حق کا پاسدار حسین


\"Rashidواقعہ کربلا کے کئی پہلوؤں پہ اہل فکر کی نظر ہے۔ کئی لحاظ سے اس اہم ترین واقعے سے درس حاصل ہوتا ہے۔ ایک پہلو جو کربلا کے معرکے کو اسلام کے باقی معرکوں سے مختلف و منفرد بناتا ہے، وہ حد فاصل کو قائم کرنا ہے۔ جنگ ہمیشہ فریقین کے کسی تناسب کا تقاضا کرتی ہے۔ امام عالی مقام کے پاس جنگ کے واسطے نہ کوئی لشکر موجود تھا، نہ سامان جنگ کی فراوانی تھی، اور نہ تخت نشینی کے لیے نواسہ رسولؐ کا کوئی ارادہ تھا۔ یہ باطل کا مسلط کردہ ظلم تھا، جس کے سامنے ان عظیم ہستیوں کے حوصلوں نے فتح و کامرانی حاصل کی۔ اسے جنگ کہنا اتنا مناسب نہیں، جتنا اسے باقاعدہ اور دانستہ ظلم کہنا موزوں ہے۔ اسلام کی تاریخ میں اتنی بڑی دہشت گردی نہیں ہوئی، جتنی کربلا میں نواسہ رسولؐ کے ساتھ پیش آئی۔ مگر یہ اہل بیعت علیہ السلام کی طرف سے، ایک ایسی بے مثال استقامت کا نذرانہ تھا، کہ جس نے حق و باطل کے درمیان اپنے خون سے لکیر کھینچی۔

تا دم شہادت امام عالی مقام نے جنگ سے گریز کیا۔ البتہ باطل کے سامنے اپنے قیام کی ساعتوں میں جس تحمل و بردباری و صبر کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام عالم انسانیت کے لیے ایک پیغام ہے۔ دین اسلام کی شکل کو مسخ کرنے کی کوشش کو آل محمدؐ نے نہ صرف ناکام کیا بلکہ اسلام کی تاریخ کو مزید منور کرنے کا باعث ہوئے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگوں کی اس کٹھن راستے میں آزمائشوں کے کئی سلسلے ہیں، جن میں ظلم و جبر کی انتہا ہوئی، مگر ہمت اور حوصلے نے ہر امتحان میں کامیابی پائی۔ کربلا کی سرزمین پہ آل نبی اور ان کے رفقا کا جو استقامتی مظاہرہ ہوا، وہ بالکل بے مثال ہے۔ اس میں شرکا کا تعلق ہر عمر سے تھا۔ مستورات بھی شامل تھیں اور کم سن بچے بھی موجود تھے۔ سب کے سامنے ایک ہی مقصد تھا، یعنی \’دین کی سر بلندی\’۔

انہوں نے ہر آزمائش کا مقابلہ حوصلے سے کیا، امام کی بہادری، اس لحاظ سے بھی انوکھی تھی، کہ آپ نے ہر طرح کے وار کو جواں مردی کے ساتھ سہا۔ اس عزم اور حوصلے نے رہتی دنیا تک، آپ کے کردار کو حق کے ساتھ ایسے جوڑ دیا۔ جیسے حق کی تعریف اس وقت تک نہیں ہو سکتی، جب تک حوالہ حسین علیہ اسلام موجود نہ ہو۔ حکمت اور استقامت کے لیے اگر کوئی مثال چاہیے، تو بھی کربلا کے شہدا کی صورت میں ہر کردار اپنے منہ آپ بولتا ہے۔ جب بھی بے عدلی، نا انصافی اور ظلم پہ مبنی نظام کو رائج کرنے کی کوشش ہوگی۔ امام حسین علیہ اسلام کو ماننے والے اور ان کو سمجھنے والے سب سے پہلے باطل کی مخالفت میں آواز بلند کریں گے۔ قربانی کا جو نمونہ امام کے یہاں سے پیش ہوا، اس کا تقاضا یقینا بڑا سخت ہے، لیکن ان کے کردار سے وابستگی اور لگاو سے جو ہمت و حوصلہ ملتا ہے، وہ زندگی کی سختیوں کو جھیلنے میں، انسان کا معاون و مددگار رہتا ہے۔ بشرطیکہ ہم ان ہستیوں کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک نظر جانچ لیں۔ آیا ہم ان کے مطلوب و مقصود اوصاف کوپروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، یا پھر صرف مسلمان بننے کے لیے، ہم رسولﷺ اور اس کی آل کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کررہے ہیں۔ کیوں کہ رسولﷺ خدا نے جس محبت اور اخلاق کے ساتھ انسانوں کو حق سے روشناس کرایا، وہی طریقہ دراصل امام کے یہاں بھی رائج تھا۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ امام ہرگز اس بات پہ تیار نہ تھے، کہ کسی قسم کی کوئی خون ریزی ہو۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی حق ادا نہیں ہوا، قدرت نے حق گوئی کے محافظوں کو اس سر زمیں پہ بھیجا۔ پہلے پیغمبرﷺ کو اس فرض کی ادائی پہ مامور دیکھا، پھر آپ ﷺ کے نواسے نے حق کی خاطر اپنے پورے خاندان کی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے لوگوں پہ واضع کر دیا، کہ مقصد کی خاطر ڈٹ جانا ہی بڑی جیت ہے۔

اس واقعے کے بعد حق کے دعوے داروں کے لیے بلند معیار طے ہوا، لیکن ساتھ ہی صبر اور استقامت کی اعلی ترین مثال امام کے اصحاب کی صورت میں موجود ہے۔ یہ روائیتی جنگ و جدل سے ہٹ کے خالص نظریاتی اختلاف تھا، جس پہ کوئی دنیاوی سمجھوتا اثر انداز نہیں ہو سکا، اور نا ہی کوئی ترغیب یا خوف اس جذبے کو کم کر سکا۔ انسانیت کا تصور اور حرمت جو اسلام کا بنیادی ایجنڈا تھا، جب اس کے منافی کام ترویج پا رہے تھے تو ایسے میں کنارہ کشی یا لا تعلقی برتنا، نواسہ رسولؐ کے لیے ممکن نہ تھا، کیوں کہ رسول ﷺ کی تمام زندگی اسلام کے پیغام کی اشاعت میں گزری۔ انہوں نے تمام سختیوں اور مصیبتوں کو بلند حوصلے اور تحمل سے سہا اور اپنے قدموں میں لرزش پیدا نہ ہونے دی۔ پھریہ کیوں کر ممکن تھا، کہ اسلام کے فلاحی پہلو کو نظر انداز کر کے ایسے اعتراضات قائم کر لیے جاتے، جو اسلام کی نظریاتی اساس کے برعکس ہوں۔ تعیش پسندی کو اسلام نے سختی سے رد کیا۔ انسانوں کے مابین ہر طرح کی تفریق کو ممنوع قرار دیا، نیز معاشرتی ضوابط کے ذریعے اسلامی تہذیب کی ٹھوس بنیاد رکھی گئی۔ جب اس اساس ہی کو خطرہ لاحق ہو گیا، تو امام عالی مقام کے لیے یہ فیصلہ کرنا لازم ہو چکا تھا، کہ وہ اسلام کی اصل تصویر کو مسخ ہونے سے بچائیں۔ احترام آدمیت کے اسلامی مقصد کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے تھا۔

اگر چہ آپ کے اقدامات سے ظاہر تھا، کہ جنگ و جدل سے امام اجتناب کرنا چاہتے ہیں۔ آپ حر کے لشکر کو پانی سے سیراب کرنے کا فرمان جاری کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ایک ہزار کا لشکر لے کر امام کے سفر میں رکاوٹ ڈالنے کا فریضہ لے کر وارد ہوا تھا۔ لیکن حسن سلوک چوں کہ آپ کی گھٹی میں تھا، اسی لیے آپ نے دشمن کی پیاس کو بھی محسوس کیا۔ جب کہ خود آپ پہ پانی کی بندش کو بطور ہتھیار آزمایا گیا، مگر آپ نے 9 محرم کو اپنے رفقاء کو اکٹھا کر کے کہا۔ \”میں اللہ کی بہترین ثنا خوانی کرتا ہوں، آسائشوں اور سختیوں میں اللہ کا شکر گزار ہوں، اے اللہ! میں تیری حمد بجا لاتا ہوں، کہ تو نے ہمارے گھرانے کو نبوت سے سرفراز کرکے احترام و اعزاز بخشا۔ ہمیں قرآن کی تعلیم دی، ہمیں دین کی سمجھ بوجھ عطا کی، اور ہمیں کان (حق سننے کے لیے) آنکھیں اور قلب عطا کیا۔ خدا آپ سب کو میری طرف سے جزائے خیر عنایت کرے۔ میری شہادت کا وقت اب قریب آ رہا ہے۔ میں آپ سب پر سے اپنی بیعت اٹھاتا ہوں، اور آپ کو چلے جانے کی اجازت دیتا ہوں\”۔

ان پر اثر کلمات سے اصحاب آب دیدہ ہو گئے، کیوں کہ کردار حسینؓ سے، وہ خوب آشنا تھے۔ انہیں علم تھا کہ آپ حق کے پاس دار ہیں اور اسلام کے علم بردار ہیں۔ آپ کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کی اہمیت تھی۔ عشق امام میں ڈوبے اصحاب گویا ہوئے، کہ آپ نور حق کا روشن چراغ ہیں۔ آپ ہدایت کا راستہ دکھانے والے ہیں۔ ہماری جانیں آپ پر نثار ہم ایسے کٹھن وقت میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔ آخری دم آپ کے ساتھ رہیں گے۔ 10 محرم کو اس معرکے کی انتہا ہوئی۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں نے جانوں سے بے پروا ہو کر ایک بلند مقصد کے لیے اپنے اور اپنے اہل و عیال کی قربانی دی۔ آپ کی اس عظیم شہادت نے ہمیشہ کے لیے ظلم کے خلاف قیام کرنے والوں کے تاریک راستے کو اپنے کردار کی شمع سے روشن کر دیا۔ سلام ہو امام عالی مقام پہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments