مطلب ہے سب اچھا ہے


عالمی بینک کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال میں ہندوستانی معیشت میں ترقی کی شرح گذشتہ تین سالوں میں 7.2 فیصد سے گرتے گرتے اب 6.0 فیصد پر آگئی ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا کہنا ہے جن ممالک کی معیشت اس وقت سب سے زیادہ سست رفتاری کا شکار ہے ان میں برازیل اور ہندوستان سرفہرست ہیں۔

این ایس ایس او نے تازہ ترین لیبر سروے میں کہا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں بیروزگاری گذشتہ 45 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔

اگرچہ میں ہندوستانی شہری نہیں ہوں لیکن میرا دل ان اعداد و شمار کو قبول نہیں کررہا ہے۔ کیونکہ ورلڈ بینک ہو یا انٹرنیشنل مالی ادارہ یا پھر سٹیٹ بینک آف پاکستان، ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت اس قدر نیچے چلی گئی ہے کہ اگر رواں مالی سال میں پاکستان دو فیصد کی ترقی کی شرح کو نہیں چھوتا ہے تو گویا اس نے خود کو نیزہ مار لیا ہے۔

روزانہ خبریں آرہی ہیں کہ آٹو انڈسٹری میں پچھلے سال کے مقابلہ میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ صنعتی ترقی کا پہیہ جام ہے اور روپیہ ڈالر کے پیروں سے لٹک رہا ہے۔

https://twitter.com/ANI/status/1182978149069578240

لیکن مودی سرکار کی طرح عمران خان حکومت بھی یہ کہہ رہی ہے کہ سب اچھا ہے۔ عوام ان اعدادوشمار کے چکر میں نہ آئے بلکہ یہ دیکھے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں رواں سال ٹیکس دہندگان کے نام دگنے ہو گئے ہیں۔

مہنگائی نہ دیکھیے بلکہ یہ دیکھیے کہ ہم ٹیکس چوروں کو کس طرح لٹکا رہے ہیں۔ آئندہ سال اور بہتر ہوگا۔ بس گھبرائیں نہیں۔

جس طرح مجھے اپنی حکومت پر یقین ہے کہ میری حکومت بہت سچائی کے ساتھ جھوٹ بول رہی ہے اسی طرح مجھے ہندوستان کے وزیر قانون، مواصلات اور آئی ٹی روی شنکر پرساد پر بھی اعتماد ہے جنھوں نے قومی سروے آفس کا نام لیے بغیر کہا کہ کچھ لوگ معیشت اور بے روزگاری کے حوالے سے بی جے پی حکومت کو بدنام کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اگر معیشت خراب ہوتی تو پھر بالی وڈ کی تین فلمیں ایک ہی دن میں 120 کروڑ روپے کیسے کما لیتیں؟

جہاں روی شنکر پرساد کھڑے ہیں اگر آپ وہاں سے دیکھتے ہیں تو پھر ان کے الفاظ سولہ آنے ٹھیک ہیں۔

اگر بے روزگاری واقعی اتنا گمبھیر مسئلہ ہوتا تو لوگ سینما دیکھنے کیوں جاتے؟ مئے خانوں پر تالے نہیں لگ جاتے، چھولے-بھٹورے کے ٹھیلے نہ الٹ جاتے، اور لوگ گھروں میں رہنے کے بجائے بسوں میں سفر کیوں کرتے؟

اس کا مطلب ہے سب اچھا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جب پرویز مشرف کے زمانے میں ہندوستان سے ٹماٹر آنا بند ہو گئے تب مشرف صاحب نے کہا کہ کیا غریبوں کا ٹماٹر کھانا بہت ضروری ہے؟ وہ سالن میں دہی نہیں ڈال سکتے؟ اور کون کہتا ہے کہ ہماری معیشت کمزور ہے، اگر ایسا ہوتا تو اتنی موٹرسائیکلیں کیسے بکتیں؟

فرانس کی ملکہ میری اینٹونیٹ نے تو بس اتنا ہی کہا تھا کہ اگر لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ہے تو پھر وہ کیک کیوں نہیں کھاتے ہیں۔ اس کے بعد فرانس پلٹ گیا۔

لیکن ہمارے یہاں تو گویا ہر کرسی پر میری اینٹونیٹ کا بھوت بیٹھا ہے! میرے خیال سے گندگی انسان کے ذہن میں نہیں حکمرانی کی گدی میں ہے۔ اس پر بیٹھتے ہی سب اچھا محسوس ہونے لگتا ہے۔ کیوں؟ اس پر بھی تحقیق ہونی چاہیے۔

اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو بی جے پی اور تحریک انصاف کو اگلی بار اپوزیشن میں بیٹھنے کا موقع دے دیں۔ چند گھنٹوں میں ہی ‘سب اچھا ہے’ اگر ‘سب برا ہے’ میں نہ بدل جائے تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).