صرف امن ہی کا سوال ہے


چار گھنٹے پرمحیط طویل اور پہاڑی سفر کے بعد میں ضلع خیبر (سابقہ ایجنسی) کی دور افتادہ لیکن جنت کی شباہت لئے انتہائی حسین اور یخ بستہ وادی تیراہ میں صورتحال سے بر سر پیکار ادارے کے مقامی ہپڈ کوارٹر پہنچا تو تو نوجوان اور خوش مزاج افسروں اور برفانی ہوا نے ایک ساتھ استقبال کیا ایک کمرے میں خور و نوش کے فورًا بعد ایک چھوٹے سے بریفنگ ہال میں قدرے طویل لیکن حد درجہ معلومات افزا سلسلہ چلا جو ایک مخصوص شعبے کے مخصوص علاقے میں کام اور کارکردگی کے حوالے سے تھا لیکن سرشام میں ہال سے باہر آیا تو معلومات کی فراوانی ایسی تھی جیسے میں ڈھائی ہزار کلومیٹر پر پھیلے سرحدی باڑ کے چپے چپے سے واقف ہو چکا ہوں۔

جو ایک سرشاری اور اعتماد کے ساتھ تحفظ کا احساس فراہم کرتا رہا۔ افغانستان کے ساتھ ملحقہ بارڈر کی حساسیت اور حفاظت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ صرف پچاس کلومیٹر کے علاقے (سرحدی باڑ) پر اُنیس پوسٹ تعمیرکیے گئے ہیں، یاد رہے کہ اس ایریا میں باڑ دس سے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے اور یہاں سال کے آٹھ ماہ برفباری ہوتی رہتی ہے لیکن ایک سیکنڈ بھی ایسا نہیں جاتا کہ سرحد کی رکھوالی یا مانیٹرنگ میں کمی آئے اس انتہائی بلند اور برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں میں ڈیوٹی پر مامور اہلکار چھ مہینے کا خوراک ذخیرہ کرتے ہیں کیونکہ سردیاں آتے ہی تمام راستے مسدود ہوجاتے ہیں یہاں سرحد سے ملحقہ افغان صوبہ ننگرہار ہے جہاں طالباں اور داعش طویل عرصے سے ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں جبکہ ننگرہار صوبہ خصوصًا ضلع نازیان میں لشکر اسلام بھی اثر و رسوخ کی حامل ہے۔

اس لئے بارڈر پر فوج کی نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ جدید ڈیوائسز مثلًا سرو یلنس کیمرے، سولرلائٹنگ اور ہیلی کاپٹر وغیرہ بھی بروئے کار لائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران دھشت گرد کوئی بڑی کارروائی کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ لیکن اگر یہی انتظامات سرحد کے دوسری طرف یعنی افغان حکومت کی جانب سے بھی ہوں تو دھشت گردوں کا نیٹ ورک مکمل طور پر ختم ہونے کے واضح امکانات پیدا ہو جائیں گے جس کا فائدہ ہمارے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملک افغانستان کوبھی ہوگا لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ افغان حکومت نے بارڈر کی حفاظت پر وہ توجہ نہیں دی ہے جو پاکستان کی جانب سے مسلسل اور ذمہ دارانہ طرز عمل کے ذریعے دی جارہی ہے۔

بارڈر سے ملحقہ علاقے میں کچھ عرصہ پہلے نہ صرف دھشت گردوں کا اثر ورسوخ بڑھ گیا تھا بلکہ ان کے خلاف آپریشن بھی بہت حد تک مشکل تھا کیونکہ ان کے ٹھکانے انتہائی بلندی پر اور برف پوش پہاڑی علاقوں مثلًا تیرہ تیغہ، زیارت اور بریخ محد کنڈاؤ کے آس پاس تھے لیکن اس آپریشن کو ایک چیلنج کے طور پر لیا گیا اور حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کر لی گئیں۔ صورتحال کی بہتری کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس علاقے میں مجھ جیسا اجنبی کچے پہاڑی علاقے اور گھنے جنگلات کے بیچوں بیچ شام ڈھلنے کے بعد (صرف ایک اضافی گاڑی اور چار سیکیورٹی اھلکاروں سمیت ) ابھی ابھی ڈیڑھ گھنٹہ سفر کرکے تیراہ کے ایک سرے سے دوسرے یعنی مہربان کلی سے بارڈر ایریا میں واقع ایک گیسٹ ہاؤس پہنچا (بغیر کسی خوف اور دھشت کے )۔

یہ یقینًا ایک خوش آئند صورتحال ہے جس سے اس ملک کے ہر فرد کا اطمینان اور امید وابستہ ہے لیکن مستقبل میں اس علاقے کی تعمیر و ترقی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس لئے اپنی پیشہ ورانہ تجربے کو بروئے کار لا کر ادھر اُدھر تاک جھانک کی تو سرشار کر دینے والی معلومات ہاتھ آئے کیونکہ اس علاقے میں تئیس تعلیمی پرجیکٹ شروعکیے گئے ہیں جس میں سے بعض مکمل ہوئے جبکہ باقی تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ پیندی چینہ کا ایجوکیشن کمپلیکس تو میرے جیسے اُمید پرست کے لئے روشنی اور اُمید کا استعارہ ہے۔

تین نئے ہسپتال بھی بنائے گئے ہیں لیکن صوبائی حکومت نے حسب توقع سستی اور نا لائقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابھی تک سٹاف کا ایک بندہ بھی نہیں بھیجا ہے اس لئے فی الحال عسکری ادارے کی میڈیکل ٹیم ٹریٹمنٹ دے رہی ہے۔ (یہی صورتحال کچھ عرصہ پہلے مھمند ایجنسی کے تحصیل ما مد گٹ میں بھی ہمیں دیکھنے کو ملی تھی جس کے گواہ پشاور کے درجن بھر صحافی بھی ہیں) شعبہ تعلیم اور صحت کے علاوہ تیراہ میں آٹھ ہائیڈل پراجیکٹس اور تین ایریگیشن منصوبے بھی مختلف این جی اوز کی مدد سے تکمیل کی جانب گامزن ہیں۔ جو اس خوبصورت علاقے کو توانائی اور زراعت کی مد میں ترقی دے گی۔

یہاں کے پہاڑجنگلی زیتون، اور اخروٹ کے درختوں سے ڈھکے ہوئے ہیں، پتہ چلا کہ پھلدار زیتون کی کاشت کا منصوبہ محکمہ زراعت کے ساتھ مل کر شروع کیا جا رہا ہے، اگر توجہ دی گئی تو اخروٹ کے علاوہ سیب، انگور اور خوبانی کی پیداوار سے بھی بڑا زرمبادلہ ہاتھ آسکتا ہے۔ سنا ہے یہاں کے پہاڑ قدرت نے قیمتی اور نایاب ذخائر سے بھر دیے ہیں جس کے لئے صرف امن ہی درکار ہے اور اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ان خزانوں کا حصول کوئی اتنا مشکل بھی نہیں رہا کیونکہ حالات مثبت سمت میں بڑھ رہے ہیں۔

رات بھر چشم تصور سے امیدوں اور امکانات کے اس لہلہاتے فصل کا نظارہ کرتے کرتے جانے کس وقت آنکھ لگی۔ صبح ناشتے سے ذرا پہلے میں اپنے کمرے کے قریب اس برفانی چشمے کے کنارے اُترا جس میں اخروٹ بہتے رہے تو سامنے سر سبز پہاڑوں میں ان گھروں پر نظر پڑی جس کی چھتیں اکھڑی دیواریں خستہ اور دروبام اجڑ چکے تھے کیونکہ ان کے مکین موت بانٹتے موسموں میں انھیں یخ بستہ ہواؤں اور گھمبیر سناٹوں کے سپرد کر کے ہجرت کر چکے تھے لیکن اس سناٹے سے ایک امکان بھی اس اُمید کے ساتھ جھانک رہی تھی کہ دھشت کی عذاب سے گزری یہ خوابیدہ وادی اگلی نسلوں کے لئے خوابوں کی سرزمین بننے سے پہلے ایک انگڑائی لینے لگی ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).