نواز شریف کو بیرون ِملک جانے پر کون راضی کر سکتا ہے؟


سوال یہ تھا کہ نواز شریف کو باہر بھیجنا کیوں ضروری ہے؟ کیا انہیں باآسانی باہر بھیجا جا سکتا ہے؟ اور اس سلسلے میں انہیں کون کن شرائط کیساتھ قائل کر سکتا ہے؟ جواب دستیاب ہوتے تو شاید سوال ہی نہ اٹھتے۔ کالی سیاہ کافی جو غالباً ایتھوپین تھی‘ سائیڈ ٹیبل پر رکھی ٹھنڈی ہو رہی تھی‘ ایتھوپین اس لئے کہ ٹھنڈی ہونے کے باوجود اس کی قدرے تیز خوشبو‘ دیر تلک کمرے میں رچی بسی تھی‘ یہ کافی گھونٹ لیتے ہی تلخ‘ مگر حلق سے نیچے اترتے ہی زبان کے پچھلے ٹیسٹ بڈز پر خاص قسم کا رومانوی ذائقہ فراہم کرتی ہے۔ خیر!
جواب دینے سے پہلے خاکسا رنے اپنے میزبان سے استفسار کی صورت میں عرض کیا؛ پہلی کافی نہ گرم کروا لیں؟ تب انہیں احساس ہوا کہ کافی تو کب سے ٹھنڈی پڑ چکی ہے‘ فوراً انٹر کام پر کافی گرم کرنے کا حکم دیا اور مردان کے نواح میں تیار کیا گیا مقامی سگریٹ سلگایا۔ پوچھا؛ آپ تو عجیب و غریب سگار سلگاتے رہے ہیں‘ یہ کیا؟ لوکل برانڈ کب سے چالو کر لیا؟ کہنے لگے ؛اس کی کِک زیادہ تگڑی ہے‘ ان دنوں‘ کیونکہ لمحہ بھر چین نصیب نہیں ‘تو ایسے میں کسی سٹرانگ اور دیسی برانڈ کی ضرورت تھی‘ لہٰذا مردان میں تیار ہونے والے اس سگریٹ کا انتخاب کئے بناء نہ رہ سکا۔
نواز شریف کی بگڑتی صحت پر راولپنڈی سمیت اسلام آباد میں یکساں تشویش پائی جاتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ عدالتی رہائی کے بعد ہسپتال لے جانے اور پھر ان کے علاج معالجے کے دوران حکومت بیک فٹ پر آئی اور تہہ نیتی پیغامات جاری کرنے کے علاوہ وزراء کو اس بابت بیان بازی سے روکنے پر بھی مجبور ہوئی۔ اس دوران رات کی تاریکیوں میں کئی اہم شخصیات سر جوڑے بیٹھی رہیں کہ اب کیا کیا جائے؟
ایک ایسا خدشہ انہیں بھی لاحق ہے ‘جو ہر عام پاکستانی کے ذہن میں سوال کی صورت میں اٹھ رہا ہے۔ عرض کی کہ نواز شریف اس حالت میں حکومت کی پیٹھ پر لدھا ایک بوجھ ہیں۔ اس بوجھ تلے دبی حکومت نا آگے قدم بڑھا سکتی ہے‘ نا پیچھے۔ اوپر سے آزادی مارچ کی رام کہانی راتوں کی نیند حرام کرچکی ہے۔ یہ بوجھ اترے گا‘ تو حکومت کو سیاسی طور پر سانس لینے کا موقع ملے گا۔ آزادی مارچ کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی اور حکومت سنجیدگی سے عوام کے لیے کچھ کرنے کی پوزیشن میں آئے گی۔ دوسری طرف سوال تھا کہ اگرخدشہ اگر حقیقت میں بدل گیا تو کیا ہوگا؟
وہ بولے دیکھئے؛ اگر اس مدعے پر ایک عام شہری اور ایک صحافی کے ہاں اس قدر تشویش ہے تو انداز ہ کیجئے ہمارے ہاں اس بابت تشویش کا پیمانہ کہاں تک جا پہنچا ہوگا؟ پوچھا؛ کہاں تک؟ گرم کافی کے مگ کو تھامتے ہوئے اس کے کناروں پر انگشت شہادت پھیرتے ہوئے وہ بولے؛ یہاں تک! ہم سے رہا نہ گیا‘ پوچھا؛ یہ تو اپنا اپنا پیمانہ ہے۔ انہوں نے مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔ انگشت شہادت کو گردن پر پھیرتے ہوئے بولے؛ یہاں تک…!
کہنے لگے کہ اس بات میں وزن ہے کہ نواز شریف کا سیاسی بوجھ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے او ایسے میں غلطی کی گنجائش باقی نہیں رہی‘ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کیسے قائل کیا جائے؟ عرض کی کہ پاکستان میں فی الحال تین ایسی شخصیات ہیں‘ جو انہیں علاج کی غرض سے بیرون ملک لے جانے پر قائل کر سکتی ہیں؛ ایک ان کی والدہ ‘ دوسری ان کی دختر۔ وہ بولے؛ لیکن ان دونوں کے ہاں تشویش صرف نواز شریف کی صحت کے حوالے سے ہے‘ وہ ہمیں لاحق تشویش کا ادراک نہیں رکھتیں اور کیا معلوم نواز شریف ان کی بات کس حد تک سنتے ہیں۔ ویسے یہ کوشش ایک سے زائد بار ہوچکی۔ تیسرا شخص کون ہے؟ انہوں نے بات ادھوری چھوڑ کر سوال کی صورت میں پوچھا۔
تیسری شخصیت ‘چوہدری شجاعت حسین ہیں‘ ہم نے جواب دیا۔ وہ مسکرائے‘ کافی کا گھونٹ لیا‘سگریٹ کا لمبا کش کھینچا اور ہوا میں مرغولے بناتے بناتے پوچھنے لگے؛ چوہدری شجاعت ہیں تو باکمال‘ لیکن وہ کیسے قائل کر سکتے ہیں؟ ان دونوں خاندانوں کے ہاں قربت نفرت میں بدلے اب دہائیاں بیت چکیں۔ عرض کی کہ چوہدری شجاعت اب بھی نواز شریف کا دل سے احترام کرتے ہیں اور نواز شریف کے ہاں بھی ان کے لیے نرم گوشہ ابھی باقی ہے۔
چوہدری صاحب یہ کارنامہ اسی صورت انجام دے سکتے ہیں‘ جب جڑواں شہروں کی جانب سے انہیں سو فیصد مینڈیٹ دیا جائے۔ نواز شریف کے پاس اب کھونے کو کچھ باقی نہیں بچا۔ سرکاری ہسپتال میں زیر علاج نواز شریف سے ان کے بھائی‘ دختر‘ والدہ اور دیگر عزیز و اقارب سمیت پچھلے دروازوں سے کئی اہم شخصیات مل چکیں‘ لیکن تاحال کسی کو اس مشن میں رتی بھر کامیابی نہیں مل سکی۔ وہ کہتے ہیں کہ آخر کس چیز کو بچانے کی خاطر اب بیرون ملک جاؤں؟ میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا‘ جو ہو گا یہیں ہوگا۔ ان کے نزدیک موجودہ سیاسی صورتحال میں باہر چلے جانا خودکشی ہوگی۔
وہ بولے؛ہاں! عدالتی تحویل سے ہسپتال لے جاتے وقت بھی نواز شریف نے انکار کر دیا تھا۔ سر شام پھر شہباز شریف کو بلانا پڑا۔ شہباز شریف لگ بھگ دو گھنٹے بڑے بھائی کو سمجھاتے رہے کہ ان کی صحت خطرناک حد تک خراب ہوچکی ہے اور ہسپتال لے جانے کے علاوہ اب کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔الغرض شہباز شریف کی کوششوں سے نواز شریف ہسپتال جانے پر رضا مند ہوئے۔ بااختیار اور مینڈیٹ سے بھر پور چوہدری شجاعت حسین والا نکتہ قابل غور ہے‘ لیکن اس مینڈیٹ میں لین دین کا پیمانہ طے کرنا انتہائی مشکل ہے۔
اور کپتان ؟ ہم نے پوچھا۔ قدرے سنجیدگی کیساتھ وہ بولے؛کپتان کے لیے اپنی پچ سے ہٹنا انتہائی مشکل ہو چکا‘ کیونکہ وہ اس حد تک فرنٹ فٹ پر آچکے ہیں کہ بیک فٹ پر لیٹ کٹ لگانے کی صورت میں ایل بی ڈبلیو ہوسکتے ہیں۔ وکٹ پر گھاس سوکھ چکا ہے‘ جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں اور ٹریک مکمل طو ر پر تجربہ کار سپنرز کیلئے موزوں ہو چکا ہے۔ان کیلئے کلوز فیلڈ لگائی جا چکی ہے۔ ایسے میں سائیوں کا تکیہ فطری طو ر پر بدلتے حالات پر ہی ہوگا۔ فطری طور پر جنم لینے والی طغیانیوں کیساتھ مڈ بھیڑ ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے‘ لہٰذا ایسے کسی طوفان کے سامنے بند باندھنے کی مزید کوشش نہیں کی جائے گی۔
اب آپ خود ہی دیکھئے ناں! اگر اب تک عوام کیلئے دو چار اہم کام عملی طور پر کئے ہوتے تو اس وقت سرکار کی ساکھ اس قدر پتلی نہ ہوتی۔ کچھ تو ہوتا‘ جس کے دم پر ترجمانوں کے لئے دفاع آسان ہوتا۔ مارچ سے حکومت تو کہیں نہیں جائے گی؛البتہ اسلام آباد پہنچ کر گڑ بڑ کا خدشہ ہے۔ حالات نارمل رہے‘ تو مولانا فضل الرحمن للکارتے ہوئے حکومت کے سامنے مطالبات کی فہرست رکھیں گے اور ڈیڈ لائن دیتے ہوئے اگلی تاریخ کا اعلان کر دیں گے۔ تو اس ہنگام میں حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ ہم نے پوچھا۔
پشاوری چپل اتارتے ہوئے آلتی پالتی مار کر صوفے پر تقریباً نیم دراز ہوتے ہوئے وہ بولے کہ ٹیم میں کچھ ردو بدل از حدلازم ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ فہرستوں کا تبادلہ ہونے کی اطلاعات بھی ہیں ‘لیکن پنجاب کی بزدار سرکار پر کپتان ڈٹے ہوئے ہیں۔ کابینہ میں ؛البتہ اگلے چند ہفتوں میں ردو بدل کا امکان ہے۔ نواز شریف یہیں رہے اور ان کی حالت مزید بگڑ گئی تو؟ ابھی ہمارا سوال ادھورا ہی تھا کہ انہوں نے جدید موبائل فون کی سکرین کا رخ ہماری جانب موڑا‘ مسیج میں لکھا تھا کہ سعودی سفیر کی چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات جاری ہے۔ ؎
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
بشکریہ روزنامہ دنیا

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami