منطقی جبر اور اقبال کا عقل و عشق


Bertrand Russell

رسل کے دور تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ عقل تخلیق کا سر چشمہ ہو نے کی بجائے ایک ہم آہنگ کر نے والی اور تیز و تند جذباتی رجحانات کو سنبھالنے والی طاقت ہے۔ حتی ٰ کہ خالص منطقی تحقیق کے دائرے میں بھی جبلت اور جذبات ہی سب سے پہلے جنا تی زقند لگا کر کسی نئی حقیقت کا پردہ چاک کرتے ہیں مگر عقل کا جذبات سے فساد اس وقت شروع ہو تاہے جب جذبات کسی خاص عقیدے پر اس حد تک جم جاتے ہیں کہ کسی قسم کا بھی عقلی استدلال انہیں اپنے مقام سے نہیں ہٹا سکتا۔ تاہم اس جنگ کے نتیجے میں اکثر اوقات ایک عقلی خلا، منطقی عدم مطا بقت اور فکری بے ہنگم پن پیدا ہو جا تا ہے جسے ہم عقل او ر جذبات کی جنگ قرار دیتے ہیں اور جذبات کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اجلت میں جبلت کو فاتح قرار دیتے ہیں۔ جذبات کا مجموعہ ہونے کے ناطے جبلت انسان کی جملہ حسیات اور علم کے ذرائع کی طرح نا قص ہے اور غلطی کی مر تکب ہو سکتی ہے۔ جو لوگ عقلی طورپر کمزور ہیں اپنے بارے میں اس بات کو نہیں مانتے کہ وہ جذباتی مغالطوں کو شہادت مان رہے ہیں لیکن جب انہیں دوسروں پر قاضی بٹھا دیا جائے تو فوراً فتویٰ صادر فر ما کر ان کے جذبات پر اپنی عقل کی برتری ثابت کر دیتے ہیں۔

تاہم وقت اور علم کبھی نہیں رکتا۔ وقت کی طرح علم بھی جامد نہیں ہے۔ عقل و جذبات یا عقل و عشق جیسے مباحث کا اقبال نے مغز نکال کر اس موضوع کو ہمیشہ کے لئے ختم نہیں کردیا بلکہ اس موضوع پر بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ اقبال تو کیا رسل اور رسل تو کیا فکر سے بھی آگے نکل چکی ہے۔

اس بات پر احباب کو حیرت ہوسکتی ہے بات فکر سے آگے کیسے نکل سکتی ہے؟ فکر سے بات اس طرح آگے نکل چکی ہے کہ عصرِ حاضر کے مشہور طبیعات دان اور سماجی مفکر ڈیوڈ بوہم اپنی کتاب مکالمہ (On Dialogue) میں جدید ترین برین امیجنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے منظرِ عام پر آنے والے حقائق کی روشنی میں کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بہت سے مسائل فکر (thought) اور ذہن کی مختلف عادات کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ اگر ہم روایتی منطق پر انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے جدید ترین ایڈیشن پر مضمون پڑھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اس میں بھی منطق کے کلاسیکی اصولوں کو (جن کا استعمال و اطلاق سب فلسفی کرتے رہے ہیں ) کو کائنات سے نہیں ہمارے ذہن کی ساخت سے ہم آہنگ قرار دیا جارہا ہے اور بہت سے منطقی اصولوں کو ہمارے ذہن کی عادت بناتا جارہا ہے۔

david boehm

اسی بنا پر جدید امیجنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے ذہنِ انسانی کا مطالعہ کرنے والے ڈیوڈ بوہم یہ کہہ رہے ہیں کہ کج فکری سے جنم لینے والے مسائل کا حل جب ہم فکر کی مدد سے ہی تلاش کرنے نکلتے ہیں تو حل کی بجائے نئے مسائل پیدا کرلیتے ہیں۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ جس کے سبب بیمار ہوئے تھے، اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینا۔

بوہم کے نزدیک مغرب میں صرف مکاتبِ فکر رہے ہیں، کبھی مکاتب ِ آگہی (awareness) نہیں رہے اور فکر کے ساتھ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسانی آنکھ کی طرح فکر ایک بات پر توجہ مرکوز کرے تو اُسے دیگر تمام باتوں سے توجہ ہٹانا پڑتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم کتاب کے دو صفحات اور اپنے ہی دو ہاتھوں کو بیک وقت فوکس نہیں کرسکتے۔ ہم ایک کو فوکس کرتے ہیں تو دُوسرا ڈی فوکس ہوجاتا ہے۔

بوہم کہتے ہیں کہ اسی لئے فکر ایک کو تسلیم کرے تو دُوسرے کا انکار اس پر واجب ہوجاتا ہے۔ ایک کو احسن قرار دے تو دُوسرے کو قبیح قرار دینا اس کی مجبوری بن جاتی ہے۔ یہ فکر کا جبر ہے جس کا نتیجہ لازمی طور پر علمیاتی جبریت کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایک کو مان کر دوسرے کا انکار کرنے کا جبر غیر فطری اور غیر حقیقی ہے۔ لہٰذا اور اقبال ہو یا کوئی اور وہ اگر وہ اس غلطی کا شکار رہا ہے، تو علم اُسے حرفِ آخر سمجھنے والوں سے پوچھے بغیر بہت آگے نکل گیا ہے۔ اس لئے بوہم اپنی اس کتاب میں فکر کو آگہی سے بدلنے کی بات کرتے ہیں کیونکہ فکر بوہم کی ذہن ِ انسانی پر تحقیق کی روشنی میں ایک طرف سفر کرتی ہے تو شعور سات اطراف کی خبر رکھتا ہے۔ چار سمتیں۔ اوپر نیچے۔ اور ایک سمت انسان کی ذات۔ یا سائیکی۔ یوں تکثریت یا ایک سے زیادہ اصولوں کی مدد سے کائنات کی وضاحت کرنے کا اصول اس وقت قبیح اصول نہیں رہا بلکہ احسن اور بہترین اصول بن گیا ہے۔

Daniel Goleman

اگر ہم اس سے بھی آگے چلیں تو ہم ڈانیل گولمین تک پہنچتے ہیں جن کی 1995 میں شائع ہونے والی کتاب ایموشنل انٹیلی جنس نے عقل و جذبات یا عقل و عشق کے موضوع پر ہمارے علم میں بے حد اضافہ کیا ہے۔ اس کتاب میں گولمین انسان کو حیوانِ عاقل سے زیادہ جذباتی جانور ہی قرار دیتے ہیں اور سائنسی تحقیق کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نابغے اور صحت مند لوگ جذبات اور عقل کے توازن سے بنتے ہیں۔ یعنی عقل اور جذبات (عشق) ایک دوسرے کی ضد نہیں، ہمیں ایک کو اپنا کر دُوسرے کو رد نہیں کرنا بلکہ یہ دونوں ہم آہنگ ہوں تو ایک نابغہ یا بھرپور زندگی گذارنے والا انسان سامنے آتا ہے۔

ڈانیل گولمین کا یہ کام بھی جدید سائنسی نوعیت کا کام تھا اور انہوں نے جذباتی ذہانت کے حامل لوگوں کو۔ ہم دردی، ہم دلی، دوسروں کا درد محسوس کرنے والے، دوسروں کے زاویے سے دیکھنے والے قرار دیا۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنے اہلیانِ عشق کو دیکھیں تو کیا ہم جذباتی ذہانت کے حامل لوگ ہیں یا پھر صرف جذباتی؟ غیر متوازن طور پر جذباتی ہونے کی نشانی یہ ہے کہ انسان فینٹسی کو حقیقت اور مغالطے کو شہادت سمجھنے لگے۔ یعنی واہمے کو حقیقت اور دروغ گوئی اور غلط بیانی کو شہادت یا پھر دلیل اور یہی کچھ ہمارے ہاں ہورہا ہے۔

حضرت عنایت خان کہتے تھے کہ اس دور کا سب سے بڑا مسئلہ توازن کا قحط ہے۔ توازن کا قحط معانی کے قحط کو جنم دیتا ہے۔ معانی الفاظ معانی کے معنوں میں نہیں۔ مقصدِ حیات کے معنوں میں اور عقل و جذبات میں توازن پیدا کرنے کی بجائے خود کو اہلِ عشق قرار دے کر تنقیدی فکر کا انکار بھی ہماری زندگیوں میں توازن کے قحط کی خبر دیتا ہے جس کا نتیجہ مقصدِ حیات کے کھوجانے کی صورت میں نکلا ہے۔

اقبال کے فلسفہ و عشق پر اس بات چیت پر ویڈیو دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں :


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2