روٹی سے محتاج قومی ہیرو


پچھلے کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ نواز شریف مارچ دوہزار بیس سے پہلے پہلے رہا ہو جائیں گے، لیکن نواز شریف کی اچانک علالت اتنی شدید نظر آ رہی ہے کہ ’’قدرت‘‘ کی طرف سے ماہ مارچ سے پانچ مہینے پہلے یعنی اکتوبر کی رخصتی کا بھی انتظار کئے بغیرسر پر کھڑا دکھائی دینے لگا ہے۔ وزیر اعظم اور حکومتی مشینری کے رویے بدل گئے ہیں۔ عمران خان ن لیگ کے قائد کی ناساز طبیعت کو خود مانیٹر کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنا ذاتی طیارہ نواز شریف کے لئے مختص کر دیا ہے۔ یاسمین راشد انہیں بیرون ملک بھجوانے کی بات کر رہی ہیں۔

احتساب عدالت سے باپ سے ملاقات کے لیے ایک گھنٹے کی ،، چھٹی،، لے کر اسپتال جانے والی مریم نوازکی طبیعت کو بھی ناساز قرار دے کر ڈاکٹرز انہیں ’’ایڈمٹ‘‘ کر لیتے ہیں۔ بیٹی کو باپ کے ساتھ والا کمرہ الاٹ کر دیا جاتا ہے۔کسی بات پر کوئی معترض نہیں، حکومتی وزراء کی زبانوں کو تالے لگ گئے ہیں، بیماری کا مذاق اڑانے والوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں، نواز شریف کی بیماری واقعی سنگین ہے۔ اللہ انہیں صحت دے۔ اس وقت وہ حقیقت میں جمہوریت کی علامت ہیں۔ انہیں خدا نخواستہ کچھ ہوا تو یہ کسی کے لئے بھی اچھا نہیں ہوگا۔

آصف علی زردری کو بھی منگل کی رات ہی پمز اسپتال پہنچایا گیا ہے، لیکن ان کی صحت کے بارے میں کسی کو بھی کوئی فکر نہیں سوائے بلاول بھٹو کے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ نواز شریف کے علیل ہوتے ہی مولانا فضل الرحمان کو بھی اسلام آباد میں دھرنے کی مشروط اجازت دیدی گئی ہے۔ عمران خان نے مولانا پر ،،سنسر شپ ،، کا نوٹس بھی لیا ہے، جیسے کہ وہ ’’بلیک آؤٹ‘‘ احکامات سے لا علم تھے۔ شاید حکومت کواب لگ یہ رہا ہے کہ مولانا اور ان کی ڈنڈا بردار فورس کی طرف سے خطرے کا الارم بند ہو جائے گا،، لیکن نواز شریف کے لئے نرم گوشہ مولانا کے سینے میں موجود چنگاری کو اور ہوا دے سکتا ہے۔

حکومت کے لئے بہتر یہی ہے کہ مولانا کو بھی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دیدیا جائے۔ یہ الزام کہ ان کے پیچھے’’بیرونی قوت‘‘ ہے، جمہوری رویوں کے شایان شان نہیں۔ سوشل میڈیا پر متحرک لوگوں کو بھی احتیاط برتنی چاہئے، مخالفین کے لئے غداری کے سرٹیفکیٹ ماضی میں بھی بانٹے گئے، نتیجہ بہت ہولناک نکلا تھا۔

 کبھی صحافت کو مملکت کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا تھا مگر مملکت کے اس چوتھے ستون کی تاریخ کو ضیاء الحق نے عبرت کا نشان بنایا۔ یہ نشان آج بھی کسی نہ کسی صورت دکھائی دیتا رہتا ہے۔ ضیاء الحق نے خانہ خدا میں حاضری دے کر 90 دن کے اندر اصطلاحات و انتخابات کرا کے اقتدار چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا، مگر جب اسے اقتدار کا مزہ اور خمار آیا تو وہ گیارہ سال تک اقتدار کے مزے لوٹتا رہا۔

اس نے پریس سنسر شپ کے ساتھ ساتھ تمام حکومت مخالف اخبارات و جرائد کی بندش کے احکامات جاری کردئیے، جس کے نتیجے میں ہزاروں صحافی اور اخباری کارکن بے روزگار ہو گئے۔ آمر اعظم کے اس دور میں کالے قوانین کے خلاف ملک بھر کے صحافیوں نے آزادی صحافت کی تحریکوں میں گرفتاریاں دیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، ٹارچر سیلز میں اذیتیں بھی جھیلیں۔ ہم نے پہلے بھی جاں نثاران صحافت کی کئی کہانیاں آپ کو سنائیں، آج ہم آزادی صحافت کی اس تاریخی تحریک کے ایک اور سپاہی سے آپ کو ملواتے ہیں جس کا تعلق بہاولپور سے تھا، یہ صحافی اب تک زندہ ہے، مگر کیسے جی رہا ہے، یہ آپ بھی جان لیں۔

آزادی صحافت کی نتیجہ خیز تحریکوں کے دوران بہاولپور میں بھی پی ایف یو جے کا ایک تاریخی اجلاس منعقد ہوا تھا، جس کے انعقاد کے لیے صدر بہاولپور پریس کلب اے مجید گل جنرل سیکرٹری ایم زاہد خان اوربی کے طاہر مرحوم نے نمایاں کردار ادا کیا۔ وقت کے ڈکٹیٹر کے اشارے پر بہاولپور انتظامیہ نے اجلاس کا انعقاد روکنے کے لئے پریس کلب کو تالے لگوا دیے تھے ، جس کے بعد صحافیوں کے احتجاجی اجلاس لال سوہانرا نیشنل پارک میں منعقد ہوتے رہے۔ بی اے شیخ (مرحوم) اور زاہد خان نے پہلے اپنے ساتھیوں سمیت لاہور میں گرفتاریاں دیں، پھر جب تحریک کراچی سے چلی تو ایم زاہد خان وہاں بھی پہنچ گئے تھے۔

