آنکھوں دیکھا حال: نواز شریف کی سزا کیسے معطل ہوئی؟


نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت نہیں کرتے، عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹائم فریم کے تحت سزا معطل کر دے، اس عرصے کے دوران نئی میڈیکل رپورٹ منگوا کر اس کا جائزہ لیا جائے۔  عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اپیل جب سے زیرسماعت ہے، اگر دلائل ہوتے تو اب تک اپیل پر بھی فیصلہ ہوجاتا، ابھی تک جج وڈیو اسکینڈل والے معاملے پر بھی سماعت مکمل نہیں ہوسکی، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ اگر آرڈر شیٹس دیکھیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم آپ کو الزام نہیں دے رہے۔

عدالتی ریمارکس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ جب معاملہ عدالت میں زیر ماعت ہو تو انتظامیہ کوئی آرڈر جاری نہیں کرسکتی، اس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ معاملہ عدالت میں ہو تو عدالتی کارروائی کو ایگزیکٹو آرڈر سے فرسٹریٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کے علاوہ سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل بھی اس عدالت میں زیر سماعت ہے۔  وکیل کی بات پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کیا اپیل کا فیصلہ ہونے سے پہلے صدر مملکت سزا معاف کرسکتے ہیں؟

جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ صدر مملکت کسی بھی وقت اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں لیکن روایت یہ ہے کہ پہلے تمام فورمز پر اپیل کا فیصلہ ہوتا ہے۔  اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نیب کے سوا ابھی تک وفاقی اور صوبائی حکومت اپنے موقف میں واضح ہی نہیں، وہ یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکیں کہ انہوں نے اس معاملے پر کیا موقف اختیار کرنا ہے؟ اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ کس شرط پر آپ کو ضمانت دی جائے؟

جس پر وکیل نے کہا کہ آپ وہ شرط رکھیں جس میں نوازشریف کی طبعیت بہتر ہو سکے، نواز شریف وفاقی و صوبائی حکومت کے پاس نہیں جائیں گے، اسی لیے عدالت کا دروازہ کھٹکٹھایا ہے، اب ڈاکٹروں کو بھی نہیں معلوم ان کی بیماری کا حل کتنی دیر میں ہوگا۔ خواجہ حارث کی بات پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے، ڈاکٹرز بھی صرف اپنی کوشش ہی کرتے ہیں۔  ساتھ ہی جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت کے سامنے اس وقت 4 آپشنز ہیں، ایک معاملہ ایگزیکٹو کو بھجوائیں، نیب کی تجویز پر ٹائم فریم کے تحت سزا معطل کریں، آپ کی مان لیں یا درخواست خارج کردیں۔

اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی حکومت کو یہ معاملہ بھجوانا جو ہماری شدید مخالف ہے، زیادہ مناسب نہیں ہو گا، ساتھ ہی انہوں نے ضمانت کا معاملہ ایگزیکٹوز کو بھجوانے کی مخالفت کردی۔ وکیل کی مخالفت پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلی کسی جماعت کے نہیں پورے ملک اور صوبے کے ہوتے ہیں، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے تو 3 دن کی ضمانت پر بھی اعتراض اٹھایا، جس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا انہوں نے وفاقی حکومت کے کہنے پر یہ بیان دیا؟

عدالتی استفسار پر خواجہ حارث نے کہا کہ اٹارنی جنرل وفاق کے چیف لا افسر ہیں، سب ٹی وی چینلز نے ان کا بیان نشر کیا، ہم عدالت کے پاس آئے ہیں، آپ قانون کے مطابق اس پر فیصلہ کر دیں۔  اس پر جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ حکومت فیصلہ کرے گی تو وہ ڈیل نہیں کہلائے گی، پورے پاکستان کا نقطہ نظر ایسا بنا دیا گیا ہے کہ جو فیصلہ ہوا وہ ڈیل کا نتیجہ ہوگا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ادھر ادھر درخواستیں دینے سے ہم نے لعن طعن ہی ہونا ہے، ہم اس کا احترام کریں گے۔

خواجہ حارث کی بات پر جسٹس محسن اختر کیانی نے مشورہ دیا کہ آپ میڈیا پر بیٹھ کر بات کیا کریں، سارے وہ لوگ قانونی نکات بتا رہے ہوتے ہیں جو وکیل نہیں ہوتے۔  بعد ازاں عدالت نے سماعت کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے کچھ وقفے کے بعد سنایا گیا۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل ہوئے طبی بنیادوں پر ان کی عبوری ضمکرتے انت منظور کرلی۔ عدالت نے نواز شریف کو 20، 20 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم بھی دے دیا، ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ 8 ہفتوں میں علاج مکمل نہ ہو تو مزید ضمانت کے لیے پنجاب حکومت سے رابطہ کر سکتے ہیں اس موقع پر ن لیگ کے راجہ ظفرالحق، احسن اقبال، پرویز رشید، سردار ممتاز، مسرت زیب، پرویز فاطمی، طاہرہ اورنگزیب، پیر صابر شاہ، امیر مقام، میاں گل عمر فاروق اور دیگر موجود تھے

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui