ہمارے دلوں کا محرم


\"wajahat1\"پچھلے ہفتے بڑے بھائی تشریف لائے۔ بہت دن بعد ملاقات ہوئی، کہیں سے موٹر سائیکل کا گھوڑا دوڑاتے برونو مسعود بھی آن پہنچے۔ ایک چھت کے نیچے بیٹھنا اچھا لگا۔ کبھی ہر روز ملا کرتے تھے۔ دل میں ایسی خوشی اتری کہ میں نے بھائی سے پوچھا کہ آپ نے امجد صابری کا آخری گیت سن لیا۔ کہنے لگے قوالی ہے اور میں بہت دن سے قوالی نہیں سنتا۔ عرض کی کہ صاحب، مرنے والے کا یہی تو کمال تھا۔ قوالی پر سے قرنوں سے جمی دھول صاف کر دی۔ خالص جذب سب کے سامنے رکھ دیا، سن لیجئے۔ فرمایا سنواؤ۔ صبح کا پہلا پہر تھا۔ امیر خسرو کے بول میں رس تھا۔ امجد صابری کی آواز میں درد تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کسی کا کون سا سر آخری سر قرار پائے گا۔ کون سی تان برہا کی پکار بن جائے گی۔ ریکارڈ ختم ہوا تو لمحے بھر کو سب کی آنکھ میں تھوڑا تھوڑا پانی تھا اور گلے رندھ گئے تھے۔ وقفہ دے کر پوچھا، بھائی، گوجرانوالہ کے گرو نانک پورہ میں اب قوالی نہیں ہوتی؟ کہا کہ بہت برس سے نہیں ہوئی۔ اب تو عاشورہ کی عقیدت کے احساس میں بھی خوف کی لہر رچ گئی ہے۔ اس کے بعد دو بھائی اور ایک چھوٹا لڑکا بہت دیر خاموش بیٹھے رہے۔

جب یہ کالم آپ تک پہنچے گا، عاشورہ کی تعطیل سے پہلے اخبار کی آخری اشاعت ہوگی۔ اس برس ملک میں بہت مدت کے بعد عاشورہ میں تحفظ کی ایک جھلک موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ بلوچستان میں چار عزیز بہنوں کا خونِ ناحق کر دیا گیا ہے تاہم کراچی اور دوسری بہت سی جگہوں پر تخریب کاری کی سازشیں ناکام ہوئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔ جرم کا امکان کبھی صفر نہیں ہوتا۔ شہریوں کا تحفظ اس اعتماد میں پایا جاتا ہے کہ ریاست جرم کرنے والے کی جوابدہی کرنے پر مستعد ہے۔ ابھی تین برس پہلے عاشورہ کے موقع پر قتل و غارت کی خبروں سے دل دہل جاتا تھا۔عاشورہ کی تعطیل کے ساتھ ہی زندگی معطل ہونے کی خبر بھی پہنچتی تھی۔ زخم کریدنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ لینا چاہئے۔ جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب کا اعلان کیا گیا۔ تیس ماہ کے اس سفر میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے…. بہار آئی تو قبروں پہ پھول گن لینا۔ میں کیا بتاؤں، مرے کتنے یار مارے گئے۔ اور اگر فرصت ہو تو یہ بھی شمار کر لیجئے گا کہ ترکشوں میں کتنے تیر باقی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف قومی قیادت کا ارادہ قدم بہ قدم آگے بڑھا ہے۔ ہم نے بہت تاریک برسوں میں بھی یہ یقین قائم رکھا کہ ہماری ریاست دہشت، نفرت اور فتنے پر قابو پانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ جب بہت سے بد خواہ استطاعت پر سوال اٹھا رہے تھے تو درد مندوں نے ہمیشہ لکھا کہ استعداد موجود ہے۔ درخواست یہ ہے کہ فیصلہ کیا جائے۔ سیاسی عزم پیدا کیا جائے۔ اس نکتے کو سمجھا جائے کہ ناقابل عبور انتشار کی جڑیں کاٹے بغیر امید کے شجر پر برگ و بار نہیں آئے گا۔ قوم ترقی نہیں کر سکے گی۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ اس ارادے کی کامیابی کا امکان صرف چالیس فیصد ہے۔ ہم دست بستہ عرض کرتے تھے کہ ساٹھ فیصد کے غلط اور صحیح ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ قوم کو امن اور استحکام کی طرف لانا ہے یا اسے ناکہ لگانے والوں کے ہاتھ رہن رکھنا ہے۔ اور پھر قوم نے ایک درست فیصلہ کیا۔ یہ مرحلہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔ فوج کے محترم ترجمان لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوہ خبر دیتے ہیں کہ پاکستان کی زمین پر دہشت گردوں کا کوئی ٹھکانہ اب موجود نہیں۔ اس اچھی خبر کے لئے شکریہ۔ تاہم یہ بیان کرنا چاہئے کہ سوچ کے منطقوں میں ابھی بہت سی بارودی سرنگیں باقی ہیں۔

ہیں گھات میں ابھی کچھ قافلے لٹیروں کے

ابھی جمائے رہو مورچے کنارے پر

یہ بات حد درجہ قابل تعریف ہے کہ کل تک اختلاف اور فرقے کی بات کرنے والے کچھ رہنماؤں نے اس برس امن کی بات کی ہے۔ رواداری کا اشارہ دیا ہے۔ یہ ہوا کا رخ بدلنے کے اشارے ہیں۔ قوموں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ماضی میں ہونے والی غلطیوں کے ڈھیر سے نا انصافی کا کنکر دریافت کریں اور اسے کھیت سے بارہ پتھر دور کر دیا جائے۔ تاہم تاریخ کی بنیاد پر کسی گروہ کو جسد اجتماعی سے منفک نہیں کیا جاتا۔ جرم کو ختم کیا جاتا ہے، اپنے ہاتھ نہیں کاٹے جاتے۔ پاکستان میں بسنے والے پاکستان کی اصل دولت ہیں۔ اس برس نئے ہجری سال کے آغاز میں موسم بدلنے کے اطمینان بخش اشارے ملے ہیں۔ ان اشاروں کو قوم کی طاقت میں بدل دینا چاہئے۔ ہمارے ملک میں عقیدے، زبان اور ثقافت کا بہت سا تنوع پایا جاتا ہے۔ پرانی سوچ یک رنگی کو قوت سمجھتی تھی۔ اور طاقت کے بل پر یک رنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ انسانی تاریخ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ یک رنگی پیدا کرنے کی سعی سے انتشار جنم لیتا ہے۔ امن کے لئے ضروری ہے کہ رنگا رنگی کو احترام دیا جائے۔ قوم کی چادر کے دھاگوں کو اس ڈھنگ سے بنا جائے جو قائمہ زاویے کے اصول پر قوت پیدا کرتا ہے۔ کبیر داس خود کو جولاہا بیان کرتے تھے۔ جولاہا دھاگے سنوارنا جانتا ہے۔ برصغیر کی تہذیب میں بھگت کبیر رواداری اور شائستگی کا استعارہ ہے۔ کبیر داس اس جدید سوچ کا نقیب تھا جو تنوع میں توانائی دریافت کرتی ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ حکومت توانائی کے بحران پر بہت توجہ دے رہی ہے۔ ملک کے طول و ارض میں توانائی کے بہت سے منصوبے مکمل کئے جا رہے ہیں۔ کہیں کوئلے سے توانائی پیدا کی جارہی ہے۔ کہیں ہوا کے جھونکوں سے بجلی کشید کی جا رہی ہے۔ کہیں پانی کے دھاروں کو مطیع کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں چہار سمت سے دریا بھرے ہیں۔ ان دریاؤں کا رنگ نواحی مٹی کے رنگ سے مطابقت رکھتا ہے۔ کہیں یہ دریا اٹک کے مقام پہ ایک ہوتے ہیں۔ کہیں یہ ستلج میں آن گرتے ہیں۔ کہیں یہ گدو بیراج پہ ایک دھارا بنتے ہیں اور کہیں یہ گہرے سمندروں سے ہم آغوش ہوتے ہیں۔ پچھلے تیس برس میں لوڈ شیڈنگ کا سبب صرف یہ نہیں کہ بجلی کی پیداوار اور طلب میں خلیج پیدا ہوگئی تھی۔ قوم کی توانائی کے بحران کا ایک بنیادی سبب یہ تھا کہ ہمارے چراغ ایک ایک کر کے بجھائے جا رہے تھے۔ ہماری روشنیاں بجھ گئی تھیں۔ ہمیں تاریکی سے خوف آتا تھا۔ بڑھتے ہوئے اندھیروں میں جرم پرورش پا رہا تھا۔ دلوں کے حال کا محرم کوئی اور ہے لیکن خبر یہ ہے کہ ہم بجلی پیدا کرنے پر بھی توجہ دے رہے ہیں اور ہم نے قوم کے دھارے کی توانائی بحال کرنے پر بھی توجہ دے رکھی ہے۔ نئے ہجری سال میں امید کرنی چاہئے کہ تخریب اور دہشت کا جھاڑ جھنکاڑ صاف کیا جائے گا۔ سیم اور تھور زدہ منطقوں کو صاف کر کے مزید زمین زیر کاشت لائی جائے گی اور امن کی فی ایکڑ پیداوار اس سال پچھلے برسوں سے زیادہ ہوگی۔ دلوں کا محرم کوئی اور ہے، مگر اس محرم الحرام میں نظر آنے والی امید کو خوش آمدید کہنے میں بہت سی بھلائی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments