیا تھا۔ چند لوگ آمر فوجی جرنیل کا پتلا لے آئے اورعین اسی جگہ نذرِ آتش کرڈالا۔ نعروں کی گونج پھیلنے لگی توآنسو گیس کے گولوں کی بارش ہونے لگی۔ فائرنگ کی آواز سے ماحول میں افرتفری پھیل گئی۔ مظاہرین محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے۔ مداری بھی بندر اور بچے کو لے کر میانی روڈ کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہ سڑک کے کنارے کنارے چلتا ہواکی نکڑ تک پہنچا تو اسے پرے سے آتا ہوا جمہورا دکھائی دیا۔

” مر گئے اُستاد۔ “ جمہورا اس کے پاس آتے ہی بولا، ”اچھا ہوا ملاقات ہو گئی۔ روٹی کا کچھ آسرا تو ہوا۔ “

مداری جمہورے کو ہم راہ لے کر بندر روڈ کی ایک قریبی گلی میں مُڑ گیا۔ وہاں قدرے سکون تھا۔ وہاں کچھ لوگوں کی چہل پہل تھی۔ مداری نے مجمع لگانے کے لیے یہ جگہ مناسب سمجھی۔ اس نے گدڑی کندھے سے اُ تار کر نیچے رکھی اور اس میں سے بانسری اور ڈُگڈگی نکال کر بجانے لگا۔ بندر اُلٹی سیدھی قلابازیاں لگانے لگا۔ چند راہ گیر تماشا دیکھنے رُک گئے۔ قریبی ہوٹل میں بیٹھے کچھ بے روزگار مچھیرے بھی مجمع میں شامل ہو گئے۔ مداری نے اپنی کرتب بازی کا آغاز کرنا مناسب سمجھا۔

ابھی وہ پہلا کرتب دکھایا ہی چاہتا تھا کہ اچانک پولیس کی گاڑی آکر رُکی۔ گاڑی رُکتے ہی پولیس نے تماشائیوں پر لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ جس کو جدھر راستہ ملا بھاگ نکلا۔ بندر خوف زدہ ہو کر چیخنے لگا۔ دو پولیس اہل کاروں نے مداری کو گریبان سے پکڑ ا اور تھپڑ وں، گھونسوں کی بارش کر دی۔ مداری کے سر پر لپٹا صافہ کھل کر گر گیا۔ روتے ہوئے بچے نے آگے بڑھ کر باپ کا صافہ اُٹھا لیا۔ جمہورا موقع ملتے ہی کسی گلی میں رفُو چکر ہو گیا۔ پولیس مداری کو پیٹتے ہوئے گاڑی میں بٹھا کر لے گئی۔ سڑک پر کھڑا بچہ اور بندر روتے رہے۔ بھری پُری سڑک دیکھتے ہی دیکھتے سنسان ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ایک گلی سے جمہورا نمودارہوا۔ اس نے مداری کا بکھرا پڑا سامان سمیٹ کرگدڑی میں ڈالا۔ وہ بچے اور بندر کو لے کر ملٹری رڈ کی طرف روانہ ہو گیا۔

جب وہ تینوں مداری کے گھر پہنچے تو مداری کی بیوی کی طبیعت بہت بگڑ چکی تھی۔ وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں پائپ کے اندر بچھونے پر پڑی تھی۔ جمہورا بچے اور بندر کو وہاں چھوڑ کر چلتا بنا۔ بچہ پائپ کے اندر داخل ہوا تو ماں کے سرہانے کھڑا ہو کر رونے لگا۔ نیم بے ہوش ماں نے بچے کی رونے کی آوازسن کر آنکھیں کھولیں توممتا بھی رونے لگی۔

” اماں! ۔ بابا کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ “ بچے نے سسکاریاں بھرتے ہوئے کہا، ”بابا کے منہ سے خون بَہ رہا تھا۔ “

ماں نے بچے کے سر پر ہاتھ رکھا۔ بچہ روئے جاتا تھا۔ اس نے اپنی پھٹی قمیص کے دامن سے آنسو پونچھے۔ ماں سمجھ گئی کہ بچے کا منہ اور ہونٹ خشک ہیں۔ اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا، بھوک ستا رہی تھی۔ ماں بچھونے سے اُٹھ کر جھکتی، رینگتی ہوئی پائپ سے باہر نکل آئی۔ باہر چولھے کے پاس ایک پلیٹ میں پانی سے تر کی ہوئی باسی روٹی پڑی تھی۔ اس نے وہ روٹی بچے کو دی تو بچہ میلی قمیص سے اپنی آنکھیں پونچھ کر روٹی کھانے لگا۔

ماں وہیں چولھے کے پاس تھڑے پر ہی لیٹ گئی۔ وہ مسلسل بچے کی طرف دیکھے جاتی تھی۔ بچہ سب کچھ بھول کر روٹی کھانے لگا۔ اچانک اس کی نگاہ ماں کے چہرے پر پڑی۔ ماں کی بے جان آنکھیں بچے پر گڑی ہوئی تھیں اور اس کی باچھوں سے لہو بَہ رہا تھا۔ روٹی کا نوالہ بچے کے حلق میں اٹک گیا۔ اس نے نگل کر نوالہ حلق سے نیچے اُتارنے کی کوشش کی۔ وہ ماں کی طرف لپکا اور اسے ہلکورے دینے لگا۔ ماں بے چاری چولھے کے پاس پر سکون لیٹی ہوئی تھی۔

سہما ہوا بچہ ماں کے مدقوق چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ ماں کے منہ سے خون یوں بَہ رہا تھا گویا مداری نے اس کی زبان کاٹ ڈالی ہو۔ بچے کو اپنی ماں کا چہرہ جمہورے کے چہرے جیسا لگا، جو تماش بینوں کے حصار میں بے سُدھ پڑا ہواور اس کی باچھوں سے لہو بَہ رہا ہو۔ بچے نے محسوس کیا کہ جمہورے کی زبان کی طرح ماں کی زبان بھی کٹ چکی ہے۔ وہ مر رہی ہے۔

بچہ دوڑکر میلی کچلی گدڑی کی طرف گیا۔ اس نے گدڑی سے چادر نکال کر اپنی ماں پر ڈالی۔ اس نے مداری کا صافہ اٹھا کر اپنے سر پر لپیٹ لیا۔ وہ ہونٹوں سے لگا کربانسری اور ہاتھ سے ڈُگڈگی بجاتے ہوئے ماں کا طواف کرنے لگا۔

۔ ”انترمنتر، لال بجھکڑ۔ پیسوں کی ہے کڑ کڑکڑ کڑ۔ کھائے گا مکھن چورا۔ اُٹھے گا اب بیٹا جمہورا۔ “

بچے نے ہو بہ ہو مداری کی طرح کہا اور لکڑی کے صندوق پر بیٹھا بندر تالیاں بجانے لگا۔

سندھی تخلیق : ڈاکٹر رسول میمن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2