پب والی لڑکی سے محبت اور طالبان کا تاوان


میرادل چاہا کہ میں خوشی سے رو دوں میری آنکھوں میں بے شمار قطرے اُتر آئے تھے۔

اس نے سرگوشی کی تھی مجھے تمہاری سب سے اچھی بات یہی لگی ہے کہ تم مجھے ویسے ہی قبول کر رہے ہو جیسی میں ہوں اتنے دنوں میں ایک دن بھی تم نے کسی بھی قسم کی دست درازی نہیں کی، ایک سوال نہیں کیا کہ میں اس پب میں ناچتی کیوں ہوں، مجھے تم نے دل سے چاہا ہے۔ عرب تو ایسے نہیں ہوتے ہیں تم مختلف ہو میں بھی تم سے پیار کرتی ہوں۔

میں عرب نہیں ہوں۔ میں تو کراچی کا رہنے والا ہوں۔ ایک پاکستانی ہوں۔ لوگ میرے رنگ سے دھوکا کھا جاتے ہیں میں نے ہنس کراس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

اس کا رنگ فق ہوگیا، مجھے ایسا لگا جیسے وقت تھم گیا ہے۔ پوری کائنات اپنے محور سے ہٹ گئی ہے۔

پاکستانی، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس نے ایک جھٹکے سے انگوٹھی اپنی انگلی سے نکال کر میزپر رکھ دی تھی۔ میں پاکستانی سے شادی نہیں کر سکتی ہوں۔ کبھی بھی نہیں۔ اس کے چہرے پر غصہ تھا اور آنکھوں میں جیسے چنگاری۔ تم لوگوں نے میرا ملک تباہ کردیا۔ ہم سب کو برباد کر دیا۔ نہیں کبھی نہیں۔

میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں۔

میرے کچھ کہنے سے قبل وہ بولی۔ میرا باپ کابل یونیورسٹی میں فارسی پڑھاتا تھا۔ میری ماں لڑکیوں کے اسکول کی ہیڈ مسٹریس تھی اور ہم سب آرام سے سکون سے محبتوں کے ساتھ کابل میں رہتے تھے۔ میں نے کالج میں داخلہ لیا ہوا تھا۔ میری دو بہنیں اور دو بھائی اسکول میں تھے کہ تم لوگوں نے طالبان کا عذاب ہم پر بھیج دیا۔ میری ماں کا اسکول ہی بند ہوگیا، لڑکیوں کا اسکول جلادیا تھا ان لوگوں نے۔ میرے باپ کو طالبان اُٹھاکر لے گئے۔ جب بیس دن کے بعد وہ ملے تو وہ چل نہیں سکتے تھے، کمیونسٹ ہونے کے الزام میں ان کی جان نہیں لی گئی، کمر کی ہڈی توڑدی گئی۔

نہ جانے کیسے ہم لوگ پشاور سے ہوتے ہوئے امریکہ پہنچے۔ کیا کیا نہیں کرنا پڑ رہا ہے یہاں زندہ رہنے کے لئے۔ میں اس پب میں اپنے ننگے جسم کی تجارت کر رہی ہوں تاکہ میرے باپ میرے ماں کا علاج ہوسکے۔ انہیں قیمتی دوائیں مل سکیں، ان کی فزیو تھراپی ہو سکے، میرے بھائی بہن یونیوسٹی میں تعلیم حاصل کرسکیں، ہم سب دو وقت روٹی کھا سکیں۔ امریکہ میں کچھ بھی مفت نہیں ملتا ہے، نہ دوا، نہ تعلیم، نہ غذا اور نہ ہی زندہ رہنے کا حق۔

یہاں سب کچھ خریدنا پڑتا ہے۔ یہاں خیرات میں نہ دوا ملتی ہے نہ حقوق اور ان سب چیزوں کے لئے مجھے شراب بیچنی ہوتی ہے، بخشش جمع کرنی ہوتی ہے اور یہ اس وقت تک کرنا ہوگا جب تک میرے بہن بھائی اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر عزت سے نوکری کرنے کے قابل ہوجائیں۔ وقار کے ساتھ کما سکیں اتنا کہ میرے ماں باپ کی دوائیں خریدی جا سکیں، میرے باپ کی فزیو تھراپی ہوسکے۔ میرے پاس یہی چوائس تھی کہ یا تو میں سب بھائی بہنوں کو چھوٹے موٹے کاموں میں لگادیتی اور وہ بھی روزی روزگار کے چکروں میں لگ جاتے ہم سب ساری زندگی پیسے کماتے رہتے، تعلیم نہیں ہوتی ہمارے پاس۔ امریکہ میں تعلیم کے لئے قربانی دینی ہوتی ہے یا خود میں اس دھندے میں لگ جاتی۔ میں نے دوسرا راستہ چُنا ہے۔

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ میں اس کا چہرہ تک رہا تھا۔ خوبصورت چہرہ مخمصے اور درد میں ڈوبا ہوا۔

میں نے پاکستان سے نفرت کی ہے۔ پاکستانیوں کو بددعائیں دی ہیں، میری ماں اور میری ماں کی ماں نے اوپر والے سے ہاتھ پھیلا پھیلا کر تم لوگوں کے لئے عذاب کی بھیک مانگی ہے۔ تم اس اذیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہو۔ میں اس اذیت سے گزری ہوں۔ ہر ہوس بھری آنکھوں کو درگزر کیا ہے، اپنے جسم پر چبھنے والی نظروں کو برداشت کیا ہے اور اپنے پاک بدن کو چھونے والی انگلیوں سے نفرت کی ہے میں نے۔ صرف اس لئے کہ اپنے معذور ماں باپ کا مناسب علاج کرا سکوں، اپنے بھائی بہنوں کو تعلیم دلا سکوں۔

ہر اس لمحے پر اس نگاہ پر اس نظر پر اس لمس کے ساتھ میں نے پاکستان سے نفرت کی ہے، شدید نفرت! تم لوگوں کو غلطی سے تو چاہا جا سکتا ہے، جان بوجھ کر پیار نہیں کیا جا سکتا۔ تمہاری محبت کو دل سے نکال کر پھینکنا زیادہ آسان ہے بہ نسبت یہ کہ تم لوگوں کے ساتھ رشتہ بنایا جائے۔ تم قاتلوں کی قوم ہو، آج کے دورکے درندے ہو تم لوگ۔

میں خاموش بیٹھا انگوٹھی کو تکتا رہ گیا۔ اس کے چہرے پر بلا کا غصہ تھا۔ نفرت کی کوئی تصویر ہوتی تو وہ تصویر اس کے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی۔ اس کی باڈی لینگویج زور زور سے اعلان کررہی تھی کہ اسے میرے پاس ایک منٹ کے لئے بھی نہیں رُکنا ہے۔

تم لوگوں میں میری شادی نہیں ہوسکتی ہے کبھی نہیں، کبھی نہیں۔

یہ کہہ کر وہ جھٹکے سے اٹھی اور کونڈو کے باہر کے راستے سے نکلتی چلی گئی تھی۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4