ویسٹ لینڈ اور نیند میں چلنے والا قبیلہ


اس برس کی آخری سہ ماہی ہمارے ملک میں بہت سی تبدیلیوں کے اشارے لے کر آئی ہے۔ اس سے پہلے لیکن کچھ ذکر 2019ءکے نوبل انعام برائے امن کا جو ایتھوپیا کے44سالہ وزیر اعظم ابی احمد کے حصے میں آیا۔ ابی احمد 18 مہینے قبل شمال مشرقی افریقہ کے ملک ایتھوپیا کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ ایتھوپیا کی آبادی دس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ جنگ، قحط اور سیاسی عدم استحکام اس ملک کی پہچان رہے ہیں۔ 1992 سے برسراقتدار پیپلز انقلابی پارٹی نے سیاسی مخالفین پر قید و بند، میڈیا پر پابندیوں اور انحرافی آوازوں کے لئے جبر کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ہمسایہ ملک اری ٹیریا کے ساتھ تعلقات سخت کشیدہ تھے۔ 1998 سے 2000ء تک دو سالہ جنگ میں ایک لاکھ افراد کام آئے۔ 1000 ڈالر سے کچھ کم فی کس آمدنی والے ملک ایتھوپیا میں ایک تہائی آبادی مسلمان ہے، قبائلی، نسلی اور مذہبی اختلافات کی روایت پرانی ہے۔

ابی احمد نے اپریل 2018 میں انتخاب جیتنے کے بعد اری ٹیریا سے معمول کے تعلقات بحال کئے، دونوں ممالک میں عوامی رابطے بحال ہوئے ہیں۔ اندرون ملک سیاسی قیدیویں کو رہا اور میڈیا کو آزاد کر دیا گیا۔ سول سوسائٹی تیزی سے فعال ہو رہی ہے۔ مسلمان باپ اور مسیحی ماں کے بیٹے ابی احمد مذہبی ہم آہنگی کی گہری لگن رکھتے ہیں۔ 18 مہینے کچھ زیادہ مدت نہیں ہوتی۔ ابی احمد کا کام ابھی نامکمل ہے، سوال اٹھایا گیا ہے کہ ابی احمد کو امن کا نوبل انعام دینے مین کچھ جلد بازی تو نہیں ہوئی۔ جواب ملا کہ قوموں کی تعمیر تو ایک مسلسل اور کبھی ختم نہ ہونے والا کام ہے۔ ابی احمد کو اعزاز دے کر اعتراف کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کے سیاسی، معاشی اور تمدنی امکانات کا دروازہ کھول دیا ہے۔ ابی احمد اپنا کام مکمل کر پائیں یا نہیں، ایتھوپیا کے باشندوں نے اٹھارہ ماہ میں اپنا راستہ دریافت کر لیا ہے اور دنیا ان کی پیش رفت کو سراہتی ہے۔

اب اپنے ملک کی خبر لیجئے۔ اتفاق سے ہمارے ملک میں بھی 14 ماہ پہلے عمران خان کی سواری باد بہاری بڑے اہتمام سے ایوان وزیر اعظم پہنچائی گئی۔ انتخابات میں ہار جیت جمہوری عمل کا حصہ ہے لیکن ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے دیدہ ور کو عروس نرگس نے ہزار سالہ آہ و زاری کے آنسوؤں سے غسل دیا ہے۔ عوامی مقبولیت، ریاستی پخت و پز اور تعمیرات سیاسی کی مہارت سے خواب کا یہ رنگ محل تعمیر کیا گیا۔ اب اس سعی کا انجام دیکھیے۔ منتخب وزیر اعظم اور ان کی حکومت نے تمام مخالف سیاسی قوتوں کا مقاطعہ کر رکھا ہے۔ مفروضہ یہ ہے کہ حکومتی جماعت کو چھوڑ کر تمام سیاسی قوتیں بدعنوان اور گردن زدنی ہیں۔ سیاسی مخالفین جیلوں میں ہیں، ذرائع ابلاغ کا قافیہ تنگ ہے، پارلیمنٹ مفلوج ہے، خود ساختہ خلائی تجربے سے گزرنے والی حکومت بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہے، جمہوریت کا یہ چلن کامیاب نہیں ہو سکتا۔ معاملہ ہی کیا ہو اگر زیاں کے لئے….

معیشت کا حل پہلے سے کچھ ایسا سرسبز نہیں تھا لیکن اب لٹیا بالکل ڈوب گئی ہے۔ عشروں سے قرض پر مدار ہے۔ معیشت پیداواری نہیں، دست نگر ہے۔ صنعت مانگے تانگے کی ہے، زراعت میں کسی فصل کی فی ایکڑ پیداوار عالمی پیمانے پر قابل مسابقت نہیں، کاروبار غیر دستاویزی اور نادیدہ اجارہ داریوں سے مملو ہے۔ برامدات بڑھانے کی دہائی سنائی دیتی ہے، یہ نہیں بتایا جاتا کہ آخر فروخت کرنے کو ہے کیا؟ پچھلے 40 برس میں کسی بھی درجے کی صلاحیت اور استعداد رکھنے والے لاکھوں شہری ملک چھوڑ گئے۔ سالانہ 20 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کے ہوائی رزق پر خوش ہونے والوں نے کارآمد اور تعلیم یافتہ افراد کے مہاجرت کے اجتماعی معاشی اور تمدنی نقصان کا تخمینہ نہیں لگایا۔

معیشت کا براہ راست تعلق انسانی سرمائے کے معیار سے ہے۔ یہ سرمایہ تعلیم کے ذریعے تخلیق کیا جاتا ہے۔ ہم نے تعلیم کی بنیاد علم سے دشمنی پر رکھی ہے۔ پیوستہ مفادات کو حقیقی طور پر تعلیم یافتہ آبادی کے تصور ہی سے ہول آتے ہیں چنانچہ تعلیم کے نام پر تلقین اور تقلید کی روش اپنائی ہے۔ یہ طالب علموں کی استعداد کا نہیں، اساتذہ کی کم سوادی کا سوال ہے۔ تعلیم کے لئے وسائل میں کٹوتی ہو رہی ہے۔ یکساں نظام تعلیم کے لغو نعرے کی آڑ میں نسبتاً بہتر تعلیمی اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اشرافیہ کے بچے بیرون ملک تعلیم پا رہے ہیں، چنانچہ اندرون ملک اکا دکا تعلیمی نخلستان میں گدھے کا ہل چلا کر قومی پسماندگی بڑھانے میں ہرج نہیں۔

کسی ملک میں سیاسی بندوبست، معاشی امکانات اور صحافتی آزادی کے معمولی اشارے کیا ہیں؟ شہری ملک چھوڑ کے بھاگنا چاہتے ہیں یا وہاں آنے کے لئے اتاؤلے ہو رہے ہیں۔ سرمایہ کاری کا رجحان بڑھ رہا ہے یا پہلے سے موجود سرمایہ بھی فرار ہو رہا ہے۔ عوام اہل صحافت کی آواز پر کان دھرتے ہیں یا صحافت کو ناقابل اعتبار، بکاؤ اور حکمیہ کتر بیونت کا نمونہ سمجھتے ہیں۔ قوم کے وقار کا ایک پیمانہ اس کی خارجہ ساکھ ہے۔ ہمیں تو نیند میں چلنے کا ایسا عارضہ لاحق ہے کہ ایک تقریر کے خمار میں ہفتوں انٹاغفیل رہتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف میں ہمارا فیصلہ بدستور معلق ہے۔ کشمیر پر ہمارے موقف کو کسی نے آنکھ بھر کے نہیں دیکھا اور ہم دوسرے ملکوں میں ثالثی کا شوق پالے ہوئے ہیں۔ وجہ یہ کہ داخلی سیاسی اور معاشی صورت حال سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں۔ کبھی سوچا کہ زوال، ابتری اور بحران کی یہ بلائیں ہمارے ہی دروازے پر کیوں جمع ہیں؟ ٹی ایس ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ سے چند سطریں دیکھ لیجئے، کوئی مشابہت محض اتفاقیہ ہو گی۔

Who is the third who walks always beside you?

When I count, there are only you and I together

But when I look ahead up the white road

There is always another one walking beside you

Gliding wrapt in a brown mantle, hooded

I do not know whether a man or a woman

-But who is that on the other side of you?


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).