لیاقت پور ٹرین سانحہ: حادثہ یا غفلت


ایک اور حادثہ، کراچی سے تیز گام جانے والی ٹرین صبح طلوع آفتاب کے وقت انجانی وجوہات کی بنا پر حادثے کا شکار ہوئی اور ایک دفعہ پھر ہم نے خلق خدا کو زندہ جلتا ہوا دیکھا۔ چلتی ریل سے آگ کے بڑے بڑے شعلےنکل رہے تھے پر گاڑی رکی نہیں تھی۔ خبر دیکھتے ہی طبیعت گیرانی کا شکار ہوگئی۔ آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ گیس کا سلینڈردھماکے کے ساتھ پھٹا۔ ریل کی تین بوگیوں میں آگ بھڑک اٹھی پر کسی نے ریل کی چین نہ کھینچی۔ بلکہ چلتی ریل سے لوگوں نے باہر کودنا شروع کردیا۔ کیا دھماکے کی شدت سے گاڑی میں کوئی تحریک یا ہلچل نہیں ہوئی ہوگی۔ ذہن قبول نہیں کر پا رہا۔

آس پاس کے گاوں کے لوگوں نے انسانوں کو اپنی نظروں کے سامنے جلتا دیکھا اور کئی افراد نے اپنے موبائل سے سسکتی انسانیت کی آہ و بکا کو محفوظ کرلیا۔ کوئی چلتی گاڑی سے کود پڑا ۔ کچھ زخمی ہوئے تو کچھ جان کی بازی ہار گئے۔ ذرائع کے مطابق جس بوگی میں سلینڈر پھٹا یا شارٹ سرکٹ ہوا وہ آگ کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ جب کہ دوسری اور تیسری بوگی میں کچھ لوگ تو موقع پر جان بحق ہوگئے اور کچھ جھلس گئے اور زخمی ہوگئے۔

میں صبح نو بجے سے ٹی وی کے سامنے موجود کچھ سکتے کے عالم میں تھی۔ آنکھوں میں آنسو ٹہر گئے تھے۔ ذہن نے سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ سیاسی بیانات تواتر سے جاری تھے۔ قیامت کا سماں تھا۔ آس پاس کے علاقے کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ان جلتے مسافروں کی مدد کرنے کی کوشش بھی کی پر آگ اتنی شدت اختیار کر چکی تھی کہ بے بسی بھی رو پڑی تھی۔ جس بوگی میں آگ لگی وہ مذہبی جماعت کی تھی جس کو صرف ایک نام پر بک کرایا گیا تھا۔ ان تین بوگیوں میں ایک اندازے کے مطابق 207 لوگ سوار تھے، جس میں سے اکثر میر پور خاص سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ رائیونڈ میں ہونے والے اجتماع میں شرکت کے لئے نکلے تھے اور کراچی سے رحیم یار خان تک کتنے دیگر مسافر اس ریل گاڑی پر سوار ہوئے ابھی اس کی جانچ چل رہی ہے۔

ابتدائی طور پر یہ ہی کہا گیا کہ آگ سلینڈر کے پھٹنے سے لگی۔ جب یہ اطلاع گردش کرنی شروع ہوئی تو ادارتی عملے اور سربراہان پر تنقید شروع ہوگئی۔ بات نکلی کہ عملے نے سلینڈر لے جانے کی اجازت کس طرح دی۔ حیرت اس وقت ہوئی جب ادارے کے سربراہ نے یہ بیان دیا کہ ان کو خبر ہی نہیں کہ سامان کی ترسیل کس نے اور کیسے کی۔ یہ بے پروائی اور غفلت ایک ناتجربہ کار اور غیر سنجیدہ رویے کی طرف سوالیہ نشان ہے۔ سلینڈر لے جانے اور استعمال کرنے کی اجازت دینا یہ بھی عملے کی غیر ذمہ دار رویے کی عکاسی ہے۔ ابھی ذہن اس بات کو قبول نہیں کر پایا تھا کہ عینی شاہدین کے مطابق یہ شارٹ سرکٹ سے حادثہ پیش آیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سلینڈر سے یہ حادثہ پیش آیا یا شارٹ سرکٹ سے دونوں صورت احوال میں عملہ نے بے پروائی برتی ہے۔ اور تو اور ٹرین کا نہ رکنا اور مسلسل جلتے بوگیوں کو لیے چلتے جانا، اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی اہم ریلوے اسٹیشن پر نصب اسکیننگ مشین پچھلے چار سال سے غیر فعال ہے اور مسافروں کے سامان کی چانچ نہیں ہو پاتی۔ سیکورٹی سسٹم کا کوئی خاص انتطام نہیں۔ جس کی بنا پر حادثہ ہونا کتنا آسان ہے اس کا اندازہ ہم بہتر کر سکتے ہیں۔ حکومت کی غفلت کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ اس ہی بے پروائی کی نتیجے میں ایک اور صبح پاکستان میں بسنے والوں کے خون میں نہائی ہوئی ہے۔

دوسری صورت میں انفرادی طور پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جہاں رہیں وہاں کے قانون کا احترام کریں۔ یہ ذمہ داری اس جماعت کے امیر پر بھی عائد ہوتی تھی کہ سفر کے اصول اپنے جماعت کے لوگوں کو سمجھاتے اور اس بات کا خیال رکھتے کہ اجتماعی طور پر کیا جانے والا عمل محتاط اور ضوابط میں رہ کر انجام دینا لازم ہیں۔

اگر یہ حادثہ محض ناشتا بنانے کی وجہ سے ہوا تو کیا ہمیں معلوم نہیں کہ چلتی بس، جہاز ، گاڑی یا ریل گاڑی میں آگ جلانا کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ میں نہیں مانتی کہ نہ پتا ہو۔ یہ صرف اور صرف غفلت ہے اور اگر یہ حادثہ شارٹ سرکٹ سے ہوا ہے تو کیا بجلی کے تاروں کی بدبو کسی نے محسوس نہیں کی اگر کی تو ٹرین کی چین کھینچنے کو نوبت کیوں نہیں آئی؟ اور اگر ٹرین کی چین کھینچی گئی تو کیا چین بھی کار آمد تھی۔ اگر نہیں تھی تو ٹرین کی انسپکشن اور ٹیکنیکل ٹیم نے ٹرین کو فعال کیسے قرار دیا؟

کیا اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ حادثہ تھا اور مرنے والے شہید ہوگئے؟ نہیں یہ کافی نہیں ۔ بلکہ یہ نہ صرف مرنے والوں اور لواحقین پر ظلم ہے بلکہ یہ ہم عوام پر بھی تشدد اور جبر ہے۔ کیا یہ پندرہ لاکھ کی مالی امداد سے متاثرین کے دکھ کم ہوجائیں گے یا مرنے والا اس اذیت سے آزاد ہوجائے گا جس سے وہ گزرا؟ نہیں ہر گز نہیں ۔
آخر یہ بے حسی کی فضا کب تک قائم رہے گی۔ کیا صرف حکومت بدل جانے سے یا متعلقہ وزیر کے مستعفی ہوجانے سے یہ سر زمین جنت بن جائے گی؟

جنگل کا بھی قانون ہوتا ہے پر ہمارا ملک اللہ واسطے چل رہا ہے۔ سارے طاقتور قوتیں آپس میں گتھم گھتا ہیں ۔ سب ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی ڈور میں مگن ہے اور ہم عوام لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ ہم اپنی ہی موت کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ کسی ایک شخص کی بے حسی ہم سب کو نگل لے گی۔ ہم کب تک کووں کی طرح ہر حادثے پر کائیں کائیں کرکے پھر اگلے مرنے والے کا انتظار کرتے رہیں گے۔ کیا ہم اپنی بھی بے کسی کی موت کے منتظر ہیں؟

یہ بے حسی ختم کرنی ہوگی۔ پر یہ ختم کیسے ہوگی کبھی سوچا۔ صرف مسائل پر بات کرنا یا رونا کافی نہیں ہوتا۔ مسائل کا حل نکالنا اصل ہوتا ہے۔  یہ ناگہانی صورت احوال  صرف اور صرف تربیت سے قابو میں آ سکتی ہے۔ قانون کے اطلاق سے ہی حادثات سے انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا۔ یہ تربیت عوامی سطح سے لے کر اداروں کی سطح تک کرنی ہوگی۔ گھر سے نکلنے سے لے روڈ میں پیدل چلنے سے لے کر بس، رکشہ، گاڑی، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز میں سواری کے تمام اصولوں کو جاننا ہوگا۔ ہنگامی صورت احوال میں کس طرح خود کو اور آس پاس موجود افراد کو بچانے کی ٹریننگ دینے کا اہتمام کرنا ہوگا۔ آئے دن حادثات میں اضافہ ٹیکنیکل تربیت کے فقدان کی وجہ سے ہورہا ہے۔ لوگوں میں شعور اور آگہی پیدا کرنی ہوگی۔

خدارا! انفرادی طور اپنی حفاظت کو ملحوظ خاطر میں رکھیں۔ اپنا خود خیال رکھیں۔ جہاں تک ممکن ہو ہنگامی صورت احوال کا سامنا ہوش و حواس میں رہ کر کریں۔ آپ کی زندگی آپ کے اپنوں کے لیے بہت اہم ہے۔

حکومتی اداروں سے گزارش ہے کہ کام اور عہدہ فرض کی ادائی کا نام ہے۔ غفلت برتنے کی صورت میں نہ صرف عوام کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ آپ بھی اپنی غفلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ عوام کے لیے نہ صحیح، نہ اپنے لیے، تو قانون پر عمل در آمد کریں۔ ہماری قوم سخت امتحان سے دو چار ہے۔ خدارا کچھ تو رحم کریں ہم پر اور خود پر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).