ورکنگ وومن ، ہاسٹل میں رہیں اور پولیس کو بتاتی رہیں


کئی دن سے پرائیویٹ ہاسٹلز میں رہائش پذیر اسلام آباد اور راولپنڈی کے طلبا و طالبات پریشانی کا شکار ہیں۔ مورخہ 25/10/2019 کو اسلام آباد ڈپٹی کمشنر اور پولیس کی جانب سے نوٹس موصول ہوا ہے کہ شہر میں طلباء و طالبات مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور ساتھ میں مجرمانہ حملوں کا نشانہ بھی ہیں تو سارے طلباء و طالبات کے باہر آنے جانے کا ریکارڈ رکھا جائے گا اور دس بجے کے بعد آنے جانے والیں طلباء و طالبات اور جاب کرنے والے اپنے والدین یا سربراہ سے فون کروائیں گے جاب کرنے والے اپنے کام کے اوقات درج کروائیں گے ۔

سکول کالجز کے طلباء و طالبات کے لیے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یونیورسٹی طلباء و طالبات اور ورکنگ طبقہ کے لیے یہ قانون سمجھ سے باہر ہے۔ یونیورسٹی طلباء و طالبات اٹھارہ سال سے اوپر ہو چکے ہوتے ہیں اور گورنمنٹ سے منظور شدہ شناختی کارڈ کے حامل ہوتے ہیں، جن کے باعث وہ عاقل و بالغ اور اپنے فیصلوں ، اظہار رائے، اور ہر طرح سے قانون کے اندر رہ کر اختیارات کے مالک اور خود مختار, شخصی آزادی کے مالک ہوتے ہیں تو پھر پولیس یا انتظامیہ کس طرح ان کو ایسے  پابند کر سکتی ہے کیسے ان کی شخصی آزادی چھین سکتی ہے ؟

کیا واقعی یہ طلباء و طالبات اور یہ تعلیم یافتہ ورکنگ طبقہ جرائم میں ملوث ہیں یا پولیس کی جرائم کے روک تھام میں ناکامی کا ثبوت ہے، اس طرح کرنے سے کیا جرائم کی روک تھام ممکن ہے یا بس ذہنی اذیت دینا ہی مقصد ہے ؟، اس کے بعد ہم نوجوان کیا سوچیں ؟  کیا ہم  مجرم ہیں ؟ اور شہر میں ہونے والے جرائم کا سبب بھی ہم  ہیں، یہ انتظامیہ کا ایک جاہلانہ اقدام ہے ، جس کا نتیجہ ہماری روزمرہ روٹین کی  بربادی کے علاوہ کچھ نہیں، کیا عاقل و بالغ ہونے کے بعد بھی ہم اپنے روزمرہ کی نقل و حرکت میں زندگی بسر کرنے ہاسٹل انتظامیہ یا گھر والوں کے اجازت کے پابند اور محتاج ہیں ؟ جبکہ ہم نوکری بھی کر رہی ہوں ؟

 زندگی کے فیصلوں میں بڑوں کے راۓ کا احترام کرنا چاہیے۔   روزمرہ زندگی میں ایسی پابندیاں لگانے کا مقصد جن سے کام کا ہی ہرج ہو ۔ انتطامیہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے ۔

حکومت اپنے غلط اقدامات کی وجہ سے سے عوام کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے یونیورسٹیز کے فنڈز میں کمی،فیس میں اضافہ، میڈیکل داخلوں کو مشکل بنانا جہاں پہلے پاکستان میں ڈاکٹرز کی کمی ہے، ہسپتالوں کی نجاری، ادویات اور لیبارٹری ٹسٹ میں اضافہ، کمر توڑ مہنگائی اور بے حساب ٹیکسز،ڈالر کی اونچی پرواز، پٹرول کی قیمتوں کی آسمان سے باتیں۔ یہ سب سوچیں اور ورکنگ وومن کا خیال کریں ۔ جو اپنے گھر سے کمانے کے لیے باہر نکلی ہے ۔ اسے اس قسم کی پابندیوں سے کن اور کس قسم کی نئی مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا ۔

دو دن پہلے سی ڈی اے کا پرائیویٹ ہاسٹلز کو بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے وجہ رہائشی علاقہ میں کاروباری سرگرمیوں کی روک تھام لیکن کیا حکومت اور سی ڈی اے کو اب اس بات کا ہوش آیا؟

بہت سے ہاسٹل کئی سالوں سے چل رہے ہیں یہ کس کے اجازت سے چل رہے تھے کیا حکومت اور سی ڈی اے کو اس کا علم نہیں تھا اگر نہیں تھا تو یہ ان کی نا اہلی کا کھلا ثبوت ہے اگر تھا تو سی ڈی اے نے اس وقت ایکشن کیوں نہیں لیا اور آج ہاسٹل مالکان جن کے پاؤں پر کھڑے کاروبار کو برباد کرکے ان کو بیروزگار کیا جائے گا, کیا ان مالکان کو نقصان سے بچانے کے لئے سی اے ڈی کے پاس کوئی لائحہ عمل ہے یا کوئی متبادل ؟

ہاسٹل مالکان کے ساتھ تو جو ہو رہا ہے ، ہاسٹل میں رہنے والوں کو مشکلات کا شکار کیا جا ر ہا ہے ۔ وہ اپنی مرضی مطابق رہنے لائق  رہائش اور چھت سے محروم ہو رہے ہیں ۔ اب نیا گھر ڈھونڈنے نکلیں گے تو  مالکان منہ مانگے کرائے وصول کریں گے۔ اسلام آباد میں پہلے ہی کرائے لوگوں کے بس سے باہر ہیں ۔ ورکنگ وومن کی مشکلات بڑھیں گی ۔ ان پابندیوں کی وجہ سے نہ تو وہ اپنے دفتر کی جاب روٹین برقرار رکھ سکتی ہیں ۔ نئی جگہ شفٹ ہونے کی وجہ سے اضافی کرائے دینے کا بوجھ الگ سے سہنا ہو گا ۔ یہ ایک  توجہ طلب مسئلہ ہے، جس کی یہاں کسی کو پرواہ دکھائی ہی نہیں دیتی ۔

ورکنگ وومن کو پولیس اور ہاسٹل مالکان کو جوابدہی کا پابند کر کے بہت غیر محفوظ کر دیا گیا ہے ۔ بلاوجہ کی ان پابندیوں کی وجہ سے خواتین بلیک میلنگ کا شکار ہو سکتی ہیں ۔ ان کے تحفظ کے لیے کیا گیا اقدام الٹے اثرات لاتا دکھائی دے رہا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).