کیا آپ کینی جی کے سیکسو فون کا جادو جانتے ہیں؟


کیا آپ نے کینی جی (Kenny G) کا نام سنا ہے؟

کیا آپ نے کینی جی کا سیکسوفون دیکھا ہے؟

کیا آپ نے کینی جی کے سیکسوفون کا جادو محسوس کیا ہے؟

اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو آپ اس عہد کے ایک عظیم فنکار کے فن سے اب تک محروم ہیں۔

میری ایک کینیڈین دوست سوزن اور ان کے شوہر جسٹن اس بات سے واقف تھے کہ میں کینی جی کی موسیقی کا بہت دلدادہ ہوں اس لیے جب انہیں پتہ چلا کہ کینی جی میرے شہر وھٹبی سے سو میل شمال کے CASINO RAMA میں کونسرٹ دے رہے ہیں تو انہوں نے مجھے دو ٹکٹ تحفے کے طور پر دیے۔ میں موسیقی کا یہ تحفہ کیسے رد کر سکتا تھا۔ میں نے اپنی سوشل ورکر دوست زہرا نقوی کو بھی دعوت دی اور ہم دونوں نے 25 اکتوبر کی شام کینی جی کی موسیقی کے سحر میں گزاری۔

جب کینی جی کونسرٹ میں سیکسوفون بجا رہے ہوتے ہیں تو چاروں طرف ایک کیف۔۔۔ایک سرور۔۔۔ایک عالمِ بے خودی۔۔۔ایک وجد۔۔۔کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔موسیقی کے زیر و بم کے ساتھ ساتھ جذبات کا زیر وبم۔۔۔کوئی مسکرا رہا ہے تو کوئی آنسو بہا رہا ہے۔۔۔کسی پر رقت طاری ہے اور کوئی کسی اور دنیا میں کھو گیا ہے۔۔۔

کینی جی 1956 میں پیدا ہوئے ۔ان کی والدہ کنیڈین اور والد امریکی ہیں۔ کینی جی ابھی بچے ہی تھے کہ ان کے سکول میں ان کے موسیقی کے ٹیچر نے انہیں سیکسوفون سیکھنے کا مشورہ دیا۔ دنیا کے نجانے کتنے والدین اور اساتذہ کا موقف ہے کہ اگر بچوں کی شخصیت کی متوازن تربیت کرنی ہے تو ہمیں انہیں سائنس اور معاشرتی علوم کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ میں سے ایک فن بھی سکھانا چاہیے چاہے وہ شاعری ہو یا موسیقی ۔ فلم ہو یا پینٹنگ۔ رقص ہو یا ڈرامہ۔ فنونِ لطیفہ سے مزاج میں سوز و گداز اور شخصیت میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔

کینی جی نے بچپن سے اپنے سکول کے طلبا و طالبات کے سامنے پرفورم کرنا شروع کیا اور انہیں ایک بینڈ کے ساتھ اپنے فن کا اظہار اتنا اچھا لگا کہ وہ آج تک ایک بینڈ کے ساتھ پرفورم کر رہے ہیں۔

ہم نے جمعے کی رات جب کینی جی کو سنا تو ان کے ساتھ جو بینڈ تھا اس میں ایک پیانو بجانے والے موسیقار تھے جو ان کا ہائی سکول کے کلاس فیلو تھے ایک گٹار بجانے والے ۔۔۔ ایک ڈرم بجانے والے۔۔۔ایک بیس گٹار بجانے والے۔۔۔ اور ایک پرکشن بجانے والے ایسے موسیقار تھےجن کے سامنے خاص قسم کے ڈھول تھے۔ وہ سب موسیقار پچھلے تیس برس سے ساری دنیا کے ٹور کر کے لوگوں کو محظوظ کر رہے ہیں اور انہیں بہتر زندگی کے خواب دکھا رہے ہیں۔

پورا کونسرٹ خالص موسیقی کا کونسرٹ تھا۔ اس میں کوئی لفظ کوئی گانا کوئی گیت نہیں تھا۔

کینی جی کے سیکسوفون کی موسیقی ذاکر حسین کے طبلے کی طرح مقبول ہے۔ جس طرح مختلف موسیقار ذاکر حسین کو سنگت کی دعوت دیتے ہیں اسی طرح کینی جی کو شمالی امریکہ کے جن موسیقاروں نے دعوت دی ان میں فرینک سناترا سے لے کر گروور واشنگٹن جونیر تک سبھی شامل ہیں۔اگر آپ یوٹیوب پر GROVER WASHINGTON JUNIOR کے پیانو کا گانے JUST THE TWO OF USسنیں تو آپ کو بیک گرائونڈ میں کینی جی کے سیکسو فون کا جادو سنائی دے گا۔

کینی جی پچھلے چالیس برس سے فن کا ریاض کر رہے ہیں۔ وہ ان خوش قسمت فنکاروں میں سے ایک ہیں جنہیں اپنی محنت اور ریاض کا معاوضہ بھی ملا ہے۔ان کی سی ڈی DUOTONES ان کی بین الاقوامی شہرت کا جواز بنی۔ وہ شمالی امریکہ کے مقبول ترین موسیقاروں میں شامل ہیں۔ ان کی سی ڈیز کی اب تک 75 ملین کاپیاں بک چکی ہیں۔

کینی جی نے نہ صرف موسیقی کا ریاض کیا ہے بلکہ اپنے سانس کی بھی ٹریننگ اور تربیت کی ہے۔ وہ موسیقی بجاتے ہوئے سانس توڑے بغیر طویل عرصے تک ایک ہی نوٹ بجا سکتے ہیں۔ سانس کا ریاض اس معراج تک پہنچ چکا ہے کہ ان کا نام GUINESS BOOK OF RECORDSمیں آ چکا ہے انہوں نے ایک نوٹ کو پینتالیس منٹ اور سینتالیس سیکنڈ تک جاری رکھا جو ایک فنی کرامت سے کم نہیں۔ایسا سانس لیناCIRCULAR BREATHINGکہلاتا ہے جس میں فنکار بیک وقت ناک سے سانس اندر لے جا رہا ہوتا ہے اور منہ سے سانس باہر نکال رہا ہوتا ہے۔ بانسری اور سیکسوفون بجانے والے فنکار اس فن کی تربیت کرتے ہیں۔

کینی جی نے 1992 میں لنڈی بینسن سے شادی تو کی لیکن بہت سے فنکاروں کی طرح وہ اس شادی کو قائم نہ رکھ سکے۔ وہ بیوی اور موسیقی دونوں محبوبائوں کے بیک وقت زلف کے اسیر ہو گئے۔ ان کی بیوی کو ان کی موسیقی ایک سوتن لگیں اور وہ انہیں داغِ مفارقت دے کر چلی گئیں۔

کونسرٹ کے دوران کینی جی اپنے سامعین سے دلچسپ اور پرلطف گفتگو کرتے رہے۔ ان کی حسِ مزاح میں شگفتگی بھی تھی اور پختگی بھی۔ کہنے لگے میں آپ کو تھوڑی سی  SAX EDUCATIONدیتا ہوں پھر انہوں نے سیکسوفون کی تاریخ بتائی کہ کس طرح پچھلے پچاس برس میں اس کا ارتقا ہوا ۔ پھر انہوں نے سن ساٹھ اور ستر کی دہائی کی موسیقی سنائی خاص طور پر JAZZ MUSIC  سنایا جس میں ہندوستانی موسیقی کی طرح جگل بندی ہوتی ہے۔ اس وقت ہمیں اندازہ ہوا کہ ان کے بینڈ کے سب ممبر اپنے اپنے موسیقی کے آلے کے کتنے ماہر ہیں۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ساری دنیا میں موسیقی کے حوالے سے انسانوں کے دو گروہ پائے جاتے ہیں؟ ایک گروہ موسیقی کو روح کی غذا سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ موسیقی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے سوز پیدا کرتی ہے گداز پید کرتی ہے دلوں میں نرمی پیدا کرتی ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو موسیقی کو گناہ سمجھتا ہے۔ ایک معاشرے میں لوگ موسیقار سے کہتے ہیں کہ آپ کے گلے سے بھگوان بولتا ہے اور دوسرے معاشرے میں وہی موسیقار میراثی کہلاتا ہے۔

میں جب کونسرٹ سے لوٹا تو مجھے اپنی تیس سالہ پرانی محبوبہ بہت یاد آئی جس نے میرا تعارف کینی جی کی موسیقی سے کروایا تھا اور مجھے اپنی وہ غزل بھی یاد آئی جو میں نے اس محبوبہ کی جدائی کے بعد لکھی تھی۔ اس کے چند اشعار آپ بھی سن لیں

سمندر میں ہوں لیکن تشنگی محسوس کرتا ہوں

میں اپنی زندگی میں کچھ کمی محسوس کرتا ہوں

کبھی ہر عارضی کو دائمی میں سمجھا کرتا تھا

اور اب ہر دائمی کو عارضی محسوس کرتا ہوں

وہ کب کی جا چکی خالدؔ مگر میں اس کے بارے میں

کبھی سوچوں تو آنکھوں میں نمی محسوس کرتا ہوں

غزل تو آپ نے پڑھ لی لیکن مجھے خیال آیا کہ موسیقی کا ذکر ہو تو موسیقی تو سننے کی چیز ہے۔ کینی جی کا کوئی ٹکڑا سنے بغیر آپ کو اس کے جادو کا صحیح احساس کیسے ہو گا۔ لیجئے مشہور زمانہ فلم ٹائی ٹینک میں کینی جی کا وہ گیت سنیے جسے انہوں نے  My Heart Will Go Onکا عنوان دیا تھا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail