محدود جنگ کا دائرہ پھیل نہ جائے


کنٹرول لائن پر جاری کشیدگی لگ بھگ محدود جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔گزشتہ دودنوں میں وادی نیلم میں چھ افراد شہید اور آٹھ زخمی ہوچکے ہیں۔ کل کے واقعے میں یہ تعداد مزید بڑھی ہے۔گزشتہ دس ماہ کے دوران پچاس سے زائد شہری بھارتی فائرنگ سے شہید ہوئے اور کروڑوں روپے کے مکانات اورہرے بھرے بازار تباہ ۔ فائرنگ کا کوئی معقول جواز نہیں‘ سوائے پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے یاپھر اپنی ناکامیوں کا غصہ بے گناہ شہریوں پر اتارا جاتاہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ان دنوں کنٹرول لائن عبور کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ خاردار تاروں کی دیوار پرچمکتی روشنیاں پورے علاقے کوطلوع آفتاب تک منور رکھتی ہیں۔ پانچ پرتوں پر مشتمل دفاعی حصار مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کے ہر امکان کو مسترد کردیتاہے۔ کشمیر میں عسکریت پسندوں میں پاکستانی اب شامل نہیں ہیں جو سرکارکنٹرول لائن عبور کرنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے کنٹرول لائن عبور کرنے والو ں کو کشمیریوں اورپاکستان کا دشمن قراردیا ۔

ایسی گفتگو کا کل تک کوئی وزیراعظم تصور کرسکتاتھا اور نہ متحمل ہوسکتاتھا۔ پاکستان کا خیال ہے کہ کشمیر پر اگرچہ مطلوبہ عالمی حمایت دستیاب نہیں لیکن معقول توجہ ضرور مل رہی ہے۔اس لیے سفارتی اور سیاسی ذرائع ہی کو استعمال کیا جائے۔ عسکریت پسندوں کی صفوں میں زیادہ تر نوجوان مقامی ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تر وہ ہیں جو جدید تعلیم یافتہ اور ہنر مندہیں۔ اچھا روزگار کماتے۔گھربساتے۔ مستقبل بناتے لیکن اب ایک ایسے کام میں جت گئے جہاں موت سائے کی طرح ان کا تعاقب کرتی ہے۔ عسکریت پسندوں کی سوچ اور رجحانات پر تحقیق کرنے والے سکہ بند ماہرین کی رائے ہے کہ اکثر کشمیری عسکریت پسند وں کو بھارتی سرکار کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنایاگیا یا پھر ان کے خاندانوں کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔

گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق کوئی نو ہزار کشمیری جن میں بارہ تیرہ سال کے بچے بھی شامل ہیں بھارتی جیلوں میں ہیں۔ بھارت کے معتبر جریدے فرنٹ لائن نے اپنے حالیہ شمارے میں دل دہلا دینے والی کہانیاں رقم کی ہیں کہ کس طرح نوجوانوں کو گرفتا رکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ انہیں خبردار کیا جاتاہے کہ اگر انہوں نے تشدد کی کہانی میڈیا کو بتائی یا زبان کھولی تو انہیں جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ کشمیر کو نوآبادیاتی دور میں دھکیل دیاگیا ہے جہاں زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔ بھارتی سورماؤں پر جنگ کا بھوت سوار ہوچکا ہے۔

وزیرخارجہ جے شنکر نے کہا کہ بھارت آزادکشمیر کا کنٹرول سنبھالنا چاہتاہے۔ راج ناتھ جو وزیردفاع ہیں کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کا بنگلہ دیشن والا حشر کریں گے۔ ایک اور وزیرصاحب فرماتے ہیں کہ بالاکوٹ میں ہم نے پاکستان کی دفاعی تنصیبات کو ہدف نہیں بنایا اگلی مرتبہ ہمیں انہیں بخشیں گے نہیں۔ بے عقلی اور بے تدبیری نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے گھرکا راستہ کیا دیکھا کہ اب اس پارٹی کی کوئی کل سیدھی نہیں۔جذباتیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہاہے۔ بی جے پی کے ایک ترجمان نے کہاکہ چونکہ نوے کی دہائی میں ایک سو کشمیری پنڈتوں کو ماراگیا تھا لہٰذا اب ہم اس کا بدلہ لے رہے ہیں۔

وزیراعظم مودی جو بھارتیوں کے آقائے عقاب ہیں‘ نے حال ہی میں فرمایا: اب ایک بوند پانی بھی پاکستان نہیں جائے گا۔ ہمارے پانی سے پاکستان کیسے ہرا بھرا ہوسکتاہے۔کیا وہ سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے جارہے ہیں؟ جی ہاں!اجیت ڈول کا نقطہ نظر ہے کہ دفاعی کے بجائے جارہانہ حکمت عملی اختیار کی جائے۔ اسی فلسفے کے تحت کشمیرکی داخلی خودمختاری کا خاتمہ کیاگیا۔ جنگ کا میدان اب پاکستان کی سرزمین یا اس کے زیر کنٹرول علاقوں میں منتقل کیا جارہاہے۔بات پاکستان کو سبق سکھانے کی گیڈر بھبکیوں سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔

مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو آزادکشمیر کے تحفظ کی فکر لاحق ہوجائے۔ پاکستان کی جوابی حکمت عملی میں جذباتیت کے بجائے عقل اور دانشمندی کا عمل دخل زیادہ ہے۔ عمومی طور پر ایسے فیصلوں کو کمزور ی پر معمول کیا جاتاہے۔ جذباتیت صدیوں سے مسلم برصغیر کے مزاج میں رچ بس چکی ہے۔رائے عامہ بلند وبانگ دعوؤںاور نعروں کو پسند کرتی ہے۔ بے شک وہ تباہی کا سیلاب ہی لے آئیں۔صدام حسین نے عراق برباد کردیا مگر مرد حر قرارپایا۔ طالبان نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ احباب نے ان کی بہادری کے دیومالائی قصے رقم کیے ۔افغان باقی، کوہسار باقی کے برسوں اشتہار چھپے۔

کنٹرول لائن پر جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ والوں نے لگ بھگ دوہفتے طویل دھرنا دیا۔ وہ کنٹرول لائن عبور کرنا چاہتے تھے ۔سرد موسم کی مشکلات اور موت کے خوف سے ماورا ہوکر انہوں نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے مبصرین ان کے مطالبات سنیں۔ دنیا بھر سے ان کے مطالبے کے حق میں آوازیں اٹھیں۔ اقوام متحدہ کے نمائندوں نے ان سے رابطہ کیا اور ملاقات برپا ہوئی۔ تاریخ میں پہلی بار اقوام متحدہ کے نمائندوں نے کسی سیاسی جماعت کے مطالبے پرکان دھرا۔ کوٹلی یونیورسٹی میں اقوام متحدہ کے مبصرین نے طلبہ وطالبات کے ساتھ طویل نشست کی۔سفارتی کاری کے کچھ نئے دروازے کھلے۔

آزادکشمیر کی حکومت کو مزید بااختیار کرنے کی بحث جس کا اقتدا کی راہ داریوںسے گزر نہ تھا۔ آج مقتدر ادارے پوچھتے ہیں کہ مظفرآباد کی نمائندہ حیثیت کو اجاگر کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ۔ جنگ یا کشیدگی کشمیریوں کے مفاد میں نہیں۔ اس سے کشمیر کی اندرونی صورت حال سے توجہ بٹ جاتی ہے۔ عالمی لیڈر دہلی اور اسلام آباد کے طوفانی اور ہنگامی دورے کرتے ہیں۔ جوہری اسلحہ سے لیس ممالک کو ٹھنڈا کرکے گھر لوٹ جاتے ہیں۔کشمیر کی کوئی پھر خبر ہی نہیں لیتا۔

دراندازی ہوتو سارا نزلہ پاکستان پر گرتاہے۔ تحریک مزاحمت کو دہشت گردی قراردیاجاتاہے اور دنیا میں کشمیریوں کا نام لیوا کوئی نہیں رہتا۔ ہمارا تجزیہ ہے کہ بھارت نے گزشتہ دوڈھائی ماہ میں جو سلوک کشمیریوں کے ساتھ کیا وہ اسے کبھی چین لینے نہیں دے گا۔ ترقی اور خوشحالی کی نوید لوگوں کے سروںپر بندوق رکھ کر سنائی گئی۔ انسان راحت اور خوشحالی چاہتاہے لیکن بے عزتی اور تذلیل کی قیمت پر نہیں۔بہت سارے تجریہ کاروں کی رائے ہے کہ کشمیر رفتہ رفتہ بھارت کا ویت نام ثابت ہو گا۔ ایسی دلدل جہاںاٹھنے والا ہر قدم مزید دلدل میں دھنستاہے۔بی جے پی جس راستہ پر گامزن ہے وہ مہاتما گاندھی اورپنڈت نہرو کا نہیں بلکہ نتھو رام گوڈسے کا ہے۔ وہی نتھو رام جس نے گاندھی کا خون بہایا کہ وہ مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood