بصرے کی رہنے والی اور امریکی پرچم کا بوسہ


میرا نام مَریّا ہے، مَریا حداد۔

میں بصرے کی رہنے والی ہوں اسی بصرے کی جو ہزاروں سال پرانا ہے۔ اسی بصرے کے ایک ہزاروں سال پرانے خاندان سے تعلق ہے میرا جو یسوع مسیح کے زمانے سے عیسائی ہے۔ جو گرجا گھروں کے اس شہر میں رہتا رہا، زمانے کے الم و غم سہتا رہا مگر یسوع مسیح کی عبادت سے گریزاں نہ ہوا۔ بصرے کے سبزے، مٹی اور دھول کو سانسوں میں لے کر، جو بصرے کو اپنے سینے کے اندر بسا کر زندہ رہا مگر اب بصرہ چھوڑنا پڑا ہے۔ مجھے اپنے خاندان کے ساتھ اس ستاروں والے پرچم کے نیچے کھڑا ہونا پڑا ہے جو کبھی میرا نہیں تھا جو میرا ہوکر بھی شاید میرا نہیں ہوسکے۔ میرے بچوں کا تو ہوگا مگر میں بصرے کی رہنے والی، بصرے کی ہی رہوں گی اسی بصرے کی جو میرے آباﺅاجداد کا گھر ہے جو یسوع مسیح کے حواریوں کا شہر ہے۔

بہت کچھ بصرہ اور بغداد میں ہوا ہمارے ساتھ۔ کوئی سنگین بددعا ہے ہمارے شہروں پر۔ تاریخ کا ایک ایک لمحہ عذاب ہے۔ ہر لمحہ بھاری ہے، اتنا بھاری کہ اس کے وزن کے نیچے پورا عراق دبا ہوا ہے اور شاید دبا ہی رہے گا، نہ جانے کب تک۔

میرے دادا بصرے کے ایک اسکول میں انگلش پڑھاتے تھے۔ میں نے سنا ہے کہ میرے دادا کے ابا بھی پڑھانے کا کام کرتے تھے اورمیرے دادا کے ابا کے ابا گرجا گھر میں پادری تھے۔ ہمارے خاندان کے پڑھے لکھے ہونے کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا بصرہ ہے۔ اتنے ہی قدیم ہیں ہم لوگ جتنا قدیم یہ شہر ہے۔

میرے دادا کے تین بچے تھے، دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ میرے والد نے بغداد میں تعلیم حاصل کی اور فزکس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکار کے ملازم ہوگئے۔ وہ فوج میں سائنسدان تھے۔ بغداد یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی تھے۔ سیاست سے انہیں نہ کوئی دلچسپی تھی اور نہ اس میں ان کے لئے کوئی کشش تھی۔ وہ لکھنے پڑھنے والے سیدھے سادھے انسان تھے۔ عراق میں عیسائیوں کی زندگی کبھی بھی عام عراقیوں کی طرح نہیں رہی ہے۔ سُنّی اور شیعہ مسلمان اصل شہری ہیں۔ ہمارے جیسے عیسائی دوسرے درجے کے شہری ہیں مگر اس کے باوجود ہم لوگوں نے عراق نہیں چھوڑا کہ ہم تاریخ کا حصہ تھے اور تاریخ کا حصہ ہی رہنا چاہتے تھے۔

میرے چچا نے بھی بغداد میں ہی تعلیم حاصل کی، انہیں عربی پڑھنے کا شوق تھا۔ عربی ادب سے انہیں لگاﺅ تھا۔ وہ عربی ادب میں اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے جس کے لئے انہوں نے پیسے جمع کئے۔ میرے دادا نے اپنی جمع پونجی ان کے حوالے کی کہ وہ اپنا شوق پورا کریں۔ صدام کے عراق سے نکلنا آسان نہیں تھا مگر وہ نکلے اور نکل کر قاہرہ پہنچ گئے۔ قاہرہ ہی میں انہوں نے عربی زبان میں پی ایچ ڈی کیا۔ قاہرہ ہی میں ان کی ملاقات ایلزبتھ سے ہوئی جس سے انہوں نے شادی کی اورپھر ہمیشہ کے لئے مصر کے ہوگئے۔ ان کی کہانی الگ ہے۔ مجھے پتہ نہیں ہے کہ اس موقع پر ان کی کہانی کہنا مناسب ہوگا کہ نہیں۔ مجھے وقت ملا تو ان کی کہانی بھی سنا دوں گی، ابھی تو میری کہانی سنیں، مریا کی کہانی۔ مریا حداد، بصرے کی رہنے والی کی کہانی۔

میرا باپ صدام کے عراق میں ایک ایسا سائنسدان تھا جس نے اپنے وطن اپنے عراق کے لئے دن رات کام کیا۔ چوبیس چوبیس گھنٹے ان تجربہ گاہوں میں گزارا جہاں وطن کی دفاع کے لئے کام ہوتا تھا۔ میرے باپ کو حکومت نے جرمنی بھیجا جہاں سے وہ فزکس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔ مجھے نہیں پتہ ہے کہ وہ ایٹم بم بنا رہے تھے کہ نہیں لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ عراقی افواج کے کئی اہم کاموں میں وہ شامل تھے۔ انہیں کام سے دلچسپی تھی۔ صرف کام سے۔ مجھے، میرے بڑے بھائی، میری چھوٹی بہن کو میری ماں نے پالا۔ ہمیں اپنے باپ کو راتوں کو دیکھنے کی عادت تھی یا چھٹی والے دن اور ان چھٹی والے دنوں میں بھی وہ اکثر کام پر چلے جاتے تھے۔ میری ماں کو میرے باپ سے شکایت تو تھی مگر میری ماں ان سے محبت کرتی تھی۔ ایسی محبت جس میں سب کچھ قبول ہوتا ہے۔ ہر شکایت کو محبت کی پرتوں میں چھپا لیا جاتا ہے۔ وہ ایسی ہی تھیں، میرے باپ سے بے تحاشہ محبت کرنے والی میری ماں۔

میری ماں سوزن ڈاکٹر تھیں، بچوں کی ڈاکٹر۔ وہ سرکاری ہسپتال میں کام بھی کرتی تھیں، ہمیں بھی دیکھتی تھیں اور گھر بھی چلاتی تھیں۔ انہوں نے کبھی بھی ہمیں ہمارے باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ وہ ایسی ہی بیوی تھیں اورایسی ہی ماں بھی محبت کرنے والی۔

میرے باپ کی چھوٹی بہن مریم بصرے کی خوبصورت ترین لڑکی تھی۔ میری ماں نے ہمیشہ یہی بتایا۔ مریم نے بصرے میں ہی تعلیم حاصل کی اورکالج کے دنوں میں ہی اس کی دوستی ایک مسلمان احمد حماد سے ہوگئی اور میرے دادا دادی کے مرضی کے بغیر وہ مسلمان ہوکر احمد کی بیوی بن گئی۔ زندگی نے مریم کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ احمد میرا پھوپھا میری پھوپھی کا دیوانہ تھا۔ میری پھوپھی سے اس کی شادی آسانی سے نہیں ہوئی تھی۔ سینکڑوں سالوں سے عیسائی مسلمان اور یہودی عراق میں ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں مگر ساتھ رہ کے بھی بہت دور ہیں۔ یہ عام نہیں ہے کہ ایک دوسرے مذہب میں تعلقات اور رشتہ داریاں ہوں اور شادیاں کی جائیں۔ مریم اوراحمد کے خاندانوں نے دونوں کا فیصلہ کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ مریم کے مسلمان ہونے کے باوجود مریم احمد کے خاندان میں مکمل طور پر قبول نہیں کی گئی اور میرے باپ کے خاندان کے لئے تو یہ ایک بڑا گناہ تھا کہ مریم مسلمان ہوگئی۔ یسوع مسیح کے زمانے سے کتنے لوگ آئے اور آ کر چلے گئے۔ شہروں کو جلادیا، آبادیوں کو تاراج کیا مگر ہم لوگوں نے اپنا مذہب نہیں بدلا۔ مریم کا یہ گناہ قابل قبول نہیں تھا۔ کسی کے لئے بھی نہیں۔

ہمارے خاندانوں میں کسی کو پتہ نہیں ہے کہ کیا ہوا مگر یہ ہوا تھا کہ ایک دن صدام کے خفیہ پولیس والے مریم کے شوہر احمد حماد کو گرفتار کرکے لے گئے۔ احمد حماد پر الزام تھا کہ وہ صدام کے خلاف بے چینی پھیلارہا ہے۔ دو سال تک وہ اس پر تشدد کرتے رہے، ایک دن اُس کی لاش بصرے کے ایک بازار میں پڑی ہوئی ملی۔ وہ ایک سیدھا سادھا سا شاعر تھا۔ انقلاب کے خواب دیکھنے والا، امن و انصاف کے گیت لکھنے والا، گیت گانے والا۔ ایک ایسے سماج کے لئے بات کرنے والا جہاں انصاف ہو، پیار ہو، بھائی چارہ ہو، قانون ہو اورآزادی ہو۔ صدام کو یہ قبول نہیں تھا۔ انہوں نے احمد حماد کو مارا اور رات کی تاریکی میں صدام کی خفیہ پولیس والے اس کے گاﺅں میں گھس گئے اور اس کے گاﺅں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ لوگ مارے گئے، جلائے گئے اور گھروں کو چھوڑ کر رات کی تاریکی میں کہیں کھوگئے۔ صرف اس لئے کہ کوئی صدام کے خلاف سوچے بھی نہیں یہ تھا صدام کا انصاف اور قانون۔

مریم اس غم سے کبھی بھی آزاد نہیں ہوسکی۔ وہ مسلمان ہی رہی، بیوہ ہی رہی، اپنی تمام تر خوبصورتی کے باوجود دوسری شادی نہیں کی۔ اپنے غم کو اپنے سینے سے لگا کر بصرہ کے ایک اسکول میں بچوں کو پڑھاتی رہی۔ سایوں سے ڈر ڈر کر زندگی بِتاتی رہی۔ اس طرح سے زندگی کا چکر چل ہی رہا تھا کہ صدام اورامریکہ کے درمیان تعلقات خراب ہوتے چلے گئے۔ پرانے دوست دشمن بن گئے۔

ایک دن ہمارے پورے خاندان کو گرفتار کرکے ایک فوجی علاقے میں محصور کردیا گیا۔ حکومت کا خیال تھا کہ شاید ہم لوگ عراق سے بھاگ جائیں گے اور امریکہ کو ایسی معلومات پہنچا دیں گے جو عراق کے خلاف استعمال کی جائیں گی۔ میرے باپ کا جیسے دل ٹوٹ گیا۔ میرے چچا مصر چلے گئے، میرے باپ نے عراق نہیں چھوڑا، میرے باپ کی بہن کے شوہر کا قتل ہوا انہوں نے عراق نہیں چھوڑا۔ ہماری نسل کی نسل عراقی ہے، ہم وفادار ہیں، ہم کیوں غداری کریں گے۔ یہ کسی کوسمجھایا نہیں جا سکتا ہے کہ میرے باپ کے دل پر کیا گزری۔ یہ احساس کہ وہ لوگوں کے درمیان بھی ہیں، پر درمیان میں نہیں۔ ہر نگاہ شک کی نگاہ لگتی ہے، اپنے دوست پرائے لگتے ہیں، یہ عذاب میرے باپ کواندر اندر دیمک کی طرح چاٹتا رہا تھا۔

عراق پر امریکی قبضے کے بعد فوجی چھاﺅنی سے ہماری رہائی ہوئی اور ہم لوگ دوبارہ اپنے مکان میں چلے آئے۔ بغداد کے اسی محلے میں جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ جن گلیوں میں میں نے سائیکل چلائی تھی، جس محلے میں میرے دوست تھے، ساتھی تھے، جہاں میں نے شرارتیں کی تھیں اور بچپن سے جوانی کا راستہ طے کیا تھا۔ قبضے کے کچھ دنوں کے بعد امریکیوں نے میرے باپ اور ان کے ساتھ کام کرنے والے کچھ اور سائنسدانوں کو گرفتار کر لیا۔ ان گیارہ سائنسدانوں میں صرف میرا باپ عیسائی تھا۔ تفتیش کا ایک طویل سلسلہ چلتا رہا۔ ان لوگوں نے مادر وطن سے کوئی غداری نہیں کی۔ امریکیوں سے کچھ چھپا ہوا نہیں تھا صدام کے کچھ جرنیلوں نے گھر کے لوگوں نے امریکیوں کو بہت ساری معلومات پہنچا دی تھیں میرے باپ اور اس کے ساتھ گرفتار سائنسدانوں نے انہیں کچھ نہیں بتایا، انہیں پہلے ہی سب کچھ پتہ تھا۔ تھوڑے دنوں بعد ان لوگوں کو چھوڑدیا گیا تھا۔

بغداد میں ابتدائی تباہی کے بعد حالات کچھ بہتر ہو گئے۔ زندگی معمول پر آنے لگی اور ایسا لگا کہ شاید زندگی آگے بڑھے گی۔ اُم کلثوم کے پرانے ریکارڈ چائے خانوں میں چلیں گے، اجرم، عبدہ، علیا، شیرین، احمد شریف، امردیاں اور صابر ربائی کے گانے دوبارہ گلی کوچوں میں گونجیں گے۔ مصر کے ادیبوں کی کتابیں بصرہ و بغداد پر دوبارہ قبضہ کر لیں گی۔ فلسطینیوں کا غم ہمارا ہی غم رہے گا اور عرب کلچر اور ثقافت کا طاقت بالاتر ہوگی۔

میرا کالج بھی کھل گیا، میری ماں نے ہسپتال میں کام بھی شروع کردیا لیکن ایک شام میرے باپ کو اس وقت اغوا کرلیا گیا جب وہ ایک دوکان سے سامان خرید کر نکلے تھے۔ اسی دن ان کے ساتھ کام کرنے والے کچھ اور سائنسدان بھی اسی طرح سے اغوا کرلئے گئے تھے۔ دو دن جیسے برسوں کی طرح گزرے تھے جس کے بعد ان سب کی لاشیں ایک وین میں ملی تھیں ایک ساتھ سب کے سروں پر گولی مار کر انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

امریکیوں نے اتنے عراقی نہیں مارے جتنے عراقی صدام نے قتل کئے۔ امریکیوں نے اتنے عراقی موت کے گھاٹ نہیں اُتارے جتنے عراقی سنی شیعوں نے ایک دوسرے کی جنگ میں مار ڈالے ہیں۔ امریکیوں نے اتنے عراقی نہیں مارے جتنے خودکش حملوں میں موت کا شکار بن گئے ہیں، جنگ نہیں تھی توعراقی مرتے تھے، جنگ تھی تو عراقی مر رہے تھے، جنگ ختم ہو گئی ہے تو عراقی مر رہے ہیں، امریکی نہیں تھے تو عراقی مررہے تھے، امریکی ہیں تو عراقی مر رہے ہیں۔ امریکی چلے جائیں گے تو عراقی مریں گے یہ لعنت ہے میرے بصرے پر میرے بغداد پر۔ کسی کی بددعا ہے، ایسی بددعا جس کا کوئی مداوا نہیں۔

میں نے اور میری ماں نے میرے باپ کی مسلمان بہن مریم نے امریکی سفارتخانے میں جا کر پناہ لے لی تھی، کچھ پتہ نہیں تھا، کب موت ہمارا مقدر بن جائے ہرطرف موت کے بادل چھائے ہوئے تھے، خون کی بارش کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہے وہ تو بس برس پڑتی ہے ہمارے بصرے میں بغداد میں، میرے وطن عراق میں۔

جب ہم امریکہ پہنچے تو ہمیں مہاجر کا درجہ دے دیا گیا۔ میں یہاں کام کررہی ہوں اور اپنی پڑھائی بھی کر رہی ہوں، حکومت کی طرف سے مجھے وظیفہ بھی دیا گیا ہے۔ میری ماں بھی امتحان دے رہی ہے تاکہ یہاں ڈاکٹر کی طرح کام کرنے کا لائسنس حاصل کر سکے۔ زندگی ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔

میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ امریکہ آﺅں گی۔ میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ میں بصرہ چھوڑوں گی، میرا بصرہ میرا بغداد میرا عراق۔ میں نے تو یہ تک نہیں سوچا تھا کہ میرے گلے میں کوئی نیکلس ہوگا جس میں امریکی جھنڈا لٹکا ہوا ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے نیکلس سامنے کردیا۔

اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس زمین پر قدم رکھنے کے پہلے دن سے میرے وہی حقوق ہیں جو کسی بھی امریکی کے ہیں۔ کوئی مجھے قتل نہیں کرے گا کہ میں عیسائی ہوں یا میری پھوپھی مسلمان ہے۔ میرے ساتھ ناانصافی ہوگی تو انصاف حاصل کرنے کا طریقہ ہے مجھے غائب نہیں کردیا جائے گا، میری لاش سرِبازار نہیں پڑی ہوگی، میرا گاﺅں تاراج نہیں کیا جائے گا۔

میں مریا حداد بصرے کی رہنے والی عیسائی۔ ہزاروں سالوں میں بھی وہ حق نہیں لے سکی جو مجھے بہت پہلے ملنا چاہئیے۔ میں امریکن ہوں، امریکن شہری۔ یہ کہہ کر اس نے بڑی عقیدت سے گلے میں لٹکے ہوئے امریکی پرچم کو چوم لیا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).