آسیہ بی بی۔! عدل شرمندہ ہے، مگر آپ تو زندہ ہیں


\"farnood\"عدالت عظمی نے ایک ہفتہ قبل انیس سال سے سزائے موت کی قید کاٹنے والے ملزم مظہر حسین کو ناکافی ثبوت وشواہد کی بنیاد پر باعزت بری کردیا۔ جب بری کیا تو معلوم ہوا کہ ملزم مظہر حسین دو سال قبل جان لیوا بیماریوں اوراذیت ناک انتظار کے سببب ڈسٹرکٹ جیل جہلم میں زندگی ہار چکا ہے۔ انیس سالوں میں مظہر حسین کے دو بھائی عدالتوں میں جوتیاں گھستے گھستے جان سے گزر گئے۔ بچے کم سنی میں بزرگ ہوگئے اور اہلیہ کے بالوں میں چاندنی اتر آئی۔ اس حقیقت تک پہنچنے میں کہ ثبوت وشواہد ناکافی ہیں، سپریم کورٹ کو دو عشرے لگ گئے۔ ملزم کی وفات کی اطلاع سپریم کورٹ پہنچنے کے لیے دو سال کا عرصہ کم پڑ گیا۔ مگر کل چیف جسٹس جناب ظہیر جمالی صاحب نے ایک گرانقدر ارشاد ارزاں کیا ہے۔ فرماتے ہیں

’’جمہوریت کے نام پر دھوکہ دیا جا رہا ہے، عوام کو اب سڑکوں پہ نکل آنا چاہیئے‘‘

چیف جسٹس صاحب نے جب یہ بات ارشاد کی تو اس سے کچھ ہی دیر قبل ان کی بارگاہ عدل سے آسیہ بی بی کو یہ کہہ کر واپس کردیا گیا کہ ایک فاضل جج نے کیس کی سماعت سے انکار کردیا ہے۔ آسیہ بی بی کو دو ہزار دس میں شیخو پورہ کی مقامی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔ چھ برس بعد بمشکل تمام وہ ہائی کورٹ تک پہنچ سکی تھی۔ قاضی کے روبرو اس نے دہائی دی کہ ایک ایسے جرم کی سزا دی گئی ہے \"asia-bibi-2\"جو مجھ سے سرزد نہیں ہوا۔ قاضی نے بیک جنبش قلم یہ دہائی مسترد کرکےعدالت برخاست کر دی۔ آسیہ بی بی نے سپریم کورٹ کے دروازے پہ دستک دینا شروع کی مگر ایوان کی گہما گہمیوں میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دی۔ گزشتہ برس جولائی میں عدل کے کان پر جنبش ہوئی پڑی۔ ایوان عدل سے جواب آیا کہ آپ جو بھی کہنا چاہتی ہیں اس کے لیے موقع دیا جائے گا، مگر وقت لگے گا۔ آسیہ نے پسِ زنداں کلینڈر کے صفحے اور گھڑی کی سوئی پہ پندرہ ماہ ٹکٹکی باندھے رکھی۔ گزشتہ بیس دن سے گھٹڑی سنبھالے وہ جیل کا پھاٹک کھلنے کی منتظر تھی۔ سات روز قبل تک دور تھرپارکر کے کسی گاؤں میں خستہ سے تندور میں لکڑیاں پھونکنے والی مائی تک کو خبر تھی کہ تیرہ اکتوبر کی صبح عدالت عظمی میں میں آسیہ کی شنوائی ہوگی۔ امت مسلمہ بارہ اور تیرہ کی درمیانی شب چاند کے ماتھے پر حضرت حسین کے نام نامی اسم گرامی کا درک لگا کر سو گئی تھی۔ صبح اٹھے تو منظر بہت مختلف تھا۔ پندرہ ماہ کی مسافت کے بعد آسیہ نے بارگاہ عدل میں گلا کھنکار کر آمد کی خبردی تو فاضل جج نے گویا اچانک آمد سے حیرت میں پڑ کر یوں کہا ہو، ارے آسیہ آپ؟ آپ یہاں کیسے۔؟ خیریت تو تھی، کیسے آنا ہوا؟ اچھا کیس لگا ہوا ہے تمہارا۔؟ ارے تو تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا پاگل لڑکی؟ میں تو کیس میں سماعت کے لیے بیٹھ ہی نہیں سکتا، کیونکہ میں تو اس سے پہلے سلمان تاثیر کے کیس کی بھی سماعت کرچکا ہوں۔ اچھا اب تم ایسا کرو کہ ساتھ خیریت کے واپس جاؤ، ہم خود ہی بلا لیں گے تمہیں۔ ٹھیک ہے نا میرا بچہ، شاباش جا میرا بچہ، میرا پالا شا بچہ۔ اور ہاں سن۔! آئیندہ جب بھی آئیو پہلے سے بتلا کے آئیو، یوں اچانک سر پہ آکر کھڑے نہیں ہوجاتے۔ چل جا شاباش۔\"asiia\"

ایک غریب باپ کی ناخواندہ بیٹی، جسے اسلام تو کجا مسیحیت کی خبر نہیں، اس کے ایک جملے پر عرش کے نمائندوں نے گرفت کی ہے۔ فلم کے بیسیوں فیتے آسیہ کی بے بسی کی گواہ ہیں۔ گلو گیر آواز میں اس نے کہا تھا، میں پیغمبر اسلام کی اہانت کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ آب دیدہ ہوکر کہا تھا کہ مجھ پرالزام دھرا گیا ہے۔ بات وہ نہیں تھی جو کہی جا رہی ہے۔ بات وہ ہے جو میں کہنا چاہتی ہوں، مگر میری فریاد ماری جا رہی ہے۔ یہ دو باتیں ہائی کورٹ تک پہنچانے میں آسیہ کو چھ برس لگے۔ یہی بات سپریم کورٹ تک پہنچانے میں سات سے زائد برس لگ گئے۔ باری کے لیے پندرہ ماہ انتظار کی سولی پہ لٹکنا پڑا، مگر فاضل جج منہ اندھیرے بتاتے ہیں کہ آج کی کچہری تو آپ کو فقط ایک اطلاع دینے کے لیے برپا ہوئی تھی کہ ایک جج انصاف کی کرسی سے پردہ فرما گئے ہیں۔ پہلے آسیہ مسیح کے پاس پندرہ ماہ کا وقت ہونے کی وجہ سے لمحے گننے کا جواز تو تھا، اب چونکہ غیر معینہ مدت کے التوا کے ساتھ واپس لوٹی ہے تو دن اور مہینے کا حساب رکھنے کا جواز بھی نہیں ہے۔ ستم کے ایسے نقش کھنچنے کے کچھ دیر بعد قاضی القضاۃ عزت مآب ظہیرجمالی صاحب (آپ کا اقبال بلند ہو) بیس کروڑ انسانوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ

’’جمہوریت کے نام پر اس ملک میں دھوکہ دہی ہورہی ہے، عوام کو چاہیئے کہ اپنا حق لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں‘‘

جج کے صرف فیصلے بولتے ہیں، مگر جناب افتخار چوہدری صاحب کے، کیا کہیں کہ، اب فیصلے خاموش ہیں اور جج بولتے ہیں۔ پہلے کے ستم کچھ کم نہ تھے کہ افتخار چوہدری صاحب نے قاضی کے قلمدان کو سیاست کا اکھاڑا بنا دیا۔ جان کی امان ملے تو عرض کیے دیتے ہیں کہ\"asia-bibi\" ایوان عدل کےباہر انصاف کی منتظر انسانیت کو ایوان اقتدارکی طرف دھکیلنے کی اس عالمانہ کوشش نے سفید پوش عمارت کے باہر ایستادہ ترازو کا ایک پلڑا اور بھی جھکا دیا ہے۔ اب سنگ اٹھاتے ہیں تو سر بھی یاد نہیں آتا۔؟

سوگواری کے اس عالم میں کچھ پہلو خوشگواری کے بھی ہیں۔ آسیہ بی بی اس ملک کی ایک بدنصیب شہری ہے، مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیئے تو آسیہ بی بی کے نصیب پر رشک آئے گا۔ آسیہ خوش قسمت ہے کہ گاوں کے کھیت میں کام کرتی خواتین نے پورے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر فقط الزام عائد کیا، ورنہ ان کے منصب کا روایتی تقاضا تو یہ تھا کہ موقع پر ہی فرد جرم عائد کرتیں اور موقع پر ہی درانتی پھیر دیتیں۔ آسیہ بی بی خوش قسمت ہے کہ سات برس ہوگئے اور اب تک دل وجاں سلامت زندان میں قید ہے، ورنہ اتنے عرصے میں تو حفاظت پہ مامور پولیس اہلکاروں میں سے کسی ایک کی داڑھ حرارتِ ایمانی کے سبب گرم ہوچکی ہوتی ہے۔ آسیہ بی بی خوش نصیب ہے کہ چھ برس بعد ہی سہی عدالت عالیہ پہنچی تو سہی۔ پندرہ ماہ کے انتظار کے بعد کچھ پل کو سہی، عدالت عظمی کا دروازہ کھلا تو سہی، ورنہ توہین رسالت کے اسی فیصد ملزموں کی آہ و زاریاں ابھی سنتری تک \"asia-bibi-prison\"بھی نہیں پہنچیں۔ کیا آسیہ بی بی کو اپنی خوش بختی پر ناز نہیں کرنا چاہیئے کہ وہ ان کا وکیل سپریم کورٹ سے زندہ سلامت واپس لوٹ گئے؟ ورنہ یوں بھی توہوسکتا تھا کہ عدالت کے احاطے میں اردن کے ناہد ہتار اور ملتان کے راشد رحمان کی تاریخ دوہرا دی جاتی۔ آسیہ ہی کیا، ہم سب خوش نصیب ہیں کہ اس پورے عرصے میں ان اصحاب کا دھیان بٹا رہا جن کے حق پہ ہونے کا فیصلہ ان کے جنازے کرتے ہیں۔

آسیہ شاید اتنا ہی نصیب لکھوا کر آئی ہے۔ نصیب کے سنورنے اور سدھرنے میں ابھی کچھ وقت اس لیے بھی رہتا ہےکہ اس ملک میں شہریوں کے بیچ عقیدےکی بنیاد پر تفریق کرنے کی روایت ابھی زندہ ہے۔ آسیہ مسیح اس ملک کی شہری ہے۔ اس کا بنیادی حق ہےکہ عدالت میں اس کا مدعا پورے زیر زبر کے ساتھ سن لیا جائے۔ اگر وہ مجرم ہے تو تاریخ کو مطمئن کیا جائے، ثبوت وشواہد اگر ناکافی ہیں تو اس کی موت سے قبل جیتے جی اس کو بری کر دیا جائے۔ کیا نصیب کی دیوی کچھ مہربانی اور کرے گی۔؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments