کچھ تاریخ کے تلخ دریچے سے۔۔۔


12اکتوبرکو جنرل پرویز مشرف کے بطور آرمی چیف اقتدار پر شب خون مارنے کو بیس برس گزر گئے۔ جنرل صاحب کا ’کو‘ (coup)پاکستان میں فو ج کے اقتدار پر قبضے کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ سب سے پہلے سازشی جرنیل ایوب خان نے جو بطور کمانڈر انچیف کئی برسوں سے ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے، قیا م پاکستان کے گیا رہ برس بعد ہی 7اکتوبر 1958ء کواقتدار پرقبضہ کر لیا تھا ۔

اس وقت ملک میں واقعی سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کادور دورہ تھا، سیاسی حکومتیں بنتی تھیں اور سیاستدانوں کی باہمی رسہ کشی کی وجہ سے ٹوٹ جاتی تھیں۔ بمشکل1956ء میں ایک وفاقی پارلیمانی آئین بنایا گیا۔ جنرل ایوب خان نے اپنے مارشل لا کو انقلاب کا نام دیا اورہر سال 27اکتوبر کو ’یوم انقلاب‘ منایا جاتا تھا۔ ایوب خان کا استدلال یہ تھا کہ پاکستانی قوم جس نے ووٹ کی بنیاد پر ہی ملک حاصل کیا تھا وفاقی پارلیمانی جمہوریت کے لائق نہیں ہے لہٰذا بنیادی جمہوریت کی داغ بیل ڈالی گئی ہے جس کے تحت بلاوا سطہ طور پر اسی ہزار بی ڈی ممبر منتخب کئے گئے جن میں سے 40 ہزار مشرقی اور 40ہزارمغر بی پاکستان سے تھے جو پاکستان کی تقدیرکے ما لک بن گئے۔

عملی طور پر صورتحال یہ تھی کہ ایوب خان نے 1962ء میںجو آئین دیا اس کے پیچھے مضبوط مرکز کا فلسفہ کارفرما تھا۔اسی بنا پر اس آئین کو لائل پور (اب فیصل آباد)کے گھنٹہ گھر سے تشبیہ دی جا تی تھی کہ لائل پور کی جس سڑک سے بھی جائیں گھنٹہ گھر چوک پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح ایوب خان کے آئین کی ہر شق اس آمر مطلق کے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے تھی۔ 2جنوری 1965ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات جنہیں انتخابات کہنا بھی زیادتی ہے میں متحدہ اپوزیشن کی امیدوار مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعے ہرا دیا گیا۔ ایوب خان نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں اقتصادی تفاوت کی بنیاد رکھی۔

ان کادوسرا فلسفہ یہ تھا کہ ملک میں چند خاندان جو بائیس خاندانوںکے طور پر مشہور تھے، امیر سے امیر تر ہو جائیں گے تو غریبوں تک دولت خود ہی پہنچ جائے گی۔اس فلسفے کے مو جد بھی ورلڈ بینک سے درآمد شدہ ڈاکٹر محبوب الحق تھے،گویاکہ ایوب خان کے اس فلسفے نے پاکستان کے دولخت ہونے کی بنیاد رکھ دی۔ایوب خان نے بزعم خود اپنا اصلاحات کی دہائی کا جشن دھوم دھام سے منایا۔آمر مطلق کو علم ہی نہیں تھا کہ اندر ہی اندر کیا لاوا پک رہا ہے،جلد ہی مابعد 1965ء کی پاک بھارت جنگ،1966ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی بغاوت اور ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک کے نتیجے میں موصوف نے بالآخر اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو توڑ دیا اور اقتدار ایک دوسرے طالع آزما، رنگین مزاج جرنیل یحییٰ خان کے حوالے کردیا۔

ملک دولخت ہونے کے بعد1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا، اس کے ٹھیک پانچ برس بعد جنرل ضیاء الحق نے تیسری فوجی حکومت کی بنیاد رکھ دی۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے نا م پر اقتدار کو طول دیاگیا،یہ عرصہ پاکستان کے لیے کئی مشکلات لے کر آیا جس کے نتیجے میں قائد اعظم کا تصور پاکستان دم توڑ گیا، پاکستان میں بنیاد پرستی اور جہادی کلچر سے پیداہونے والے مسائل سے ہم آج تک نبردآزما ہیں۔ قنوطیت پسند رویئے ہمارے جسد سیاست اور سوسائٹی میں جاگزین ہوچکے ہیں۔ ایوب خان نے غیر جماعتی سیاسی نظام کاڈول ڈالا تھا۔جنرل ضیاء الحق نے بھی 1973ء کے آئین کو اپنی رجعت پسندانہ ترامیم کے ساتھ بحال کرنے کے بعد غیر جماعتی انتخابات کی بنیاد رکھی۔

ان کے مطابق اسلام میں سیاسی جماعتوں کی گنجائش ہی نہیں تھی گویا کہ پاکستان بنانے والی جماعت مسلم لیگ بھی غیراسلامی کہلائی۔لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد خان جونیجو ایک کامیاب وزیر اعظم ثابت ہوئے تو ضیاء الحق نے اپنے ہی منتخب کر دہ وزیر اعظم کو برطرف کردیا ۔ وہ پاکستان کی بنیادی اساس سے مزید کھلواڑ کرنا چاہتے تھے کہ 17اگست 1988ء کو ایک پراسرارفضائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ ایک دوبرس تو جنرل ضیاء الحق کی برسی اہتمام کے ساتھ منائی گئی۔

اب جنرل ضیاء الحق فیملی اور ان کے ساتھ جاں بحق ہونے والے جنرل اختر عبد الرحمان کے خاندان کے سوا انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان تما م تر تلخ تجربات کے بعد واقعی اس کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے تھی کہ ملک میں پھر مارشل لاء لگا دیاجا ئے لیکن جنرل پرویز مشرف نے بھی 12اکتوبر1999ء کو ایسا ہی کیا۔ جہاں ایوب خان نے مخصوص اقتصادی ترقی اور سیکولرازم کے نام پر پاکستان پر دس برس سواری کی اور ضیاء الحق نے یہی کام اسلام کانام لے کر11سال کیا۔ جنر ل پرویز مشرف اعتدال پسند روشن خیالی کافلسفہ لے کر آئے۔ جنرل صاحب ایک انتہائی دبنگ قسم کے فوجی تھے وہ جو فیصلہ کر لیتے زیا دہ باریکیوں میں جائے بغیر اس پر عمل درآمد کرتے تھے۔

جنرل صاحب ویسے تو اعلیٰ وہسکی، سگار پینے، برج کھیلنے، موسیقی اور ڈانس کے دلدادہ تھے لیکن نظریا تی طور پر بہت بڑے اینٹی انڈیا تھے۔ انھوں نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو اندھیرے میںرکھ کر کارگل کی مہم جوئی کی۔ جس میں کشمیر تو کیا ملنا تھا پاکستانی فو ج کو بھی جان کے لالے پڑ گئے، تب جولائی 1999ء میں میاں نوازشر یف نے واشنگٹن جاکر اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن سے ملاقا ت کرکے جان خلاصی کرائی۔ پرویز مشرف کی اسٹیبلشمنٹ عوام کی آ نکھوں میں دھول جھونک کریہی کہتی رہی کہ ہمیں تو کشمیر ملنے والا تھا لیکن نواز شریف نے سجد ہ سہو کر لیا، میاں نواز شریف اور فوج کے سربراہ کے درمیان اعتماد کا فقدان اتنا شدید ہو گیا کہ جب جنرل پرویز مشرف دورہ سری لنکا سے واپس آ رہے تھے تو انہیں فضا میں ہی برطرف کر دیا گیالیکن جنرل صاحب نے پوری پیش بندی کی ہوئی تھی۔

اس طرح وزیر اعظم نواز شریف کی یہی ’حرکت ‘ اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوئی۔ جنرل پرویزمشرف خود کو قوم کا مسیحا سمجھنے لگے اور اقبال زیڈ احمد کے ہاںایک محفل میں جہاں میں بھی موجود تھا،معروف وکیل ڈاکٹر پرویز حسن نے ان سے کہا کہ آ پ تو خودساختہ مسیحا ہیں،یہ وہ وقت تھا جب جسٹس افتخار چودھری کی برطرفی کے بعد ان کی بحالی کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔پرویز مشرف نے بجائے تردید کرنے کے برملا جواب دیا کہ ہاں!میں واقعی مسیحا ہوں۔ میرے دور میں اتنی نوکریاں ملیں،موٹر سائیکلیں آئیں وغیرہ وغیرہ یعنی ستوں خیراں ہیں۔مجھے اس وقت محسوس ہواکہ موصوف کے اقتدار کا سنگھاسن ڈول رہا ہے۔

جنرل پرویز مشرف ذاتی طور پرمنتقم مزاج نہیںتھے، انھوں نے شریف فیملی کے سا تھ ڈیل بھی کی اور ڈیل در ڈیل کر نے کی کوشش بھی کی کہ شہبازشریف تو واپس آجائیں اور نوازشریف یورپ جاکر برگر کھائیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ این آر او بھی کیا اور بالآخر محترمہ بے نظیر بھٹو کی واپسی کی راہ ہموار کی جس کے نتیجے میں شریف برادران بھی واپس آگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی باقیات کے چنگل سے آ ج تک قو م نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ اس صورتحال میں سیا ستدانوں نے اپنا حصہ نہیں ڈالا لیکن پاکستان کے سیاسی نظام کو مسخ کرنے میں ان جرنیلوں کابڑاہاتھ ہے لیکن اس کے باوجود جب وزیراعظم عمران خان یہ کہتے ہیں کہ ان ادوار بالخصوص ایوب خان کے دور میں بڑ ی ترقی ہو ئی توکف افسوس ملنے کے سواکیا کہا جا سکتا ہے۔

یہ بھی ہما ری بد قسمتی ہے کہ ہما رے برسراقتداروزیراعظم کو پاکستان کی سیا سی تاریخ کے مدوجزر کا ادراک ہی نہ ہو۔ ویسے تو جہاں تک باقیات مشرف کا تعلق ہے تحریک انصا ف کی کابینہ میں کئی شخصیات ایسی ہیں جو مشرف دور میں ان کی کا بینہ میں بھی شامل تھیں۔ اسی لیے اپوزیشن کی طرف سے یہ الزام عا ئد کیا جا تاہے کہ یہ ملفوف انداز میں مشرف دور ہے۔ اس وقت بھی وطن عزیز انتہائی گھٹن کے دور سے گزر رہا ہے۔ خان صا حب نے ایک نیا فارمو لہ وضع کیا جس کے تحت وہ اپنے پیشرو میاںنواز شریف کے برعکس فوجی قیادت پر غلبہ حاصل کرنے کے بجائے ان کے سا تھ چل رہے ہیں جیسا کہ برادرم اعتزاز احسن نے چینل 92پر میرے پروگرام’ہوکیا رہا ہے‘میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان میں کو ئی بھی وزیراعظم اپنی مقررہ مد ت پوری نہیں کر سکا، شا ید خان صاحب اپنے فارمولے کے تحت پانچ سال مکمل کرلیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).