دھرنے کا منظر: دھرنے کے بعد کیا ہو گا


اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جہاں عمران خان کے رومانس میں مبتلا، اب بھی ان سے امیدیں وابستہ کئے پاکستانی بے شمار ہیں، تو وہیں ان سے بے پناہ نفرت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ہر دوگروہوں کے رویے بظاہر عمران خان کی شخصیت، مگر درحقیقت کچھ دیگر عوامل کی بنا پر نمو پاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کے ارد گرد نسبتاً پڑھی لکھی مڈل کلاس پر مشتمل ان کی جماعت کی حیثیت ایک کرشماتی کرکٹر کے ”فین کلب“ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ میں اس تصور سے اختلاف کی جسارت کرتا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ میری عمر کے پاکستانی جو عمران خان کے زمانہ کرکٹ میں جوان ہو رہے تھے، ان کو ایک سپر سٹار کی حیثیت سے ہی دیکھتے رہے۔ اپنے دور عروج میں بھی مگر وہ واحد سپر سٹار تو نہیں تھے۔ خود میرے آئیڈیل وسیم حسن راجہ تھے کہ جن سے متاثر ہوکر ہی میں نے بائیں ہاتھ سے بیٹنگ شروع کی۔ عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائر ہوکر شوکت خانم ہسپتال کے لئے چندہ جمع کرنے کی مہم کا آغاز کیا تو بھی میں اس مہم سے لاتعلق رہا۔ ان کے سیاست کے آنے کے فیصلے سے تو مجھے اسی قدر بیزاری ہوئی کہ جس سے ملتی جلتی ناقابلِ بیان کوفت مجھے ان کی ریحام خان سے شادی کے بھونڈے فیصلے پر ہوئی تھی۔

عمران خان جب سیاسی میدان میں وارد ہوئے توپاکستان کی سیاست دو سیاسی پارٹیوں کے گرد گھوم رہی تھی۔ عمران خان کی نووارد جماعت کی حیثیت بلاشبہ ایک ”ٹانگہ پارٹی“ سے زیادہ نہ تھی۔ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں اسٹبلشمنٹ لاہور کے شریفوں کو میدان میں اتار چکی تھی۔ زرداری صاحب کا ظہور ہوا تو ہم’بھٹو لورز‘کے دماغوں سے بھٹو کی پیپلز پارٹی کا رومان کافور ہو گیا۔ نوازشریف صاحب کو یکے بعد دیگرے برطرف کیا گیا تو ہم جیسوں کی تمام تر ہمدردیاں اور امیدیں ان سے وابستہ ہوگئیں اگرچہ اس پر ہمارے پاس اب کفِ افسوس ملنے کے سواکوئی چارہ نہیں۔ یہ اسی دور کی بات ہے کہ جب لندن سمیت بیرونی ممالک میں جائیدادوں کی خریدو فروخت اور اندرونِ ملک ایک ہزار سروں والے مافیا کی بنیادیں ڈالنے کا پراسرارکھیل شروع ہو چکا تھا جس میں جنرل مشرف کے مارشل لاء نے محض کچھ وقفہ ڈالا۔

جنرل مشرف کی روانگی کے بعد بے نظیر بھٹوکی پارٹی زرداری صاحب کے تصرف میں آئی تو ملک میں مفاہمت کی سیاست کا دور دورہ ہو گیا۔ اس وقت بھی مل بانٹ کر کھانے والوں کی نظر میں عمران خان کی حیثیت محض ایک ’کرکٹر ٹرنڈ پالٹیشین‘ سے زیادہ نہیں تھی۔ معیشت خطرناک حد تک پستیوں کو چھو رہی تھی جبکہ یہ وہی دور تھا جب ’فالودے والے‘ کے نام سے اربوں روپے بیرونِ ملک منتقل ہو رہے تھے۔ بے بسی سی بے بسی اور مایوسی کا سا عالم تھا۔

اکتوبر2011ء کی ایک سرمئی شام مگر کوئٹہ میں بیٹھ کر، تعلیم یافتہ مڈل کلاس لاہوریوں کو اپنے بیوی بچوں سمیت خاندان در خاندان مینار پاکستان کے سائے تلے جمع ہوتے دیکھا تو ہم نے بھی ایک بار پھر امیدوں کے چراغ روشن کر لئے۔ 2013ء کے انتخابات میں اپنی زندگیوں میں پہلی بار میں نے اور میرے چند دوستوں نے تردد کرکے کوئٹہ سے بذریعہ ڈاک اپنے ووٹ کاسٹ کئے۔ متوسط درجے کے نسبتاَ تعلیم یافتہ طبقے، یونیورسٹی طلباء، اور تارکین وطن پاکستانیوں کی بہت بڑی اکثریت نے عمران خان سے امیدیں وابستہ کر تے ہوئے ان کی پارٹی کو والہانہ طور پر سپورٹ کیا۔ نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے تبدیلی کے نام پر ایک طوفان برپا کر دیا۔ پرانی سیاست سے وابستہ بزرجمہروں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ مڈل کلاس طبقہ اگرچہ یکسوئی کے ساتھ عمران خان کی پشت پر کھڑا رہا مگر اپنے قلیل حجم کی بنا پر اس نظام میں، جہاں ووٹوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا، انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے سے قاصر رہا۔ اگرچہ عمران خان نے بھرپور جلسے منعقد کئے مگر تحریکِ انصاف حکومت بنانے میں ناکام رہی۔ روایتی سیاستدان جو شہروں کے نسبتاَ گنجان حلقوں اور دور درازدیہاتوں میں ووٹرز کو قابو میں رکھتے ہیں، بدستور پنجاب میں نوازشریف اور سندھ میں زرداری کے ساتھ کھڑے رہے۔

