شام میں امریکی فوجیوں کا انخلا، نتیجہ کیا نکلے گا؟


شام

سات روز پہلے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بقول ان کے اپنی ’عظیم اور بے مثال دانائی‘ میں امریکی فوجیوں کو شام کے شمال سے انخلا کا حکم دیا تو محض ایک ہفتے کے اندر ہی جنگ کا نقشہ بدل گیا۔

انھوں نے سلسلہ وار ایسے اقدامات کیے جو امریکا کے اتحادی یعنی شامی کردوں سے بے وفائی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان اقدامات سے ترکی، شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت اور اس کے حامیوں، روس اور ایران، اور نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے لیے مواقع بہم پہنچے ہیں۔

شام میں آٹھ سالہ جنگ نے مشرق وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس گذشتہ ہفتے نے اسے ایک نیا موڑ دیدیا ہے۔ شاید صدر ٹرمپ کی دانائی نے آئندہ رونما ہونے والے واقعات کا ادراک کرنے میں انھیں مدد دی۔ یا پھر شاید مشرق وسطیٰ کی لامتناہی پیچیدگیوں کے تناظر میں ان کے من موجی فیصلے کرنے کی عادت ایک سنگین غلطی ثابت ہو۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

شام پر حملہ: امریکہ نے ترکی پر پابندیاں عائد کر دیں

ترکی کی شام میں زمینی کارروائی کا آغاز

امریکہ کی شام سے واپسی ’مشروط‘ ہے

شام کا ایک فوجی

کرد جنگجوؤں کے ساتھ معاہدے کے بعد دمشق نے اپنے فوجیوں کو ترک سرحد کی طرف بڑھنے کا حکم دیا ہے

بیرونی محرکات

کئی برسوں سے یہ ظاہر تھا کہ شام کی قسمت کا فیصلہ غیرملکی کریں گے، نہ کہ شامی۔ بار باری کی مداخلت نے جنگ میں تیزی اور دوام لائی۔

شام میں اثر نفوذ اور بالادستی کے مقابلے کے بارے لیکن لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آغاز جنگ کے متاثرین کے ذکر سے کیا جائے۔

فوجی سکرو کے ہر پیچ کا مطلب تباہی اور عام لوگوں کی موت ہوتا ہے۔ ان کے مصائب کی ویڈیو دیکھنا ان تمام رہنماؤں پر لازمی ہے جو جنگ اور گولہ باری کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ متاثرین کی بے کسی اور بے بسی کی تصاویر کا انٹرنیٹ اور ٹی وی پر تلاش کرنا مشکل نہیں۔

شام میں تل ارقام کا اڈہ جسے امریکی فوجیوں نے خالی کر دیا (7 اکتوبر 2019)

ترک سرحد کے ساتھ واقع کئی اڈوں کو امریکی فوج نے خالی کر دیا ہے

امریکی فوجیوں کے بقول ان کے ایک ناختم ہونے والی جنگ سے نکالنے کے صدر ٹرمپ کے فیصلے نے ترکی کو شام میں اپنے فوجی بھیجے کے لیے سبز بتی دکھائی۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اعلان کر دیا کہ وہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز کو نہیں چھوڑیں گے کیونکہ وہ ان کے اپنے ملک میں موجود کرد باغیوں کے حلیف ہیں۔

ترک صدر کا شمال مشرقی شام کے ساتھ اپنی سرحد کے دونوں جانب کنٹرول رکھنے کا منصوبہ ہے اور شامی سرحد کے بیس میل اندر تک مقبوضہ خطہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اس خطے میں وہ دس لاکھ یا اس سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کو رکھنا چاہتے ہیں۔

جس وقت امریکہ نے شامی کردوں اور بعض عربوں کو دولت اسلامیہ کے مقابلے میں مسلح کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ ایک ممکنہ مسئلے سے واقف تھا یعنی یہ کہ اس کے کرد حلیفوں کو اس کا نیٹو اتحادی، ترکی، دہشتگرد سمجھتا ہے۔

واشنگٹن نے مستقبل میں سر ابھارنے والے اس مسئلے پر آنکھیں بندھ کر لیں۔ مستقبل اب آن پہنچا ہے، بلکہ پھٹ پڑا ہے۔

ایک ہفتہ قبل تک امریکی فوجیوں کی ایک چھوٹی سے ٹکڑی شامی کردوں کی سلامتی کی ضمانت تھی۔ وہ کرد جو شدت پسند دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں اہم حلیف ہوا کرتے تھے۔

کرد زمین پر دست بدست لڑے جبکہ امریکا، برطانیہ اور دوسروں نے فضائی طاقت اور سپیشل فورسز فراہم کیں۔ جب نام نہاد دولت اسلامیہ کو شکست ہوئی تو کردوں نے اس کے ہزاروں جنگجوؤں کو قیدی بنالیا۔