انہوں نے بھی گرفتاری کے بعد کراچی میں کئی روز خفیہ ٹارچرسیل میں گزارے ۔ انہوں نے جیل بھی کاٹی اور پھر انہیں سندھ بدری کا پروانہ تھما کر واپس بہاولپور بھجوا دیا گیا تھا۔ نواز شریف دور میں لاہور کے ایک بڑے اخبار کے خلاف اقدامات پر بھی زاہد خان بہاولپور میں صحافیوں کی آواز بنے۔ پرویز مشرف کے دور میں صحافت کو پابند کرنے کی کوشش کی گئی تب بھی بہاولپور پریس کلب میں ایم زاہد خان پیش پیش رہے، مگر آج ہم زاہد خان جس کو آزادی صحافت کی تحریکوں میں مجاہد کے خطاب سے نوازا گیا تھا، آزادی صحافت کا یہ مجاہد آج انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔

دو وقت کی روٹی اور ادویات تک سے محروم ہے۔ گیارہ سال پہلے شوگر کے باعث ڈاکٹروں نے اس کی ایک ٹانگ کاٹ دی تھی۔ آج اس کا کوئی پرسان حال نہیں ، ایم زاہد خان کے بیٹے کو اس کی والدہ کی وفات کے بعد محکمہ تعلیم میں والدہ کی جگہ مروجہ قوانین کے مطابق مستقل بنیادوں پر بھرتی کرنے کی بجائے 2011 ء میں کنٹریکٹ پر نوکری دی گئی۔ کنٹر یکٹ ختم ہونے کے بعد اسے فارغ کردیا گیا۔ زاہد خان کا یہ شادی شدہ بیٹا بھی اب تک بے روزگار ہے ، اس کے تین بچے بھی ہیں۔ بوڑھے اور معذور زاہد خان ہمارے قومی ہیرو ہیں ، قوم کا یہ ہیرو کس کے دروازے پر دستک دے؟

اس کی چھوٹی بیٹی زیر تعلیم ہے، اس کے بیٹے کے بیوی بچے بھی بھوک اور افلاس میں گھرے ہوئے ہیں، مکان کرایہ کا ہے۔ یوٹیلٹی بلز بھی اس کے ذمہ ہیں ، اپنے پسندیدہ صحافیوں میں کروڑوں روپے بانٹنے والی ماضی کی حکومتوں کو زاہد خان اور اس کا گھرانہ کبھی کیوں نہ دکھائی دیا؟ کیا ہم حکومت ، ارباب اختیار اور صحافتی تنظیموں سے زاہد خان کیلئے کوئی توقع رکھ سکتے ہیں؟

اور اب ایک خط خیبر پختونخواہ سے۔ سوات کے ریٹائرڈ ڈی ایس پی ہارون صاحب کا بتانا ہے کہ ورسک روڈ کی رہائشی ایک بیوہ خاتون کا اکلوتا جوان بیٹا وسیع اللہ جو ایک ویلڈر تھا اس کی دونوں آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی ہے۔ ماہرین چشم نے ماں کو آگاہ کیا ہے کہ اس کے جوان سہارے کو ،، کارنیا،، کی ضرورت ہے جو صرف امریکہ سے منگوایا جا سکتا ہے۔ CORNEA پاکستان کے سرکاری اسپتالوں میں دستیاب نہیں اور کرایہ کے مکان میں رہنے والی بڑھیا کے پاس اپنے جوان سہارے کی بینائی واپس لانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

ہارون صاحب نے بینائی سے محروم ہوجانے والی اس نوجوان کی تصویر ، میڈیکل رپورٹس اور دیگر دستاویزات بھی بھجوائی ہیں۔ کوئی صاحب ثروت، صاحب استطاعت شخص ایک ماں کی پکار پراس کے بیٹے کی آنکھوں کی روشنی واپس لٹانے میں مدد کرنا چاہے تو وہ ہارون صاحب کی وساطت سے ماں بیٹے سے رابطہ کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں آنکھوں کا کوئی خیراتی ادارہ بھی اس حوالے سے ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے، ہارون صاحب کا موبائل نمبر 03455035544 ہے، بے شک ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں لوگ معذوروں کے نام رکھ دیتے ہیں، ایسے لوگ جنہیں ہماری ہمدردی اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہم انہیں، لنگڑا، لولا، اندھا اور گونگا جیسے القابات سے نواز دیتے ہیں، لیکن یہ ہمارا ہی معاشرہ ہے جس میں عبدالستار ایدھی جیسے لوگوں نے بھی جنم لیا اور ہزاروں لاکھوں ایسے لوگ موجود ہیں جو ناداروں، ضرورت مندوں اور بیماروں کا سہارا بنتے ہیں۔ بے شک ایسے نیک کاموں کے لئے سب سے پہلا کردار حکومت وقت کا بنتا ہے، جس نے معذوروں کو ،، خصوصی افراد،، کا لقب تو دے رکھا ہے لیکن یہ لقب ان کی مہنگی طبی ضرورتیں پوری نہیں کرسکتا۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).