کانسٹیبل اور سپاہی: ایک کہانی دو کردار


سیکورٹی اداروں میں کام کرنے والے تمام پاکستانی ہمارے لئے باعث فخر ہیں، کیونکہ ہزاروں جانیں اس مادر وطن پہ قربان کر چکے ہیں، میری تحریر آج ایک کڑوے سچ سے پردہ ضرور اٹھائے گی۔ فوج میں بھرتی ہونے والا ایک سپاہی آرمی ٹریننگ سینٹر میں جانے کے بعد اپنی زندگی اس وطن کے لئے ادارے کو سونپ دیتا ہے۔ دوسری جانب ادارہ بھی اپنے جوانوں کا حقیقی معنوں میں ذمہ اٹھاتا ہے۔ اچھی مناسب تنخواہ، علاج کے لئے اپنے ذاتی بہترین ہسپتال، بچوں کی تعلیم کے لئے اپنے اعلیٰ ادارے، ڈیوٹی کے لئے جانا ہو تو پک اینڈ ڈراپ، ملک میں ٹرین اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ میں بھی رعایت ملتی ہے۔

ریٹائرمنٹ پہ مناسب پنشن، اور باہر دوبارہ سے نوکری بھی جلدی مل جاتی اور اگر شہید ہو جائیں تو یہ ادارہ اس کی نسلوں کو بھی نہیں بھلاتا۔ یہ سب ایک سپاہی کا حق بھی ہے، کیونکہ اس کے خون کی کوئی قیمت ہی نہیں ہوتی۔ اب آتے ہیں مادر وطن کے ان سپوتوں کی جانب جو سرحدوں پہ تو نہیں مگر ملک کے اندر امن و امان کے ضامن ہوتے ہیں، چیک پوسٹ ہو یا تھانہ یا پھر کسی وی وی آئی پی کی سیکورٹی ہر جگہ پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ کچھ دن قبل میں اپنے آفس سے ڈیوٹی آف کرنے کے بعد رات 12 بجے نکلا تو ڈی چوک سے تھوڑا سا آگے جناح ایونیو پہ ایک پولیس کانسٹیبل کو کھڑا پایا جو ہر آنے والی گاڑی کو لفٹ لینے اشارہ کر رہا تھا مگر کوئی رکا نہیں۔

میں نے ان محترم کو لفٹ دی، میرے ساتھ بیٹھے اور ایک ٹھنڈی آہ لی، میں نے پوچھا اتنا لیٹ وہ بھی لفٹ کے ذریعے جا رہے ہیں، تو وہ پھٹ پڑے، کہا بھائی کیا پوچھتے ہو پورے بارہ گھنٹے ڈیوٹی کے بعد انسان کی کیا حالت ہو سکتی، اور پھر آدھے گھنٹے سے یہاں کھڑا ہوں کوئی لفٹ ہی نہیں دیتا۔ مجھے دعائیں دینے لگے، میں نے بھی موقع جانا کہ ان سے کچھ پوچھ ہی لیتے ہیں، اسی بہانے شاید ان کے ذہن سے تھکن کا احساس تھوڑا کم ہو جائے گا۔

خیر نوکری مراعات کا پوچھا تو ایک لمحہ کے لئے یہ بھولنا ہی پڑا کہ ہم صحافی کتنی مشکلات کا شکار ہیں۔ صحافی ہونے کی وجہ سے کافی پولیس والوں سے جان پہچان ہے، مزید کچھ دوستوں سے غیر رسمی گفتگو میں جو معلوم ہوا اس سے ایسا احساس ہوا جیسے ان کا پرسان حال کوئی نہیں، حکومتی اداروں سے معزرت کے ساتھ، ٹریننگ سے ڈیوٹی تک پولیس کا تعلق عام عوام سے ہے، اب عوام کے رویے معاشرے میں پھیلنے والی بے چینیوں کی وجہ سے بہت بدل چکے ہیں۔

سب سے بڑی بات کہ عوام میں عدم برداشت کا وائرس خطرناک حد تک پھیل چکا ہے۔ عوام کے ہر فرد کو ایک ہی طرز پر نہ تو پولیس جانچ سکتی اور نہ ہی ایک جیسا برتاؤ کر سکتی، دیکھیں اگر ناکوں پہ مسلسل چیک شروع کر دیں تو سب کہتے ذلیل کر دیا، اگر نہ کریں تو میڈیا میں ہیڈلائنز ہوتیں کہ چیک پوسٹس کے ہوتے ہوئے بھی سیکورٹی کے ناقص انتظامات، کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جائے تو انکوائریاں بر طرفیاں اور زیادہ تر ذمہ دار تو سپاہی طبقہ ہی ٹھہرایا جاتا ہے، افسران تو تعلقات کی بنیاد پر نکل جاتے۔

پولیس کانسٹیبل والے کے پاس آرمی میڈیکل اسپتال کی طرح میڈٰیکل سہولت نہیں، بچوں کے لئے اس طرز کے تعلیمی ادارے نہیں، اچھے سکولوں میں پڑھائیں تو فیس ادا نہیں کر سکتے مجبورا سرکاری اسکولوں کا سہارا لیا جاتا۔ ڈیوٹی پہ جانے کے لئے ادارے کی جانب سے کوئی پک اینڈ ڈراپ بھی نہیں، ایک کانسٹیبل گھر سے ڈیوٹی اور ڈیوٹی سے پھر گھر چودہ گھنٹوں سے کم پہنچتا ہی نہیں۔ اور اگر ڈیوٹی کسی وی وی آئی پی کے ساتھ ہو تو پھر کب آف ہوگی یہ ان کو خود بھی معلوم نہیں۔

ایسے میں سب سے بڑا اثر ان کی نفسیات پرپڑتا، چڑچڑا مزاج، خرچے پورے نہیں تو رشوت کے طعنے، نفسیاتی پن کا اظہار پھر لوگوں کے ساتھ الجھ کے پورا کیا جاتا، جس کی ویڈیوز بنا کر وائرل کر کے پورے پولیس کے نظام کو بدنام کر دیا جاتا، جس کی وضاحتیں کئی دن تک دینا پڑ جاتی ہیں۔ اب دیکھتے ہیں ایسی کونسی وجہ کہ ایک سپاہی عوام کی آنکھ کا تارا ہوتا جبکہ ایک پولیس کانسٹیبل نفرت کی علامت سمجھا جاتا، جہاں تک مجھے سمجھ آئی اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو سپاہی کا براہ راست عوام سے کوئی تعلق نہیں، اگر عوامی مقامات پہ ڈیوٹی ہو بھی سہی تو ایک سپاہی خاموشی سے اپنا وقت پورا کر کے چلا جاتا جبکہ پولیس کانسٹیبل کا براہ راست تعلق عوام اور عوامی رویہ سے ہے۔

اور اس کے لئے ضروری ہے کہ پولیس کو باقاعدہ موٹیویشنل اور نفسیاتی دباؤ کو کم کرنے کے حوالے سے تجربہ کار افراد سے لیکچر دلوائے جائیں۔ دوسری سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ڈیفنس کے تمام اداروں کے لئے ایک سنٹرل تعلقات عامہ کا شعبہ ہے جس کا مقصد ادارے کے خلاف اندرونی بیرونی سازشوں کا جواب دینا اور اپنے ادارے کا مثبت چہرہ سامنے لانا ہے، اس سلسلہ میں آئی ایس پی آر بہترین کردار ادا کر رہا جس کو بیرون ملک دشمنوں نے بھی سراہا، اب پولیس کا نظام یہ ہے کہ ہر ڈٰی پی او یا آئی جی کا علیحدہ پی آر او ہوتا ہے جو بس اس ضلع یا صوبہ کو دیکھتا ہے، اور یہ عہدہ ادارے سے ہی کسی اے ایس آئی یا سب انسپکٹر کو دیا جاتا ہے جس کے پاس نہ تو اس فیلڈ کا مکمل تجربہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے پاس ذرائع ہوتے ہیں، وہ بس اپنی متعلقہ پولیس کی روزانہ کی کارروائی سے میڈیا کو آگاہ کرتے رہتے، اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام صوبوں اور وفاق کی سطح پر آئی ایس پی آر کی طرز پر تعلقات عامہ کا شعبہ بنایا جائے جو پولیس کا تشخص بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ عوام اور پولیس میں دوستی کا باعث بنے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس کے لئے خود ادارہ سینٹرل اسپتال بنائے جس کی بیشک ہر صوبہ میں برانچز ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارہ بھی بنائے جائیں جہاں ان سپاہیوں اور پولیس افسران کے بچے ایک معیار پہ تعلیم حاصل کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).