پاکستان میں آزادی مارچ: حالیہ عالمی تحریکوں کی روشنی میں


 دو ہزار انیس میں ایک مدت بعد عالمی منظر نامے پر عوامی جدوجہد نے حکمران طبقے کو سیاسی قوت کے بل بوتے پر للکارنا شروع کیا ہوا ہے۔ دسمبر 2018 میں سوڈان جیسے قدامت پسند معاشرے میں روٹی کی قیمت میں معمولی اضافے نے عوام کو سڑکوں پر لایا اور دیکھتے ہی دیکھتے عوامی سمندر نے خرطوم کے مضبوط سیاسی ایوان ہلا کر رکھ دیے۔ حکمران طبقے نے عوامی بغاوت کو کچلنے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ اور کئی درجن مظاہرین کو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اور لاشیں دریائے نیل میں پھینک دیں۔ لیکن عوامی احتجاج ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید شدت سے جاری رہا۔ عوامی مزاج کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر فوج نے مداخلت کی اور تین دہائیوں سے اقتدار پر قابض صدر عمر البشیر کو اقتدار کے ایوانوں سے الگ ہونا پڑا۔ اور اقتدار پر ایک فوجی کونسل نے قبضہ کر لیا۔ عوام جہاں عمر البشیر کو نکالنے پر خوش تھے وہیں فوج کے اقتدار پر قبضے کی وجہ سے ناخوش۔ انہوں نے منظم ہو کر فوجی طاقت سے جمہوری انداز میں لڑنا شروع کیا اور نتیجے کے طور پر فوج مظاہرین سے ایک معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گئی۔

اس سیاسی لہر کی ابتدا ایک عام سی تنظیم جو ڈاکٹرز، ہیلتھ ورکرز اور وکلا کے اتحاد پر مشتمل تھی کے احتجاج سے ہوئی اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ سوڈان کے قدامت پسند معاشرے میں خرطوم کی شاہراہوں پر خواتین نے قیادت سنبھال لی۔ سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات نے سوڈان میں عوامی ابھار کو کچلنے کے لئے فوج کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ایک دن بین الاقوامی نشریاتی اداروں میں ایک کم عمر خاتون کو ایک گاڑی کے چھت سے عوامی سیلابی ریلے سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ 22 سالہ اعلی صالح تھی جو عرب میں جمہوریت، انسانی حقوق اور سیاسی جدوجہد کا استعارہ بن چکی تھی۔ اسی کی قیادت میں سیاسی تحریک نے فوج کو اگست میں ایک معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔

مئی 2019 میں عوامی جمہوریہ چین نے ہانگ کانگ کی حکومت کو ایک متنازع قانون اسمبلی سے منظور کروانے کے لیے دباو ڈالا۔ اسے ایکسٹراڈیشن بل کا نام دیا گیا۔ جس کے ذریعے چین ہانگ کانگ میں اپنی سیاسی اور انتظامی مداخلت بڑھانا چاہتا تھا۔ جس دن اس بل کو بحث کے لیے اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ ہانگ کانگ کے عوام نے لاکھوں کی تعداد میں اسمبلی کی عمارت کا گھیراؤ کرلیا۔ بظاہر یہ لوگ ایکسٹراڈیشن بل کے خلاف باہر نکلے تھے لیکن یہ بڑھتا ہوا عوامی ابھار دراصل معاشی دباو اور غیر یقینی مستقبل کا نتیجہ تھا۔ جس میں سیاسی آزادیاں چھن جانے کا خوف بھی تھا۔ اور آسمان کو چھونے والی پراپرٹی کی قیمت بھی۔ اس صورتحال میں ہانگ کانگ کے نوجوانوں نے ایک فیصلہ کن سیاسی کردار ادا کرنے کی ٹھان لی۔ اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب پچیس لاکھ لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے تھے۔ اسی دوران نوجوان نے دنیا کے مصروف ترین ایئر پورٹ پر قبضہ بھی کیا اور سرکاری عمارتوں کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔ نتیجے کے طور پر چیف ایگزیکٹو کیری لیم نے عوام سے معافی بھی مانگی اور متنازع بل واپس لینے کا اعلان کیا۔ لیکن عوامی احتجاج اب تک جاری ہے اس لئے کہ مظاہرین ایک جمہوری مستقبل میں بنیادی انسانی آزادیوں کی گارنٹی، معاشی سرگرمیوں میں استحکام اور انسانی حقوق میں عالمی قوانین کی پاسداری کے لیے چین کی مداخلت کو ختم کرنے کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔

اس سارے عمل میں بہت سارے ناخوش گوار واقعات بھی پیش آئے لیکن چھ ماہ کے طویل دورانیے میں پولیس کی طرف سے چھے اصلی گولیاں چلانے کا انکشاف ہوا ہے۔ جو شاید ہانگ کانگ میں کئی عشروں تک نہیں ہوا۔ مجموعی طور پر مظاہرین پرامن لیکن سیاسی قیادت کی عدم موجودگی میں نتیجہ خیز اختتام سے نابلد بھی ہیں۔ حالانکہ حکومت متعدد بار انہیں یہاں تک کہہ چکی ہے کہ مذاکراتی عمل کے ذریعے سارے معاملات کو حتمی شکل دی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے چیف ایگزیکٹو کیری لیم نے متعدد اعلانات بھی کر دیے ہیں۔

Hong Kong

لاطینی امریکا کے ملک چلی میں حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں کے کہنے پر  ریل کے کرائے میں تیس پیسے اضافے کیا تو عوام نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف سڑکوں کا رخ کر لیا۔ بڑھتے ہوئے عوامی احتجاج کو روکنے کے لیے حکومت نے طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں سترہ مظاہرین شہید اور سیکڑوں زخمی ہو گئے۔ لیکن عوامی احتجاج بڑھتا گیا۔ رواں ہفتے چلی کے دارالحکومت سین تیاگو میں دس لاکھ سے زائد مظاہرین نے جمع ہو کر حکومت کی معاشی پالیسیوں کو چیلنج کیا تو صدر پنیرا نے عوامی مانگ کو پورا کرتے ہوئے ساری کابینہ کو برطرف کر دیا۔ اور عوامی ابھار کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے۔ یہ وہی صدر پنیرا ہیں جب 2010 میں چلی کی ایک کوئلے کی کان میں 35 مزدور سیکڑوں گز زیر زمین سلائیڈنگ کی وجہ سے پھنس گئے تھے تو صدر پنیرا نے ٹیلی ویژن پر عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سارے اثاثے استعمال کر دیں گے تاکہ کان میں پھنسے مزدوروں کو زندہ نکالا جا سکے۔ صدر پنیرا مزدوروں کا ہیلمٹ پہن کر جائے حادثہ پر پہنچ کر ریسکیو آپریشن کی نگرانی کرنے لگے اور عالمی سطح پر اپیل کر دی کہ دنیا ان کے 35 شہریوں کو بچانے میں مدد کرے۔ بالآخر 68 دن کی طویل کوشش اور محنت کے نتیجے میں ڈرلنگ کے ذریعے سارے مزدوروں کو بچا لیا گیا۔ اور صدر پنیرا اپنی بیوی کے ساتھ اس وقت تک جائے حادثہ پر ایک خیمے میں رہے جب تک آخری مزدور کو بحفاظت باہر نہیں نکال لیا گیا

لبنان میں حالیہ ہفتوں میں ٹیکس میں اضافے اور معاشی سطح پر کی گئی حکومتی تبدیلی کے خلاف عوام نے منظم احتجاج شروع کیا جو بنیادی طور پر دارالحکومت بیروت سے شروع ہوا۔ 17 اکتوبر کو لبنان کے شمال سے جنوب تک کئی لاکھ مظاہرین نے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر تاریخ کا ایک بڑا احتجاج کیا۔انسانی ہاتھوں کی اس زنجیر کی لمبائی 170 کلو میٹر تھی۔ عوامی احتجاج کے سامنے لبنانی حکومت نے بظاہر گھٹنے ٹیک دئیے ہیں اور ٹیکسوں میں کیا گیا اضافہ واپس لینے کے ساتھ ساتھ نئی معاشی پالیسی کا اعلان بھی کر دیا ہے لیکن عوام لبنانی سماج کو بدلنے کے لیے اشرافیہ سے اقتدار اعلی چھین کر عوام کو منتقل کرنے کی مانگ لیے سڑکوں پر موجود ہیں

A Lebanese protester shouts slogans in front of army soldiers

اسی دوران پاکستان میں موجودہ حکومت جو 2018 کے متنازع ترین انتخابات کے نتیجے میں عوام پر مسلط کی گئی تھی اور عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ کے نتیجے میں صرف ایک سال میں مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا گیا ہے۔ نتیجے کے طور پر اس سال پاکستانی تاجروں سے لے کر محنت کشوں کی تنظیموں تک ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ احتجاج پر مجبور ہو گئے۔ ناتجربہ کار حکومت نے اپنے لانے والوں کو خوش کرنے کے لیے ساری اپوزیشن کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ نان ایشوز کی مارکیٹنگ کے لیے صحافتی اداروں پر تاریخ کی بدترین سنسر شپ کے ذریعے عوامی رجحان کو دبایا گیا۔ عدالتی نظام کو مفلوج کرنے کے ساتھ ساتھ خواب بیچنے کا تصوراتی منصوبہ بنایا گیا۔ لیکن سوا سال میں پاکستان نہ صرف معاشی طور پر خراب ترین صورت احوال کا شکار ہوا بلکہ عالمی سطح پر سفارتی ناکامیوں نے پاکستان کو ایک ایسے کونے میں دھکیل دیا ہے جہاں خواب بیچنے کا تصوراتی خاکہ مزید نہیں آزمایا جا سکتا۔ چند ہفتے قبل بڑے صنعت کاروں اور تاجروں نے وزیراعظم کے بجائے باجوہ صاحب سے ملاقات کو ترجیح دی اور صاحب کو اصل معاشی صورت احوال سے آگاہ کیا۔

سیاسی انتقام، معاشی ناکامیوں اور انتظامی خرابیوں کی وجہ سے عوامی ردعمل کو روکنے کے لیے مولانا فضل الرحمان کو طاقت کے مراکز نے سامنے لایا تاکہ ایک ابھرتی ہوئی حقیقی تحریک کا رستہ روکا جا سکے۔ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں جن کے پاس مسائل کا ٹھوس حل موجود نہیں وہ ساری کی ساری جماعتیں ٹرک کی ایک ایسی بتی کے پیچھے لگا دی گئی ہیں جس کی معض اقتدار کی خواہش یا سیڑھی کے طور پر استعمال ہونے کے کوئی واضع منزل نہیں۔

آج پاکستانی عوام تاریخ کے بدترین سیاسی جبر، معاشی استحصال، اداروں کی ناکامی اور غیر یقینی مستقبل کے چنگل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ایک متبادل اور منظم سیاسی بیانیے کی عدم موجودگی میں اتنا بڑا سیاسی خلا موجود ہے کہ طاقت کے مراکز نے مولانا فضل الرحمان کو متبادل کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کے پاس نہ ہی تو مسائل کا حل موجود ہے اور نہ ہی معض روایتی بڑھک بازی کے ٹھوس منصوبہ بندی۔

مایوسی اور متبادل کی عدم موجودگی کا اتنا فقدان کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور قوم پرست سارے کے سارے احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عددی اعتبار سے یہ بلاشبہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ نظر آ رہا ہے لیکن سیاسی اہداف سرے سے موجود نہیں۔ عمران خان اور اس کے دوستوں کے کلب نے یقینی طور پر سوا سال کے دورانیے میں ناکامی اور نااہلی کے علاوہ عوام کو کچھ نہیں دیا۔ جمہوری اور سیاسی آزادیوں تک کو گروی رکھ دیا گیا۔ سارے کا سارا نظام کنفیوژن کا شکار ہے۔ لانے والوں اور مسلط ہونے والوں کے پاس مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔ لیکن کیا اس صورت احوال میں مولانا کے پاس کوئی حل موجود ہے؟ یا مولانا کی آڑ میں طاقت کے اصل مراکز اپنی اندرونی جنگ لڑ رہے ہیں؟ اور اپوزیشن کو مفلوج عدالتی نظام سے پے در پے ایسی آسانیاں دلوا رہے ہیں تاکہ انہیں وقتی ریلیف مل جائے۔

لیکن اس ساری صورت احوال میں نواز شریف کا طاقت کے مراکز کے خلاف موقف وہ واحد بیانیہ ہے جس کے کچھ مقاصد ہیں لیکن کیا نوازشریف اس بدلتی صورت احوال میں کوئی سیاسی کردار ادا کر سکتا ہے یا پھر شہباز شریف اپنے روایتی مصالحتی رویے کی بدولت طاقت کے مراکز کا اگلا چناو ہو گا۔

ایک بات بڑی واضح ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ دونوں فوری انتخابات کے حق میں نہیں ہیں۔ یا یوں سمجھ لیجیے کہ دونوں اس صورت احوال میں اقتدار نہیں سنبھالنا چاہتیں۔ مولانا کے پاس نہ ہی تو کوئی واضح حل موجود ہے اور نہ ہی عالمی منظر نامے میں کوئی گنجائش۔ عمران خان نے ثابت کر دیا ہے کہ اس سے عوام کوئی امید وابستہ نہ رکھیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بڑھتی ہوئی عوامی محرومی اور اضطرابی کیفیت کا حل کیا ہے؟

پاکستانی عوام اور عوامی قیادت کے لیے سوڈان، چلی اور لبنان کی حالیہ تحریکوں اور عوامی ابھار سے سیکھنے اور حکمت عملی ترتیب دے کر مثبت سمت کا تعین کرنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ بشرطیکہ وہ یہ ماننے کے لیے تیار ہوں کہ وہ دنیا کے باقی انسانوں کی طرح عام لوگ ہیں اور انہیں اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے جس طرح بیشتر ممالک کو۔ اور ان مسائل کا حل تقابلی سیاسی جدوجہد اور ٹھوس منصوبہ بندی میں مضمر ہے۔ لیکن نمبر ون، ایٹمی طاقت، دنیا پر حکمرانی کے خواب، اور مسلم امہ کے فرضی سراب زدہ نعروں سے کیا عوام باہر نکلنے کے لیے تیار ہیں؟ یا ایک بہتر مستقبل کے بجائے کچھ سال اور خواب بیچنے اور خریدنے کا ہی کاروبار ہوتا رہے گا۔ خواب بیچنے والے طبقے نے ستر سالوں میں خوب منافع کما لیا لیکن اس سارے عمل میں اگر کسی کو گھاٹا ہوا ہے تو وہ پاکستانی محنت کش عوام کو۔ جنہیں آج بی غزنوی، غوری،  ابدالی کے قصے سنا کر لوٹا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).