سڑکوں پر آزادی مارچ یا پارلیمنٹ میں جمہوری اپوزیشن


کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن بعض عزت مآب ہستیوں کی بدولت ہم نے سیکھا ہے کہ بعض سیاستدانوں کے سینے بھی شاید دلوں سے محروم ہیں۔ اسی پر بس نہیں مملکت خداد میں بعض نابغے ایسے بھی ہیں جن کو دیکھ کرگماں ہوتا ہے کہ کاسہ سر میں دماغ نام کی کوئی شے بھی جانے موجود ہے یا نہیں۔

مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کی تاریخ کا اعلان کر چکے ہیں اور جو ں جوں ستائیس اکتوبر قریب آرہی ہے سیاسی درجہ حرارت بلند ہورہا ہے۔

 ہر چند حکومت زعما یہ فرما رہے ہیں کہ انہیں اس دھرنے سے کسی قسم کا کوئی خطرہ ہے ہی نہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دیکھتے ہیں کیسے اٹک کا پل پار کرتے ہیں۔ گورو نانک کی دھرتی سے پیر صاحب نے تو صاف صاف بشارت دی ہے کہ مولانا کا اسلام آباد آنا خود کشی ہو گی۔ مطلب پانچ برس پہلے کا وہ سیاسی دھڑا جس کا سیاسی عقیدہ احتجاج اور قبلہ ڈی چوک میں دھرا کنٹینر تھا آج مولانا کے احتجاج کو سیاسی کفر اور شرک قرار دے رہا ہے۔

پہلے تو نامعلوم افراد کی طرف سے جے یو آئی سے منسوب بد فعلی سے متعلق ایک اعلامیہ جاری کیا گیاپھر اسی سے ملتا جلتا ایک سرکاری حکم نامہ بھی دیکھا گیا۔ اب جماعت احمدیہ سے منسوب ایک اعلامیہ گردش میں ہے کہ احمدی برادری مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کرے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ اس سے عوام مولانا فضل الرحمن سے متنفر ہوں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ ایسی حرکتوں سے جمیعت علما ءاسلام کو عوام میں الٹا مزید پذیرائی ملے گی۔

دوسری طرف وہ سیاسی حلقے جن کے لئے دو ہزار چودہ کادھرنا سیاسی شرک تھا ، اکتوبر دوہزار انیس کا آزادی مارچ ان کے لئے سیاسی عمرے اور حج کے برابر ہے۔ صرف پانچ برس کے دوران سیاسی نظریات میں ایک سو اسی درجے کا فرق جسے یوٹر ن بھی کہا جا سکتا ہے اس کی مثال شاید ہی کسی اور سیاسی معاشرے سے لائی جاسکے۔

ایک حوالے سے مولانا شاید خوش نصیب بھی ہیں کہ انہوں نے آزادی مارچ ابھی شروع بھی نہیں کیا لیکن ان کے مخالفین کے ہاتھ پاو ¿ں ابھی سے پھولے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اور تو اور ان سے سیاسی حجم میں کہیں بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن بھی ابھی تک چلمن سے لگی بیٹھی ہیں اور ’ ©صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘ کی عملی تفسیر بنی ہوئی ہیں۔

ان سب سے الگ تھلگ آزاد صحافتی حلقے ہیں جو رو ز بروز بگڑتی ملکی اور علاقائی صورتحال کو دیکھ رہے ہیں لیکن سوائے کڑھنے کے اور کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ان کے لئے دو ہزار چودہ میںبھی حکومت کو مفلوج کرنا مناسب نہیں تھا اور دوہزار انیس میں بھی کاروبار حکومت کو روک دینا غلط ہے۔ مولانا کا یہ موقف اپنی جگہ کہ یہ حکومت جعلی مینڈیٹ لے کر آئی ہے اور ملکی حالات میں بگاڑ کی ذمہ دار ہے لیکن کسی بھی حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لئے ایک سال کا عرصہ مناسب وقت نہیں ہے۔ نوے دن میں چمتکار کا وعدہ توبے شک وزیراعظم نے کیا تھا لیکن یہ ان کی نا تجربہ کاری کے سوا کچھ نہ تھا۔ ویسے بھی گزرے دن غریب عوام کو لنگرتقسیم کرتے وزیراعظم نے قوم کو بے صبری کا تمغہ عطا کرتے ہوئے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہے۔

 خاکسار کی رائے میں حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے اسے دسمبر دوہزار بیس تک کا وقت ضرور دیا جانا چاہئے تاکہ دو دھ کا دودھ اور پانی کا پانی پوری طرح واضح ہوجائے۔ لیکن ظاہر ہے مولانا خاکسار کی رائے کو کہاں تسلیم کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان کی یہ بات بجا کہ اگرکوئی بات چیت کرنا چاہے تو حکومت حاضر ہے لیکن بات چیت کے لئے حکومت کو اس سے کہیں زیادہ آگے بڑھنا ہوگا۔ سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہمیشہ حکومتوں کے لئے خطرناک ہوتا ہے حزب مخالف کے لئے نہیں۔ لیکن ظاہر ہے وزیراعظم بھی ہماری اس رائے سے اتفا ق کے پابند نہیں ہیں۔

سیاسی حالات جس طرف جارہے ہیں اس میں نظر یہ آرہا ہے کہ حکومت مولانا کے آزادی مارچ سے طاقت کے ساتھ نمٹنے کا ارادہ رکھتی ہے جو نہایت خطرناک بات ہوگی۔ خدانخواستہ آزادی مارچ کے دوران مظاہرین اور قانون نافذکرنے والے اداروں میں تصادم ہوا اور اس تصادم میں ایک بھی جان گئی تو پھر حالات کو سنبھالنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو سکتا ہے۔

 احتجاج بہر حال اپوزیشن یا کسی بھی عوامی حلقے کا حق ہے اور حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ کسی بھی احتجاج کی وجوہات کو سمجھے اور ان کے تدارک کے لئے موثر اقدامات کرے۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت کی تبدیلی اگر کوئی اتنا ہی ضروری سمجھتا ہے تو اس کے لئے پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کیا جائے۔ جمہوریت کا مطلب اکثریت کی رائے کا احترام ضرور ہے مگر اقلیت کی رائے کو روندنا نہیں۔ جمہوریت میں فیصلے سڑک پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں کئے جاتے ہیں۔ مولانا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو منانے کے لئے جو محنت پارلیمنٹ سے باہر کر رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کے اندر کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ دقت مگر یہ ہے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز نہ کل کسی نے سنی تھی نہ کوئی آج سنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).