پب والی لڑکی سے محبت اور طالبان کا تاوان


میں سرخ و سفید رنگ رکھنے والا طویل قامت ایک خوبصورت مرد تھا۔ گورا رنگ امی کے خاندان سے اور لانبا مضبوط جسم والد صاحب کی طرف سے ملا تھا۔ بچپن میں لوگ مجھے انگریز کہتے تھے۔ سعودی عرب میں عربوں کے لباس میں مجھے کوئی دولت مند عربی سمجھا جاتا لیکن عورت کے معاملے میں بڑا بدقسمت تھا۔ یہ ایک عجیب بات تھی میری زندگی میں۔ شاید اس کو قسمت کہتے ہیں۔

کراچی میں کالج کے زمانے میں جو لڑکی پسند آئی وہ شیعہ نکلی اورہم دونوں کے خاندان اس قسم کی کسی بھی شادی کے لئے تیار نہیں تھے۔ میرے پاس وسائل نہیں تھے کہ میں اسے بھگا کر لے جاتا اور نا ہی اس کے پاس ہمت تھی کہ وہ اپنے خاندان کو چھوڑ چھاڑ کر نکل جاتی ہم دونوں حالات کے جبر کا شکار ہوگئے اس کی شادی ایک شیعہ لڑکے سے ہو گئی اور شاید اس نے بھی زندہ رہنے کے لئے ایک سمجھوتہ کر لیا۔ ہم سب کی زندگیاں سمجھوتوں کا ہی نام ہیں، خاص طور پر اگر آپ کا تعلق سماج کے نچلی پرت سے ہو۔

میں تھوڑے دنوں بے چین اوربے کل رہا۔ وقت بے وقت وہ سائے کی طرح میرے ساتھ ساتھ چلتی رہی، میرے خوابوں کے جھروکوں میں میرے تصورکے پردوں میں رات کی تنہائیوں اور شام کے ڈوبتے ہوئے سورج کے ساتھ ابھرتے ہوئے اندھیروں میں، میں اسے محسوس کرتا رہا اور پھر اس کا درد ایک لذت آمیز کسک کی طرح موجود تو رہا مگر آہستہ آہستہ میری بے چینی اور بے کلی کو جیسے قرار آگیا۔ یہ محبت اور لڑکیوں کے سلسلے میں میرا پہلا سمجھوتہ تھا۔

چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کے فوراً بعد مجھے سعودی عرب میں نوکری مل گئی۔ اتنی اچھی تنخواہ کا تو میں نے تصور بھی نہیں کیاتھا۔ سعودی عرب پہنچ کر جلدی ہی میں اپنے گھروالوں کو سعود آباد کے پتلی اندھیری گلیوں سے گلشن اقبال کی چوڑی اور پکی سڑکوں پر بنے ہوئے کشادہ مکان میں لے آیا گھر والوں کو اچھا سایہ ملا تو انہوں نے میرے لئے لڑکی کی تلاش شروع کردی۔

ادھر سعودی عرب میں نہ جانے کیسے ایک مال میں برقعے میں لپٹی لپٹائی ہوئی ایک لڑکی کی ادا مجھے بھائی اور میں بھی اسے اچھا لگا کہ ہم دونوں دوستی کر بیٹھے۔ وہ بڑے خاندان کی شاندار لڑکی تھی۔ ایک پورا سال میں اس کے چکروں میں رہا۔ یہاں تک کہ جب وہ چھٹیوں میں پیرس گئی تو میں بھی منصوبے کے مطابق پیرس پہنچ گیا۔ دس دن پیرس اور اس کے نواح میں میں اسے پوجتا رہا وہ مجھے جلاتی رہی پھر ہم لوگ خواب بُنتے ہوئے، سپنے دیکھتے ہوئے سعودی عرب واپسی آگئے۔ سعودی لڑکی سے میرے جیسے پاکستانی بندے کی شادی ممکن نہیں تھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ کس طرح سے اپنے منصوبے پر عمل کروں کہ بُنے ہوئے خواب حقیقت میں بدل جائیں کہ وہ یکا یک غائب ہوگئی۔ نہ کوئی تعلق رہا اور نا کوئی طریقہ تھا کہ اسے تلاش کر سکتا۔

دیوانوں کی طرح اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی، حدود میں رہتے ہوئے جہاں جہاں اس کے ہونے کے امکانات تھے وہاں وہاں ٹکریں کھاتا رہا۔ فون سارے خاموش رہے، بڑے بڑے مال میں ایک جھلک کی خاطر بے مقصد گھومتا رہا، اس کی پسند کی جگہوں پر گھنٹوں پگھلتا رہا کہ شاید وہ نظر آجائے مگر وہ ایسی کھوئی کہ مل نہ سکی۔ سعودی عرب کے جنگل میں کچھ بھی ممکن تھا۔ کالے سونے کی دولت پر اُگا ہوا جدید محلوں، عمارتوں، ہائی ویز اور تجارتی اداروں کا سعودی عرب کسی جنگل سے کم نہیں ہے۔ جہاں روایت، انداز اور مذہب کے نام پر جنگل کے قوانین ہی لاگو ہیں۔ دل ایسا اچاٹ ہوا کہ میں نے سعودی عرب سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا اور جمع شدہ پونجی کے ساتھ نیویارک پہنچ گیا۔ اتنے ڈالر کمالئے تھے کہ امریکہ جانا میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

میرے جیسے آدمی کے لئے نیویارک میں کام کی کمی نہیں تھی۔ بہت جلد میں وہاں سیٹ ہوگیا۔ نیویارک کے شروع کی زندگی میں کام کے علاوہ کچھ بھی کرنے کا موقع نہیں ملتا ہے لیکن جب مصروفیت سے فارغ ہوا اور مکمل طور پر مستحکم ہوگیا تو کچھ دوست اسے مل گئے جن کی پسنداور میرے مشغلوں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ شراب ایک ایسی چابی ہے جو ہر تالے کو کھول دیتی ہے۔

ادھر امی نے نئی لڑکیاں تلاش کرنی شروع کردی تھیں۔ پھر یہ ہوا کہ جن لڑکیوں کو میں نے پسند کیا ان کے خاندان والوں نے مجھے مسترد کردیا۔ اس طرح کا تجربہ تین دفعہ ہوا۔ جب بھی میں کسی نہ کسی طرح سے امی سے ملنے کراچی جایا کرتا تو رشتوں کاچکر شروع ہوجاتا۔ شاید قسمت کا پھیر تھا یا میری سادگی کہ میں لڑکی کے گھروالوں کو بتادیا کرتا تھا کہ میں تھوڑا بہت شراب پی لیتا ہوں اور نیویارک میں ہونے والی مذہبی سرگرمیوں سے میرا کوئی خاص واسطہ نہیں ہے۔ شراب پینا شاید ایک بُرائی ہو مگر اس کے ساتھ ساتھ جھوٹ بولنا مجھے گوارا نہیں تھا۔ جھوٹ تو بہر حال بُرائی ہے۔ سچائی کی قیمت یہ ملی کہ کسی بھی جگہ میرا رشتہ طے نہیں ہوسکا۔

پھر یہ ہوا کہ امی یکا یک زندگی سے روٹھ گئیں۔ وہ کیا گئیں کہ جیسے سب کچھ چلا گیا۔ نہ مجھے پاکستان جانے کا شوق رہا اور نہ ہی بہنوں کے خطوں اور فون نے مجھے اتنا مشتعل کیا کہ میں شادی کرنے کراچی جاتا۔

ادھر نیویارک میں پبز نے مجھے اپنا اسیر کرلیا۔ کام اپنی جگہ پر مگر ساتھ ساتھ بلیوہون جیسے شراب خانوں کی شامیں اور راتیں میری زندگی کا حصہ بن گئیں میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ زندگی اسی طرح سے گزر جائے گی مگر ناجانے وہ کہاں سے آن ٹپکی۔

میں نے اکثر سوچا کہ آخر کیا تھا اس میں۔ کیوں پسند آئی مجھے وہ۔ اب یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں سب کچھ تھا۔ کراچی کی اس شیعہ لڑکی کا دھیما پن، اس کا خیال رکھنے کا انداز اور ایک خاص قسم کی حیا جو بروقت اس کے چہرے پر چاند کی روشنی کی طرح دمکتی رہتی تھی۔ اس میں اس سعودی لڑکی کا جارحانہ انداز بھی تھا اس کا رنگ تھا اور اس کے جسم کی ملائمگی تھی۔ ان دو چیزوں نے مل کر اس کی شخصیت میں ایسا سحر گھول دیا کہ میرے لئے بے قابو ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ شروع میں اس کی شخصیت کے جسمانی حسن نے مجھے مرعوب کیا تھا ناکہ اس کی ذہانت نے۔ یہ احساس تو بعد میں ہوا کہ وہ حسین ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی ہے۔ محض جذباتی نہیں تھی وہ میری طرح۔ ایک دماغ بھی تھا اس کا سوچنے والا، سمجھنے والا اور فیصلہ کرنے والا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4