مجرم کا سچ اور معاشرے کا جھوٹ


سہ پہر کو جب میں ہسپتال سے نکل ہی رہا تھا کہ تین میڈیکل اسٹوڈنٹ ملنے آگئے تھے۔ مجھے اس وقت انہیں دیکھ کر حیرت بھی ہوئی کیونکہ عام طور پر میڈیکل کے طالب علم آج کل ایک دو بجے گھر چلے جاتے ہیں۔ چار بجے تک کون رکتا ہے نہ پڑھنے والے اور نہ ہی پڑھانے والے۔ وہ زمانہ چلا گیا جب میڈیکل کالجوں میں پروفیسر شام تک مل جاتے تھے اورطلباء راتوں کو بھی مریض دیکھ دیکھ کر اپنے علم میں اضافہ کرتے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ اس وقت کیوں آئے ہیں۔

انہوں نے بڑے مہذب طریقے سے بات کی۔ میری توقع کے برخلاف انہوں نے بھی آنے والے قیدی کا ذکر چھیڑ دیا تھا۔ ان لوگوں سے زیادہ بات کرنا میں نے مناسب نہیں سمجھا تھا۔ تسلی سے ان کی باتیں سنی تھیں اور کچھ کہے بغیر انہیں رخصت کرنے کی کوشش کی مگر حیرت مجھے اس وقت ہوئی جب جاتے جاتے انہوں نے بھی وہی دھمکی دی جو پرنسپل صاحب نے مجھ سے کہا تھا۔

پہلی دفعہ مجھے احساس ہوا کہ ہمارے ملک میں برے لوگوں کا نیٹ ورک کتنا مضبوط ہے اور اچھے لوگوں کا سپورٹ سسٹم کتنا محدود ہے۔ پاکستان آنے کے بعد پہلی دفعہ میں نے سوچا کہ کیا میرا واپس آنے کا فیصلہ صحیح تھا۔ کیا یہ ملک اس قابل ہے کہ یہاں رہا جائے، پڑھے لکھے خودغرض جعلی بے ایمان دوغلے لوگوں کے ساتھ کام کیا جائے۔ میں سوچتا رہا اور سلگتا رہا۔

دوسرے دن پرویز دو پولیس والوں کے ساتھ میرے وارڈ میں آ گیا۔ کاغذی کارروائیوں کے بعد میری اس سے ملاقات ہوئی۔ تھوڑی سی بات کرنے سے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ پاگل نہیں ہے مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ اس نے پاگل ہونے کی اداکاری بھی نہیں کی۔

اس نے بہت صاف صاف الفاظ میں کہا تھا کہ ”ڈاکٹر مجھے پتہ ہے کہ تم کو سب کچھ بتا دیا گیا ہے کہ تمھیں کیا کرنا ہے تو پھر فالتو میں بے کار کی باتیں نہیں کروں گا۔ ٹائم ضائع کرنے کا فائدہ کیا ہے۔ آپ دیکھ لو کہ آپ نے کیسے کیا لکھنا ہے۔ “

میں نے سوچا تھا کہ اس سے بات چیت تو بہرحال کروں گا، پتہ تو کروں کہ وہ کرتا کیا ہے اس پہ الزامات کیا ہیں اور وہ خود کتنا شامل ہے اس پورے کھیل میں۔

وہ پانچ تھے تھے پرویز، جاوید قصاب، ابراہیم، نسیم اور پپو، اپنے کام میں ماہر۔ غضب کا نشانہ تھا ابراہیم اور نسیم کا۔ ہوا میں پھینکے ہوئے سکے پہ نشانہ مارتے تھے کمال تھا۔ آواز پر گولی چلا کر بندا ٹھنڈا کر دیتے تھے۔ حالات نے ہمیں ملا دیا تھا۔ پھر ہم نے مل کر بہت سارے کام کیے۔ کام کی کوئی کمی نہیں تھی۔ کسی کو گولی مارنی ہے، اغوا کرنا ہے، گلا کاٹ کر لاش پھینکنی ہے۔ لاش کے ٹکڑے کرنا ہے سب کچھ کرتے تھے ہم لوگ۔

شروع میں تو پیسے کے لئے کیا ہم لوگوں نے پھر مزا آنے لگا۔ بکرے اور بندے کو کاٹنے میں زیادہ فرق نہیں ہے بس بکرے کا یہ ہے کہ جلدی ٹھنڈا ہوجاتا ہے بندا دیر تک تڑپتا ہے اور تڑپنے سے پہلے نہ جانے کیا کیا کہتا ہے بس جی جان کا خوف ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب تو عادت ہوگئی ہے۔ اتنے بندے مار چکے ہیں کہ یاد بھی نہیں ہے۔

اس نے ساری باتیں صاف صاف بتا دی تھیں۔ اپنی قصاب کی دکان بند نہیں کی تھی ہم نے۔ ہفتے میں دو دن وہ اور جاوید وہاں بیٹھ کر کام کرتے اور بقیہ دن کے لئے دوسرے بندوں کو دیا ہوا تھا۔ دکھاوا بھی تو ضروری تھا۔ لوگوں کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ ہمارا کام کیا ہے۔ یہ کیسے بتاتے کہ قتل کرتے ہیں ہم لوگ کسی کو بھی کسی کے کہنے پہ صرف مناسب فیس مل جائے تو کام مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ قتل، اغوا، آبروریزی، بے عزتی جو کرانا ہے کرالو بس فیس ہوتی ہے ہر کام کی۔

وہ جی اچھا ہوا میں نے جاوید کا کام کر دیا۔ پولیس والوں سے مل گیا تھا حرامی کا پلّا۔ جب اسے میں نے مار دیا تو انہوں نے ابراہیم کو پکڑ لیا اور ابراہیم نے نسیم، پپو اور میری نشان دہی کردی اب ہم سب گرفتار ہیں۔ پچھلے کسی قتل کی وجہ سے کیس بنایا گیا ہے۔ جاوید کا تو پتہ ہی نہیں سالوں کو۔ ابھی تو سر ہی تلاش کررہے ہیں سر کہاں سے ملے گاوہ تو اس کے ہی گھر کے ڈیپ فریزر میں ہے ٹھنڈا برف ہو رہا ہو گا، یہ کہ کر وہ مسکرا دیا تھا۔

مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ پرویز کے بارے مں کوئی رپورٹ لکھتا، اسے پاگل لکھتا کہ نارمل لکھتا، کچھ لکھ نہیں سکتا تھا میں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں۔ ارے ڈاکٹر بچ تو جاؤں گا نہ میں پاگل بن کر۔ کیا کہتا ہے قانون۔ دوسرے دن اس کا یہی سوال تھا۔

میں کیا جواب دیتا مجھے اس سے ہمدردی بھی تھی کہ اسے اگر پھانسی مل بھی جائے تو سماج میں کیا فرق پڑجائے گا۔ سماج میں تو اور بھی لوگ ہوں گے نہ جانے کہاں چھپے ہوئے۔ خاموشی سے ہر کام کررہے ہیں قتل سے لے کر اغوا تک اور لڑکیوں کی آبرو ریزی سے لے کر جسمانی چوٹ پہنچانے تک۔ اور اگر پھانسی نہ بھی ملے تو کیا ہوجائے گا یہ کچھ اور لوگوں کو قتل کرے گا برباد کرے گا اور پھر ایک دن خود ہی قتل بھی ہوجائے گا جاوید کی طرح سے۔ یہ نظام تو نہیں بدل سکتا ہے۔

وہ مجھے سوچتا دیکھ کر ہنسا تھا۔ کیا سوچتے ہو ڈاکٹر، بچ تو میں جاؤں گا ہی۔ خود مرنا چاہوں تو مرجاؤں بھلے خالی پیلی کوئی نہیں مار سکتا اور ابھی مرنا نہیں ہے مجھے۔ مجھے تو بس اب اس کی پڑی ہے کہ کس دن جاوید کے گھروالے ڈیپ فریزر سے وہ تھیلی نکالیں گے اور کھولیں گے تو جاوید کا سر ملے گا انہیں۔ اپنی آنکھ سے یہ منظر دیکھوں تو مزا آئے۔ اس نے چمکتی آنکھوں اور مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا۔ ۔

میرے سر سے ریڑھ کی ہڈی تک سرد لہر دوڑتی چلی گئی ہے یخ نہ جانے کتنے ہزار منفی درجہ ٹمپریچر کے ساتھ۔ میں اس کے پاس سے اٹھ کر آ گیا تھا۔

مجھے اپنی بزدلی، بے بسی اور بے کسی کا قرار کرلینا چاہیے۔ میں نے اس کی فائل سرکار کو بہت بڑا جھوٹ لکھ کر واپس کردی۔ ایسا جھوٹ کے اس جھوٹ کے بعد پاکستان میں رہ نہیں سکتا تھا۔ میں نے لکھا کہ میں پرویز قیدی نمبر سات سو بارا کی رپورٹ نہیں لکھ سکتا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ ہے کہ مریض کی دماغی کیفیت کیا ہے، نہ ہی میں اس کا نفسیاتی معائنہ کرسکتا ہوں کیونکہ مریض مجھ سے تعاون نہیں کر رہا۔

یہ جھوٹ تھا سفید جھوٹ اس نے مجھ سے تعاون کیا تھا مکمل تعاون سب کچھ بتادیا تھا صاف صاف اور سچ سچ۔

میں واپس انگلینڈ آ گیا۔ کاؤنٹی کے ایک چھوٹے سے ہسپتال میں ایک چھوٹا سا سائیکائٹرسٹ ہوں۔ اتنا بڑا جھوٹ بولنے کے بعد کہاں جا سکتا تھا میں؟

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2