سمت کی تبدیلی

ترکی کے حمایت یافتہ شامی جنگجو

ترکی کے حمایت یافتہ شامی جنگجو

لیکن کردوں کو یہ سمجھنے میں کہ انھیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے، اس سے زیادہ وقت نہیں لگا جنتا کہ صدر ٹرمپ کو کچھ ٹویٹس کرنے میں لگا۔ ان کے اس فیصلے سے امریکی فوج میں بھی مایوسی پھیل گئی۔

امریکہ کی جانب سے کردوں کو تنہا چھوڑ دینے کی تردید کی گئی مگر ترکوں کی پیش قدمی اور امریکیوں کے انخلا سے شامی کردوں پر حقیقت کو آشکارا کر دیا۔

مشکلات سے بھری ان کی تاریخ میں ایک مرتبہ پھر ایک بیرونی طاقت نے کردوں کو مطلب نکلنے کے بعد تج دیا۔ انھوں نے اپنے دیرینہ دشمن دمشق کی طرف دیکھا۔

اتوار کو کردوں نے شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ معاہدے کا اعلان کر دیا اور اس بات پر آمادہ ہوگئے کہ شامی افواج ترک سرحد تک اس علاقے میں جا سکتی ہیں جو 2012 سے دمشق کے کنٹرول میں نہیں تھا۔

شامی حکومت کے لیے یہ ایک بڑی فتح ہے۔ اس کی فوجوں نے شمال مشرق سے فوری پیش قدمی شروع کر دی اور صدر اسد کے حامیوں نے سرکاری جھنڈے گاڑنا شروع کر دیے۔

مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی کے لیے یہ بربادی کا دن تھا۔ کردوں سے اتحاد اور ان کے زیر قبضہ شامی علاقے پر ان کی خود مختاری کی ضمانت سے اس جنگ کے خاتمے میں امریکا کو فیصلہ کن کردار ملا تھا۔

اس سے اسد حکومت کے حمایتیوں، روس اور ایران، کو بھی دبانے کی ایک راہ ملی تھی۔ امریکیوں کا انخلا اور شامی فوج کی پیش قدمی ان دونوں کے لیے بھی فتح کا شادیانہ ہے۔

دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے لیے بھی نئے مواقع ملتے نظر آ رہے ہیں۔ پیغامات کے ایک ایپ، ٹیلیگرام پر انھوں نے شام میں تشدد کی ایک نئی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔

ان کی ’خلافت‘ ان کے ہاتھ سے چلی گئی تھی، مگر جو قبر میں جانے یا قید ہونے سے بچ گئے، انھوں نے چھاپہ مار حملوں کے لیے خود کو خاموشی سے منظم کر لیا ہے۔

اسد کی فتح

شامی حکومت کا فوجی قومی پرچم لہراتے ہوئے

شامی حکومت کا فوجی قومی پرچم لہراتے ہوئے

اب جب کہ کردوں پر افتاد آن پڑی ہے تو وہ اپنے ہزاروں جنگجوؤں کو کرد جیلوں سے چھڑانے کا موقع دیکھ رہے ہیں۔

ان میں بدنام قاتل بھی شامل ہیں جنھوں نے اگر آزاد ہو کر بندوقیں اور بم حاصل کر لیے تو نہ صرف شام میں بلکہ باہر بھی سنگین خطرہ ثابت ہوں گے۔ ایسے میں دولت اسلامیہ کے خطرے کے پھر سے سر ابھارنے کے بارے میں مغربی ملکوں کے خدشات بے جا نہیں ہیں۔

یورپی ممالک نے مشرق وسطیٰ میں ابھرنے والے طوفان کی دستک اپنے دروازوں پر سن کر ترکی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ حملہ روک دے۔

نیٹو کے بعض رکن ممالک ایک خوفناک منظرنامہ دیکھ رہے ہیں جس میں شام، جسے روس کی حمایت حاصل ہے، نیٹو کے ایک اور رکن ترکی کو کھلم کھلا للکار سکتا ہے۔

روس کا کہنا ہے کہ وہ ترکی سے مسلسل رابطے میں ہے۔ مگر ایک ایسی جنگ میں جس میں مستقل دوست اور دشمن کا تعین دشوار ہے، غلط فہمیوں غلطیوں اور حملوں میں تیزی کے خدشات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔

شاید جو کچھ گذشتہ ہفتے میں پیش آیا ہے اس نے شامی جنگ کے خاتمے کو آسان بنا دیا ہے۔

اس جنگ کے دو اہم کردار، امریکا اور کرد، اس منظر سے غائب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اور صدر اسد، اپنے حلیفوں، روس اور ایران، کے ہمراہ شام کی اس تباہ کن جنگ میں اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32568 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp