سندھی کہانی: مداری


ایمپریس مارکیٹ میں
پنجرے میں بند
کل مَیں نے دیکھے
ایسے کبوتر
جن کی آنکھیں
سرخ تھیں

وہ دن کچھ اچھے نہ تھے۔ شہر کے بازار اکثر بند رہتے تھے۔ دیہاڑی پر مزدُوری کرنے والوں نے شاید ہی کبھی ایسا برا وقت دیکھا ہو۔ بیراج روڈ پرآنسو گیس کے گولوں کے خول اور پتھر یوں بکھرے رہتے تھے جیسے آسمان سے ان کی بارش ہوئی ہو۔ یہاں گلیوں سے اچانک لوگ ازدحام کی صورت نمودار ہوتے اور پھر فضا ان کے نعروں سے گونجنے لگتی تھی۔

۔ ”جمہوریت زندہ باد۔ آمریت مُردہ باد۔ “

سیکڑوں ہاتھ ہوا میں بلند ہوتے تھے اور بد حال انسانوں کے ہاتھوں کی بند مٹھیاں بڑی طاقت ور محسوس ہوتی تھیں۔ دُور جلتے ٹائروں کے دُھوئیں میں یہ سڑک میدانِ جنگ کا سا منظر پیش کرتی تھی۔ وہاں فوج کی گاڑیاں پہنچتی تو عوام ان پر پتھراؤ شروع کر دیتے اور پھر آنسو گیس کے گولے داغے جانے لگتے۔ آنسو گیس سے متآثر ہونے والا ہجوم کا ہر فرد اپنی قسمت کو رونے لگتا تھا۔

ان دِنوں ملٹری روڈ پر واقع رائس کینال کے کنارے رہنے والے مداری کے حالات بھی دوسروں سے مختلف نہ تھے۔ اس کی آمدنی کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ وہ جن گزرگاہوں پر مجمع لگا کر کرتب دکھایا کرتا تھا، وہاں لوگ جمع ہو کر جمہوریت کے لیے جِدوجہد کر رہے تھے۔ بیراج روڑ، جہاں ہر وقت لوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی تھی۔ اس نے اسی جگہ اَن گنت بار کرتب بازی کی تھی۔ اس کے ہر کرتب پر مجمع حیرت زدہ رہ جاتا تھا۔

اس کے مزاحیہ جملے سن کر لوگ بے ساختہ قہقے لگانے لگتے تھے۔ لیکن اب یہ سب کچھ خواب ہو چکا تھا۔ سڑکیں عوام کے خون سے سرخ ہو چکی تھیں۔ آنسو گیس نے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دریائے سندھ کے کنارے واقع سرکٹ ہاؤس سے ذرا پرے رائس کینال کے دائیں کنارے کبھی پانی کی زیرِ زمین نکاسی کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ تکمیل کو نہ پہنچا تھا۔ یہاں نہر کے کنارے کنارے کیچڑ میں سیمنٹ کے پائپ پڑے ہوتے تھے۔

مداری نے ایک ایسے ہی پائپ کو اپنا گھر بنا لیا تھا۔ مداری نے پائپ کو ایک طرف سے پتھر چن کر بند کرکے کمرے کی صورت دے لی تھی۔ دوسرے دہانے پر باڑ سی بنا کر چار دیواری کی صورت صحن بنا لیا تھا، جہا ں کونے میں تین اینٹوں والا چولھا تھا۔ چولھے کے پاس پڑے گندے برتنوں پر مکھیاں بھنبھناتی رہتیں۔ دُوسرے کونے میں لکڑی کا صندوق رکھا رہتا۔ رسّی کے ساتھ بندھابندر اسی صندوق پر اُٹھک بیٹھک کرتارہتا۔ دو گھاس پھوس کے تھڑے سے تھے، جن پر بوسیدہ دریاں بچھی رہتیں۔ گھر کے سامنے کیچڑ میں پتھر روڑے بکھرے رہتے جن پرسے قدم اُٹھانے سے چال کا آڑھا ترچھا ہو جانا ضروری تھا۔ یہاں ہر طرف ہر وقت مُردہ جانوروں کی بَد بو پھیلی رہتی۔ سامنے موجود گندگی کی ڈھیریوں پر بلّیاں اور کوّے یوں لڑتے رہتے جیسے یہاں کوئی خزانہ دفن ہو۔

اس سیمنٹ کے پائپ میں بنائے گئے گھر میں چار جانیں رہتی تھیں۔ مداری، اس کی تپ ِ دق کی مریضہ بیوی، کم سن بیٹا اور رسّی سے بندھا بندر۔ فراغت کے اوقات میں مداری پائپ میں بیٹھ کر گنگناتا تو سارا کمرا کسی ساز کی طرح بجنے لگتا۔ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر لیٹ جاتا اور ترنگ میں درد بھرے گیت گنگناتا رہتا۔ صحن میں مداری کی بیوی روٹیاں اس طرح پکاتی جیسے مداری کا گیت سن کر تالیاں بجا رہی ہو۔ بچہ صندوق پر بیٹھے بندر کو پرے ہٹاکر صندوق میں پڑی میلی گدڑی سے بانسری اور ڈُگڈگی نکال کر بجانے کی کوشش کرتا۔

بندرصندوق پر بیٹھ کر ہر وقت جسم کجھاتا رہتا۔ بچے کے لیے بانسری اور ڈُگڈگی قیمتی سرمایہ تھی۔ وہ یہی جانتا تھا کہ اس بانسری کے سروں اور ڈُگڈگی کی آوازسے چولھے میں آگ جلتی ہے اور مُردہ جمہورا جی اُٹھتا ہے۔ اس بانسری کے سرمیں سیکڑوں جادُو ہیں۔ جن کی بنیاد پر مجمع سحر زدہ رہ جاتا ہے۔ لوگ حیران ہوتے ہیں اور قہقہے بھی برساتے ہیں۔ بچے کی اس وقت عمر چار سال تھی مگر اپنے باپ کے ساتھ اس شہر کی تپتی سڑکوں پر پھرتے پھرتے اس کے پاؤں پتھر کی طرح سخت ہو چکے تھے۔

مداری صبح سویرے گھر سے نکلتا تو اس کے کندھے سے میلی کچیلی گدڑی لٹک رہی ہوتی تھی، جس میں چند چھوٹی بڑی چادریں، بنسری اور ڈُگڈگی کے علاوہ لکڑی کا انسانی مجّسمہ، ٹین کا ڈِبا اورزنگ آلودہ چاقوسمیت کئی اشیا ہوتی تھیں۔ اس کے ایک ہاتھ میں بندر کی رسّی ہوتی اور دُوسرے ہاتھ میں بچے کی اُنگلی۔ وہ ملٹری روڈ سے گزر کر آدم شاہد کالونی کے اندر سے ہوتا ہوا بیراج روڈ کی طرف آ پہنچتا تھا۔ بیراج روڈ پر نور محمد نوناری کا نوجوان بیٹا اس کا منتظر ہوتا۔ یہ نوجوان مداری کی خاطر جمہورے کا کردار ادا کرتا تھا۔ نوجوان جب مداری کو آتا دیکھتا تو پیش قدمی کرتے ہوئے اس کے ساتھ ہو لیتا۔

” اُستاد! آج مجھے دس کا نوٹ ضرور دینا۔ “ وہ اکثر یہی کہا کرتا، ”دیکھو اُستاد! اماں کے لیے سبزی لینی ہے۔ بابا کے لیے دہی لینا ہے۔ مَیں نے بھی رات سے کچھ نہیں کھایا۔ “

مداری جمہورے کو تسلی دیتا:

” فکر مت کرو۔ پیسے مل گئے تو ضرور دے دوں گا۔ مَیں سب جیب میں ڈال کر نہیں لے جاؤں گا۔ “

مداری سڑک کے کنارے رُک کر ایک ہاتھ سے ڈُگڈگی بجانے لگتا اور دوسرے ہاتھ سے بانسری ہونٹوں پہ جما کر پھونک مارنے لگتا۔ بندر اُلٹی سیدھی قلابازیاں لگا کر ناچنا شروع کر دیتا۔ تماش بین دائرے میں جمع ہونے لگتے۔ بندر ٹین کے ڈِبے میں موجود چاقو ہاتھ میں لے کر منہ سے آوازیں نکالتا ہوا تماشائیوں کو للکارتا۔ تماشائی پیچھے کو کھسک جاتے اور ہر طرف سے قہقہے سنائی دیتے۔ جب بہت لوگوں کی معقول تعداد جمع ہو جاتی تو مداری بندر کو باندھ دیتا تھا۔ اب بندر آرام سے بیٹھ کر اپنا جسم کھجاتا رہتا۔ مداری گدڑی سے لکڑی کا انسانی مجّسمہ نکالتا اور اسے مجمعے کے درمیان رکھ کر کہتا:

” اس بھرے مجمع میں ہے کوئی جوان کا بچہ جو آئے اور اس کو اُٹھا کر دِکھائے؟ “

بیٹھے، کھڑے مجمعے میں سے کسی کو ہمت نہیں ہوتی کہ وہ آگے بڑھ کرلکڑی کا مجّسمہ اُٹھا لے۔ دفعتاً جمہورا ہجوم میں سے باہر نکلتا اور وہ لکڑی کا مجّسمہ اپنے ہاتھ میں اُٹھا لیتا۔ مداری بانسری ہونٹوں سے چپکا کر ڈُگڈگی بجاتے ہوئے ہاتھ کو گول دائرے میں گھماتا تو یہ لکڑی کا مجسمہ جمہورے کے ہاتھ سے چپک جاتا۔ جمہورا اس مجسمے کو اپنے ہاتھ سے پرے جھٹکنے کی کوشش کرتا۔ وہ اس کو جھٹک جھٹک کر نیچے پھینکتا مگر یہ مجسمہ اس کے ہاتھ سے الگ نہ ہوتا۔ مجمع قہقہے لگانے لگتا اور پھرمداری بانسری ہونٹوں سے چپکا کر ڈُگڈگی بجاتے ہوئے ہاتھ کو گول دائرے میں اُلٹا گھماتا تو یہ لکڑی کا مجسمہ جمہورے کے ہاتھ سے جدا ہو کر نیچے گر جاتا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2