2013 ء کے انتخابات کے فوراَ بعدجنرل کیانی ماڈل ٹاؤن میں شریفوں کی رہائش گاہ پر حاضر ہوئے اور غیر مشروط تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ کوئٹہ کے دورے کا قصد کیا تو کمانڈر سدرن کمانڈ کے حکم پر کوئٹہ کینٹ کو وزیرِاعظم کی تصویروں والے خیر مقدمی بینرز سے سجا دیا گیا۔ غیر روایتی استقبال کی تیاریوں پر دبی دبی سرگوشیاں ہوئیں تو ہمیں بتایا گیا کہ وزیراعظم برسوں سے دل میں بدگمانی پالے ہوئے ہیں، ادارے کو ان کی دل جوئی درکار ہے۔ پرویز رشید مگر جس کا حصہ ہوں، اس وفد سے خیر کی امید عبث ہے۔ سدرن کمانڈ ہیڈکوارٹرز کے دورے کے دوران حقارت اور بیزاری سے وزیراعظم کا چہرہ کھچا رہا۔ ادھر اسلام آباد میں معاملہ فہمی سے عاری خاتون کی سربراہی میں سرکاری وسائل کے ساتھ کارفرما میڈیا سیل ابھرتی مڈل کلاس کے سیاسی چیلنج سے نمٹنے کی بجائے اداروں کے درپے ہو گیا۔ نواز حکومت کے پانچ سال ابھی کل کا واقعہ ہیں لہٰذا مزید کسی تفصیل کے متقاضی نہیں۔ تاریخ کے اندر کوئی ایک گروہ اپنی ہی جماعت کی اس قدر تیزی سے شکست و ریخت کا باعث بنتے ہوئے کم ہی دیکھا گیا ہو گا۔

عمران خان حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے بعد اگرچہ امیدوں کے کئی چراغ بجھ چکے تو کئی ایک ٹمٹما رہے ہیں۔ تاہم میرا اندازہ ہے کہ مڈل کلاس کی کثیر تعداد اب بھی انہی کے ساتھ کھڑی ہے۔ غالباً اس امر کی سب سے بڑی وجہ کسی متبادل قیادت کا موجود نہ ہونا ہے۔ افواج پاکستان سے طویل نسبت کی بنا پر میرا اندازہ ہے کہ نوجوان اور درمیانے درجے کے فوجی افسران کی کثیر تعداد کے علاوہ ریٹائرڈ افسروں اور ان کے خاندانوں کی بھاری اکثریت بھی میدان میں موجود دیگر کھلاڑیوں کے مقابلے میں عمران خان کو اب بھی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ کسی بھی عسکری قیادت کے لئے نچلے پرتوں میں سلگتی آنچ کی تپش کے احساس سے تا دیر انجان رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ دوسری طرف، کھوکھلے اور تضحیک آمیز نعروں سے اداروں کے ساتھ کسی بھی دور میں وابستہ رہنے والے افراد کو مرعوب و خوف زدہ کرنا اتنا آسان نہیں کہ جس قدر بلاول یا مریم نواز سمجھتے ہیں۔

 27اکتوبر کے دھرنے کا منظر کیا ہوگا؟ اس باب میں مختلف اندازے پیش کئے جا رہے ہیں۔ دھرنے کے بعد کیا ہو گا؟ اس بارے میں بھی حتمی طور پر بات کرنا ممکن نہیں۔ کیا محض مطالبہ داغ دینے سے دھرنے والوں کے لئے عمران خان اور ان کے ’سہولت کاروں‘ کو گھر بھیجنا ممکن ہے؟ بالفرض خاکی وردیوں میں ملبوس باریش لٹھ برداروں کی ملیشیا کی طاقت، مدرسوں سے دستیاب ہزاروں طلبا کی رسد کے بل بوتے اور عمران خان کی نفرت میں سلگتے سیاسی عناصرکے تعاون سے مولانا حکومت گرانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو کیا اس کے نتیجے میں وہ ایسی حکومت بنا پائیں گے جس میں راوی چین ہی چین لکھے؟ کیا عمران خان اس قدر غیر مقبول ہو چکے؟

 سامنے کی بات یہ ہے کہ احتساب کے عمل کو لپیٹنا عمران خان کی سیاسی موت کے مترادف ہے۔ اب اس کمبل کو چھوڑنا ان کے بس کی بات نہیں۔ وہ اس مڈل کلاس کو کیا منہ دکھائیں گے کہ جس کی آنکھوں میں انہوں نے خواب بھرے تھے۔ لہٰذا کیا ہی اچھا ہو کہ گہرے پانیوں میں چھلانگ لگانے پر تلے ہوئے مولانا کی ہلا شیری کی بجائے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جیسی بڑی سیاسی پارٹیوں میں موجود سنجیدہ افراد ان عوامل کو تلاش کریں کہ جو پاکستان کی نسبتاَ تعلیم یافتہ مڈل کلاس (بالخصوص نوجوان نسل)، تارکین ِ وطن اور اداروں سے وابستہ افراد کی غیر معمولی اکثریت کی ان جماعتوں سے بے زاری اور عمران خان سے وابستگی کا باعث بنے۔ دوسری طرف حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ’مڈل کلاس‘ کی عمران خان کے لئے حمایت دائمی اور غیر مشروط ہرگز نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).