خود پر لعن طعن کرتے صحافی صحافت چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟



’’اچھے کام جو نیوز آف دی ورلڈ کرتا ہے، انھیں ایسے طرز عمل سے داغ دار کر دیا گیا ہے، جو غلط تھا۔ اگر یہ حالیہ الزامات درست ہیں، تو یہ غیر انسانی عمل تھا، جس کے لیے ہماری کمپنی میں کوئی جگہ نہیں۔ دی نیوز آف دی ورلڈ کا کام دوسروں کا احتساب کرنا ہے، لیکن جب اس کی اپنی بات آئی تو یہ نا کام ہو گیا۔‘‘
یہ وہ بیان ہے، کو ایک سو اڑسٹھ سال سے جاری اخبار ’’نیوز آف دی ورلڈ‘‘ کی اشاعت بند کرتے، اس کے مالک جیمز مرڈاک نے جاری کیا۔ مشہور شخصیات کی نجی زندگیوں کے حوالے سے چٹ پٹی خبریں شایع کرنے والے اس اخبار کی ہر ہفتے قریب تین ملین کاپیاں فروخت ہوتی تھیں۔

یہ خبر پڑھ کر آپ کو حیرت ہوگی کہ یہ کون سی دُنیا ہے جہاں اس طرح کے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں، اور جو ’’معمولی‘‘ بات پر ایسے ’’جذباتی‘‘ اقدامات کا فیصلہ کرتے ہیں! ہمارے نیوز اینکر عموماََِِ ٹی وی پہ بیٹھ کے یہ بھاشن دیتے پائے جاتے ہیں، کہ فلاں وزیر کو استعفا دینا چاہیے، کیوں کہ اس کے وزارت میں فلاں کام غلط ہوا، اور ساتھ ہی یہ تجزیہ کار، مبصرین، یورپ یعنی مہذب معاشروں کی مثالیں دیتے ہیں، کہ وہاں متعلق محکمے کا وزیر معمولی بات پر بھی استعفا دے دیتا ہے۔ جیسا کہ ٹرین کے حادثے کی صورت میں ریلوے کا وزیر فوری طور پر مستعفی ہو جاتا ہے۔ ناظرین و قارئین ان کالم نگاروں، تجزیہ کاروں، اینکروں کی سوقیانہ مباحث پر کبھی تالیاں پیٹتے ہیں تو کبھی اپنا سر۔

اسی طرح دیکھا جائے کہ جو معیار ہمارے نیوز اینکر، تبصرہ نگار اور تجزیہ کاروں نے سیاست دانوں کے لیے متعین کر رکھا ہے، جب خود ان پر بات آتی ہے، تو وہ اپنے آپ پر لعن طعن کرتے کہتے ہیں، کہ ہمارے تجزیے، ہمارے اندازے غلط ہو گئے، لیکن کبھی کسی تجزیہ کار نے یہ کہ کر تجزیہ کاری کو خیرباد نہیں کہا، کہ ہمارے تجزیوں سے قوم میں گم راہی پھیلی، لہاذا ہم اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس شعبے میں مزید رہ سکیں۔

یاد کیجیے سال دو سال پہلے کے وہ مناظر جب ان بے ضمیر تجزیہ کاروں نے ذاتی رقابت، اور خفیہ اشاروں پر منتخب حکومتوں کو دن رات تختہ مشق بنائے رکھا، اور عمران خان کو قوم کا مسیحا بتایا، کہ اوپر یہ نیک نام ہو گا، تو نیچے سب ٹھیک کر دے گا۔ محض ایک سال میں، یہ اپنے بال نوچنے کی نوبت تک کیوں کر آئے؟ دیکھا یہ گیا ہے، کہ ان تجزیہ کاروں،  نام نہاد انقلابی صحافیوں کو یورپ سے کوئی اچھی مثال، ناپ تول کے لیے کوئی ترازو ملتا بھی ہے، تو فقط سیاست دانوں کو تولنے کے لیے۔ ’’نیوز آف دی ورلڈ‘‘ جیسی امثال ان کے لیے قابلِ تقلید نہیں۔ نا ہی عوام کو بہ وقت ضرورت یاد دلایا جاتا ہے، کہ وہاں سیاست ہی نہیں، صحافت کے میدان میں بھی عمدہ مثالیں ہیں، جنھیں ہم اپنا سکتے ہیں۔ لیکن اپنے پاوں پر کلھاڑا کون مارتا ہے؟ یہ تجزیہ کار اسی بے شرمی سے تجزیے کیے جا رہے ہیں، جیسے گزرے کل میں غلط بیانی کرتے آئے۔ ان کی پیشانی پر ندامت کا پسینا ہے، نہ حیا کی رمق، ہیں تو لب پر سوکھے لفظ۔

صحافی کے فرائض میں، عوام کی خبر تک رسائی ہے۔ جب صحافی خود کو حکومتیں بنانے اور گرانے میں لگا دے، تو وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، صحافی نہیں رہتا۔ ایک طرف تو یہ ٹی وی اینکر کہتے ہیں، کہ فلاں وزیر، فلاں سیاست دان نے اپنی جائیداد بڑھا لیں، اس کو اس کا حساب دینا چاہیے۔ بجا! حساب ہر ایک کو دینا چاہیے، صرف سیاست دان کیوں؟ یہ ہر دل عزیز صحافی حویلیاں اور ’’پور‘‘ بنا کر رہتے ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ وہ اپنے آمدن کے ذریعے بتائیں، تو ان کی پیشانی پر شکنیں پڑ جاتی ہیں۔ دوسری طرف دیکھا جائے، تو یہ مصلحین ذاتی جہاز لے کر گھومتے ہیں، کوئی پوچھے کہ یہ مال  و اسباب کہاں سے؟ تو جواب دیا جاتا ہے، ہمارے پاس کون سا عوامی عہدہ ہے۔ عوامی عہدہ نہیں ہے، لیکن فون کالز پر تھانے دار کو یوں دھمکایا جاتا ہے، جیسے یہ ملک انہی کی جاگیر ہے۔ تس پہ سیاست دانوں کی فرعونیت پر عمدہ نثر کے شاہ کار پیش کیے جاتے ہیں۔ گویا احتساب اس کا جائز ہے، جو عوام کا نمایندہ ہو۔ عوام کو گم راہ کرنے والوں کو کوئی نہ پوچھے؟

یہ المیہ سیاست کے میدان ہی کا نہیں، ہمارے معاشرے کا مجموعی احوال خراب ہے، کہ جو مثال دوسروں پر پوری اترتی ہو، وہ خود پر لاگو نہیں کی جاتی۔ اخلاق کی پاس داری کا تقاضا دوسروں سے کیا جاتا ہے، خود ذِلت کے گڑھوں میں گرے ہوں، ڈھٹائی سے سر اٹھا کر اپنے لیے عزت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ دوغلی پالیسی ان کٹھ پتلی اینکرز، صحافیوں، تجزیہ کاروں، مبصرین کی ہے، جو غاصبوں کے اشاروں پر سیاست دانوں کو تو بد نام کرتے ہیں، لیکن ان کے اپنے اوپر بات آئے، تو آنکھیں دکھاتے ہیں۔ خود کے لیے ان کا وہ معیار نہیں، جو ’’نیوز آف دی ورلڈ‘‘ نے اپنے لیے متعین کیا۔ ادارے کو بند کر دیا، کہ ہم سے چوک ہوئی، ہم اس کام کو جاری نہیں رکھ سکتے۔ ’’نیوز آف دی ورلڈ‘‘ کے مالکان کی طرف سے اخبار کی اشاعت بند ہونے کی اطلاع پر، سیکرٹری انصاف کین کلارک نے کیا خوب کہا تھا، ’’یہ تمام جو وہ (مالکان) کر رہے ہیں، اس (صحافت) کو ایک انداز دینے کے لیے کر رہے ہیں‘‘۔ اور ہم دیکھیں تو ہم نے صحافت کو کیا انداز دے رکھا ہے۔ المیہ کوئی ایک ہو تو اسے رو بھی لیا جائے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran