ادب سے لیتے رہے ہیں نام حسین کا


صرف یہ نہیں کہا کہ میں یزید کی بیعت نہیں کروں گا….فرمایا ”کوئی مجھ جیسا، یزیدجیسے کی بیعت نہیں کر سکتا“ …..کوئی ابہام رکھا نہ \"waqarکوئی وضاحت طلب بات چھوڑی۔ اپنے آفاقی پیغام کو، اپنے عظیم نظرئیے اوررہتی دنیا تک کے لئے اپنے وضع کردہ رہنما اصول کو دو ٹوک، واضع اورصاف الفاظ میں بنی نوع انسان تک پہنچا دیا، اپنی گفتا ر سے بھی اور کردار سے بھی۔ اگر کوئی ابہام ہے تو ہمارے دلوں میں، کوئی فتور ہے تو ہمارے ذہنوں میں، کوئی چور ہے تو ہمارے اندر۔ یہاں ہرکوئی اپنی اپنی معاشی، سماجی اورسیاسی ضروریات کے مطابق اس پیغامِ حق کی وضاحت کر رہا ہے۔ کوئی اسلام پر رحم کھانے کو تیار ہے نہ مخلوق خداپر، ورنہ پیغام دینے والے نے توبڑی سادہ اور آسان فہم زبان میں ہمارے لیے انقلابی اور فلاحی راہ متعین کر دی تھی کہ”مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا“۔

یہ تاریخ عالم کا سب سے عظیم لانگ مارچ تھا، جو مدینہ سے شروع ہوا اور کربلا کی تپتی ریت کوخون سے سیراب کرتا شام پہنچ کرہمیشہ کے لیے انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ یہ ظلم، ناانصافی، ملوکیت، انسانی حقوق غصب کرنے اور مخلوق خدا کو جبر کے ذریعے اپنا تابع بنانے کے خلاف دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا، موثر اور بھرپور احتجاج تھا، جو تا قیام قیامت بنی نوع انسانی کے لیے مشعل راہ رہے گا۔ فرات کے کنارے یہ اصول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طے ہو گیا کہ حسینیت عدل جبکہ یزیدیت ظلم کا نام ہے۔ جہاں بھی، جب بھی کہیں ظلم، ناانصافی اور جبر ہو گا وہ یزیدیت کہلائے گا اور اس کے خلاف جو قیام کرے گا وہ حسینیت کا علمبردار ہو گا۔ اس واضع اور ٹھوس نظر یے کو تاویل در تاویل اور تشریح در تشریح کر کے مبہم بنانا اسلام کی کوئی خدمت نہیں۔ دین مبین کو نماز روزہ تک محدود کرنے والے کیا اس پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں گے کہ جو خود تو پرتعیش زندگی گزارتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ خاتون جنت کائنات کی معتبر ترین ہستی کے گھر سے جہیز میں کھجور کے بان سے بنی ایک چارپائی، کھجور کی چھال سے بھرا ہوا چمڑے کا ایک بچھونا، دوری چمڑے کی کنال، ایک مشکیزہ اور آٹا پسینے کی چکی لائی تھیں۔ وہ اپنے عالی شان بنگلوں سے لگژری گاڑیوں میں سوار ہو کر آتے ہیں اورمرغن غذائیں ڈکار کر ہمارے سامنے خطبات میں خلفائے راشدین کی سادگی کی مثالیں بیان فرماتے ہیں۔ فضائل و مصائب آل ِ محمد بیان کرنے والے سر یلے قصیدہ گواورنوحہ گر پہلے اپنی خوش الحانی کی قیمت چکاتے ہیں اور خون شہدائے کربلا کے صدقے محرم میں سارے سال کی روٹیاں کماتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے کہا ہے۔

عالم اخلاق کو زیرو زبر کرتا ہے توُ
خون اہلبیت میں لقمے کو تر کرتا ہے توُ
مشق ِ گر یہ عیش کی تمہید ہے تیرے لیے
عشرئہ ماہ محرم، عید ہے تیرے لیے

جس دین کو بچانے کے لیے شہدائے کربلا نے قربانیاں دیں، ہم گفتار سے تو اسے مکمل ضابطہ حیات قرار دیتے ہیں مگر کردار سے اس پر جزوی عمل کرتے ہیں۔ ہم جو دوائیں تک خالص نہیں بیچتے، حج وعمرہ کے نام پر فراڈ کرتے ہیں، ملاوٹی اشیاء، گھٹیا سامان بیچنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں، مریضوں کے گردے چوری کرتے ہیں، ووٹ لے کر لوٹے بن جاتے ہیں، دوسروں کا حق مارنا اپنا حق سمجھتے ہیں، یتیموں کا مال کھاتے ہیں، رشوت سے کام کرتے ہیں، آٹا سمگل کرتے ہیں، چینی بلیک کرتے ہیں، جھوٹ کی ترویج پر کمر بستہ ہیں، چوروں کو ووٹ دیتے ہیں، ظلم پر خاموش رہتے ہیں، غاصبوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں،، حتیٰ کہ مساجد میں نمازیوں کے جوتے چرانے سے لے کر ان کا خون بہانے تک کسی جرم سے نہیں چوکتے، پھر بھی خود کو اپنے تیئں حسینی صفوں میں کھڑا سمجھتے ہیں اور اوپرسے حسین کے نانا کی امہ کی قیادت کے دعویدار بھی ہیں۔ ہمیں کون سمجھائے کہ اسلام نے صرف نماز ہی نہیں، عدل کا حکم بھی دیا ہے۔ دین حق میں اگر شراب حرام ہے تو دوسرے مسلمان کا مال اور خون بھی حلال نہیں۔ جہاں روزے کا حکم ہے وہاں دوسرے کا حق مارنا بھی جائز نہیں۔ بظاہر ہمارا حلیہ شرعی مگر اکلِ حلال کی تخصیص ؟ سینوں میں کذب، غیبت، بخل، تکبر، حب جاہ، چغل خوری، حرص، حسد، خوشامد اور ریا کے دریا ٹھاٹھیں مار رہے ہیں اور دعویٰ ہے تو کس کی وراثت کا؟ شاعر نے ہمارے طریقہ واردات کو دو مصرعوں میں بیان کرکے کوزے میں دریا بند کر دیا ہے کہ

ہر دور کے یزید کی ہے بیعت ہم نے کی
اد ب سے لیتے رہے ہیں نام حسین کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments